نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    یاس منتخب رباعیات -مرزا یاس یگانہ چنگیزی

    (شاعر کو فلسفی کیا پائیگا ) وہ جوش وہ اضطراب منزل میں کہاں وہ شوق طلب تھکے ہوئے دل میں کہاں شاعر کی تہ کو فلسفی کیا پہنچے منجدھار کا زور شور ساحل میں کہاں ؟ مرزا یاس یگانہ چنگیزی
  2. فرحان محمد خان

    یاس رباعی : وہ کون یکانہؔ ؟ وہی غالبؔ کے چچا - مرزا یاس یگانہ چنگیزی

    رباعی بھونڈا پن ہے مذاقِ غالبؔ میں رَچا مرزا کا کمال اپنی نظر میں نہ جَچا محفل میں ہے اب رنگِ یکانہ غالب وہ کون یکانہؔ ؟ وہی غالبؔ کے چچا مرزا یاس یگانہ چنگیزی
  3. فرحان محمد خان

    نظم : مزدُور کا گیت - ایم ڈی تاثیر

    مزدُور کا گیت چکی پیسو ، روٹی کھاؤ اپنی محنت کا پھل پاؤ ہندو مسلم سب چھوٹے ہیں لانیحل ہیں یہ الجھاؤ ان جھگڑوں میں تم مت آؤ چکی پیسو ، روٹی کھاؤ !! حسن کی دنیا حسن کی دولت عیش و عشرت ناز و نعمت خسرو اور فرہاد کو دیکھو لاحاصل ہے عیش میں محنت خون پسینے پر نہ بہاؤ چکی پیسو ، روٹی کھاؤ ...
  4. فرحان محمد خان

    نظم : کارزار - ایم ڈی تاثیر

    کارزار لمبی لمبی پلکوں کے گہرے گہرے سائے میں سنسان فضائیں بستی ہیں ویران نگاہیں بستی ہیں لمبی لمبی پلکوں کی تیکھی تیکھی نوکوں سے شبنم ہار پروتی ہے کیا جگمگ جگمگ ہوتی ہے ! گہری گہری پلکوں کی اونچی اونچی دیواریں ترچھی ترچھی نظروں کی اوچھی اوچھی تلواریں دیواریں گر گر پڑتی ہیں...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : تیرے اندازِ تغافل کو حیا سمجھا تھا میں - ایم ڈی تاثیرؔ

    غزل تیرے اندازِ تغافل کو حیا سمجھا تھا میں جورِ پہیم کو بھی اک طرزِ وفا سمجھا تھا میں تجھ کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں اے فریبِ آرزو تم کیا تھے کیا سمجھا تھا میں شیوۂ تسلیم تھا مجھ کو مآلِ زندگی تیری ہر خواہش کو اپنا مدعا سمجھا تھا میں تشنہ کامانِ محبت کی امنگیں کچھ نہ پوچھ...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : نہ دلوں میں پاسِ وفا رہا، نہ جنوں میں تیشہ وری رہی - مولانا محمد عثمان کاشف

    غزل نہ دلوں میں پاسِ وفا رہا، نہ جنوں میں تیشہ وری رہی نہ گلوں میں رنگِ طرب رہا، نہ جنوں میں بخیہ گری رہی نہ ہمیں رہے نہ وہی رہے، جو رہی تو عِشوہ گری رہی نہ طلب رہی نہ کرم رہا، نہ متاعِ زخمہ وری رہی نہ وہ رنگِ پیرِ مُغاں رہا ، نہ ہوائے جام و سبو رہی نہ وہ دل رہا ، نہ جنوں رہا ، نہ جنوں کی بے...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا - صفی لکھنوی

    غزل موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا زہر ہے درد کا منّت کشِ درماں ہونا تیری قسمت میں جو اے دل ہے پریشاں ہونا خاک ہونا بھی تو خاکِ درِ جاناں ہونا نیو کھودی گئی جس دن مرے کاشانے کی جوش زن خاک کے پردے سے تھا ویراں ہونا دلِ مایوس میں جب کوئی تمنا ہی نہیں عین ساماں ہے مرا بے سر و ساماں...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا - صفی لکھنوی

    غزل دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا تنہا غریب وادئِ مشکل میں رہ گیا سوئے رقیب کس نے کیا قصدِ ناتمام درد اُٹھتے اُٹھتے آج مرے دل میں رہ گیا بندش سے حُسن غیر مقید کو واسطہ دیوانہ دل پرستشِ منزل میں رہ گیا خاطر نشینِ ہمّتِ اہلِ کرم ہوا جو حرفِ مدّعا لبِ سائل میں رہ گیا دیوانگانِ عشق...
  9. فرحان محمد خان

    غزل :چلنے لگے نہ ہجر کی آندھی کتاب میں - بیدل حیدری

    غزل چلنے لگے نہ ہجر کی آندھی کتاب میں تحریر کر نہ مجھ کو ہوا کی کتاب میں وہ چہرہ انہماک سے پڑھ تو لیا مگر گم ہو گئی ہے آنکھ کی پتلی کتاب میں اک موجِ رنگ اب بھی رواں کاغذوں پہ ہے اک روز رکھ گیا تھا وہ تتلی کتاب میں میں اس کا انتظار کروں گا تمام عمر وہ رکھ کے بھول جائے گا چٹھی کتاب میں...
  10. فرحان محمد خان

    افتخار عارف غزل : اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے- افتخار عارف

    غزل میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے مزارِ شمس پہ رومی ہیں حجتِ آخر کہ جو جہاں بھی ہے مرشد کے ساتھ رقص میں ہے ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے اُتاق کنگرۂ عرش کے چراغ کی لو کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : سنّتِ حق ہے کرو حضرتِ انسان سے عشق - عطا تراب

    غزل سنّتِ حق ہے کرو حضرتِ انسان سے عشق مجھ سے کافر کو بھی ہونے لگا ایمان سے عشق گاہے دانتوں سے بھی کھلتی نہیں ہاتھوں کی گرہ گاہے دشوار بھی ہو جاتے ہیں آسان سے عشق ہمیں معلوم ہے یہ عشق حقیقت میں نہیں ہم تو کرتے ہیں ترے عشق کے امکان سے عشق ایک درویش نے مجھ کو یہ بشارت دی ہے تیری پیشانی پہ...
  12. فرحان محمد خان

    افتخار عارف غزل : سخنِ حق کو فضیلت نہیں مِلنے والی - افتخار عارف

    غزل سخنِ حق کو فضیلت نہیں مِلنے والی صبر پر دادِ شجاعت نہیں مِلنے والی وقتِ معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل ڈُوبا جاتا ہے کہ مُہلت نہیں مِلنے والی زندگی نذر گزاری تو مِلی چادرِ خاک اِس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں مِلنے والی راس آنے لگی دُنیا تو کہا دِل نے کہ جا! اب تُجھے درد کی دولت نہیں مِلنے...
  13. فرحان محمد خان

    نظم : خزاں - بیدل حیدری

    خزاں گرد اُڑاتی ہوئی خزاؤں کے سر پہ وحشت کا بھوت طاری ہے سوکھے پتوں کا رقص جاری ہے فاختائیں اُداس بیٹھی ہیں جو بھی شاخِ چمن ہے ، ننگی ہے سارے گلشن میں خانہ جنگی ہے چہرہ اُترا ہوا ہے لمحوں کا چل رہی ہے ہوائے یرقانی رقص کرتی ہے خانہ ویرانی کہیں سبزہ نظر نہیں آتا یعنی کھا کھا کے زیست...
  14. فرحان محمد خان

    تعارف میرا تعارف

    خوش آمدید محترم
  15. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : اے مری زندگی اے مری ہم نوا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا - نصیر ترابی

    غزل اے مری زندگی اے مری ہم نوا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے اب کدھر جی لگے شامِ یاراں بتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں وہ زمیں ہی...
  16. فرحان محمد خان

    غزل:لہجہ و اسلوب و تجدیدِ ہُنر اپنی جگہ - بیدل حیدری

    غزل لہجہ و اسلوب و تجدیدِ ہُنر اپنی جگہ خود بناتا ہے کلامِ معتبر اپنی جگہ میرا دل اپنی جگہ اس کی نظر اپنی جگہ آئینہ اپنی جگہ ، آئینہ گر اپنی جگہ مانجھیوں کے گیت ، جھیلیں کشتیاں ، برحق سبھی اور اُونٹوں کا وہ صحرائی سفر اپنی جگہ آنکھ اشکوں کا وطن ہے اور بڑا پیارا وطن ہنس آخر چھوڑ کر جائیں کدھر...
  17. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : سکوتِ شب کو غزل خواں کہو کہ نیند آئے - عزیز حامد مدنی

    غزل سکوتِ شب کو غزل خواں کہو کہ نیند آئے جنوں کو سلسلہ جنباں کہو کہ نیند آئے سرشتِ خاک ہے تخلیقِ بسترِ اضداد بہم ہے عصمت و عصیاں کہو کہ نیند آئے شرارِ جستۂ ساعت کی تاب ناکی کو ستارۂ سرِ مژگاں کہو کہ نیند آئے ضمیرِ سنگ کو شائستۂ خراد کہو فسونِ لعل بدخشاں کہو کہ نیند آئے رفوگرانِ...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : برف باری کی وہ راتیں ، وہ شرارے آنسو - بیدل حیدری

    غزل برف باری کی وہ راتیں ، وہ شرارے آنسو ہائے وہ آنکھ کی وادی وہ ہمارے آنسو ٹوٹ کر یار کے دامن میں تو گر پڑتے ہیں کم سے کم ہم سے تو اچھے ہیں ہمارے آنسو اس طرح تیر رہی ہیں تری یادیں دل میں جس طرح آنکھ میں لیتے ہیں ہُلارے آنسو کون غرقاب کرے جسم کے کچے گھر کو پھینک آتا ہوں سمندر کے کنارے...
  19. فرحان محمد خان

    غزل : اس نے گل گاؤں سے جب رختِ سفر باندھا تھا - بیدل حیدری

    غزل اس نے گل گاؤں سے جب رختِ سفر باندھا تھا بچہ آغوش میں تھا ، پشت پہ گھر باندھا تھا اُنگلیوں پر بھی نچایا ہے سمندر ہم نے ہم نے اک دور میں چپو سے بھنور باندھا تھا اب جو دم گھٹتا ہے زنداں میں تو روتے کیوں ہو تمہی لوگوں نے تو دیوار کو دَر باندھا تھا یہ جو لوگوں کو اب آواز سے پہچانتا ہے...
Top