نصیر ترابی غزل : اے مری زندگی اے مری ہم نوا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا - نصیر ترابی

غزل
اے مری زندگی اے مری ہم نوا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے
اب کدھر جی لگے شامِ یاراں بتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں وہ زمیں ہی نہیں وہ فلک ہی نہیں
بے ستارہ ہے شب اے شبِ آشنا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

دیکھنا دور تک خاک اُڑنے لگی کس خرابے کو یہ راہ مُڑنے لگی
مجھ کو آواز دے وادئ جانفزا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

خَم بہ خَم راستے ، درمیاں مرحلے ، اک طرف بے دلی ، اک طرف حوصلے
ڈھونڈتا ہوں تجھے عمرِ برگشتہ پا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

سبز شاخوں سے گل یونہی چُننا کبھی گُل سے گلزار کے خواب بُننا کبھی
فرصتِ ابتدا حسرتِ انتہا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

کیا وہی صبح کے رنگ تصویر ہیں کیا وہی شام کے سائے زنجیر ہیں
کچھ تو معلوم ہو مجھ کو بادِ صبا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

اے مری شمعِ جاں صورتِ مہرباں اب یہ شہر گماں ہے دُھواں ہی دُھواں
تُو یقیں ہے مرا تُو کہیں ہے تُو آ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

چھب دکھائی نہ دے دُھن سنائی نہ دے کوئی گردشِ سراغِ رسائی نہ دے
چشمِ رنگ کی دھنک رقصِ دل کی صدا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

غم وہ بادل کے یکجا ٹہرتا نہیں ، دل وہ دریا کے یک سُو گزرتا نہیں
شاد و آباد رہنے کی رسمِ دعا ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
نصیر ترابی
1980ء
 
Top