رئیس امروہوی نظم : نذرِ عقیدت - رئیس امروہوی

نذرِ عقیدت
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

لو آج دعائے نیم شبی پیغامِ مسرت لائی ہے
اُمید کی نازک سی بدلی خوابوں کے اُفق پر چھائی ہے
اُس محوِ تغافل کو اے دل ! مدت میں مری یاد آئی ہے
کافر نے کوئی رنگین سی شے تحفے میں طلب فرمائی ہے

تاکید یہ ہے جس طرح بنے نذرانۂ خدمت پیش کروں
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

ظاہر ہے کے اس کو چاہ نہیں دولت کے حسیں سامانوں کی
دنیا کی جمیل آرائش کی عشرت کے نفیس ایوانوں کی
غزت نہیں اُس کی نظروں میں ہنگامہ پسند انسانوں کی
وہ حلم و سکوں کی دیوی ہے اس بستی میں دیوانوں کی

اُس پیکرِ خوبی کے آگے کیا حُسن و لطافت پیش کروں
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

کہنے کو تو کہہ دوں گردوں سے انجم کی ضائیں لاؤں گا
طوفانوں سے موتی رولوں گا صحرا سے فضائیں لاؤں گا
حوروں سے کرشمے مانگوں گا پریوں سے ادائیں لاؤں گا
شاعر سے تخیل مانگوں گا مطرب سے نوائیں لاؤں گا

اے کاش کہ اس سے بڑھ کر نذرانۂ اُلفت پیش کروں
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

پھولوں کا وہاں رتبہ ہی نہیں وہ پھول سا پیکر کافی ہے
خوشبو کی اُسے پروا ہی نہیں گیسوئے معنبر کافی ہے
آئینہ کبھی دیکھا ہی نہیں وہ عارضِ انور کافی ہے
زیور تو پسند آیا ہی نہیں خود ناز کا زیور کافی ہے

ان میں سے کوئی تحفہ کیوں کر ہنگامِ ارادت پیش کروں
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

اس سحرِ مجسّم کے آگے جادو میں کوئی اعجاز نہیں
اُس نورِ جہاں کے قدموں پر دولت کا کوئی اعزاز نہیں
محتاج کسی دیوانے کی وہ لیلٰئ بزمِ ناز نہیں
گو میں ہوں معنی قدرت کا بربط میں مرے آواز نہیں

اس بربط بے آواز کو کیا اے مطربِ قدرت پیش کروں
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

عشرت کے نظارے کافی ہیں آغوش طرب کے پالوں کو
فرصت ہی نہیں نظاروں کی ہم ایسے شکستہ حالوں کو
بہروپ بدلنے دو لاکھوں ہنگامہ طلب نقّالوں کو
آسان نہیں مائل کرنا ان شوخ جوانی والوں کو

اُلفت کا کوئی معیار نہیں کیا تحفۂ اُلفت پیش کروں ؟
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

واقف نہیں اپنی عظمت سے وہ ملکۂ عالی جاہ ابھی
معصوم جوانی کا جادو فتنوں سے نہیں آگاہ ابھی
چاہے تو زمیں پر سجدہ کریں جُھک جُھک کے یہ مہر و ماہ ابھی
معمور ہو اُس کے جلووں سے فطرت کی تجلّی گاہ ابھی

میں ایک تہی دامن شاعر کیا ہدیۂ عظمت پیش کروں ؟
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

سُنتا ہوں اُس کے پہلو میں اک درد رسیدہ دل ہے
یعنی وہ کماں ابرو والا خود تیر سے اپنے گھائل ہے
یہ سچ ہے تو میرے پاس بھی اک تحفہ ہے اسکے قابل ہے
اس تحفۂ بے قیمت پہ اگر مائی ہو تو پھر کیا مشکل ہے

یا قلبِ شکستہ نذر کروں یا اشک محبت پیش کروں
کافی ہے گر اُس کی خدمت میں یہ نذرِ عقیدت پیش کروں
رئیس امروہوی
 
میں ایک تہی دامن شاعر کیا ہدیۂ عظمت پیش کروں ؟
حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟

اچھا انتخاب
 
Top