غزل
ان ابروؤں کی سِدھی تھی نظر تو لگنی تھی
میں بے ہُنر تھا سو تیغِ ہنر تو لگنی تھی
بھلا ہوا کہ کنارے لگی بھرے دن میں
یہ ناؤ شام کو بھی گھاٹ پر تو لگنی تھی
میں حرف حرف اُٹھاتا رہا تھا گھر کے ستون
سو کوئی قیمتِ دیوار و در تو لگنی تھی
نگاہ نم ہے مگر پھر بھی روح سوزاں ہے
جو آگ تھی سرِ...
غزل
گلوں کے نقش سرِ آب دیکھنے کے لیے
ملی تھیں آنکھیں مجھے خواب دیکھنے کے لیے
میں جانتا ہوں کہ محفل میں لوگ آتے ہیں
مرے تنے ہوئے اعصاب دیکھنے کی لیے
میں خود اتر گیا پانی میں آخری حد تک
لہکتی جھیل کا مہتاب دیکھنے کے لیے
میں ریستوران میں آیا کروں گا بعد از مرگ
یہ اپنا حلقۂ احباب دیکھنے کے لیے...
غزل
کیا سوچتا ہے ، یاد کا سورج طلوع کر
چوپال بھر چکی ہے ، کہانی شروع کر
آئے نہ حرف خود ہی ترے سرد و گرم پر
دریافت تو نہ اسکا محلِ وقوع کر
دربارِ شاہ وقت کے آداب بھی تو سیکھ
سجدہ تو کرنا بعد میں ، پہلے رکوع کر
تفتیش اپنے ہاتھ میں لے ، اپنے قتل کی
خود ہی تلاش شہر میں جائے وقوع کر
ساجدؔ...
غزل
بدن پر مَیل اور چہرے پہ گردِ راہ کا رہنا
کوئی رہنا یہاں ہے شخصِ بے تنخواہ کا رہنا
کسی دن اپنی حیثیت گنوا بیٹھے گا ساحل بھی
سمندر کے قریب اچھا نہیں ہے چاہ کا رہنا
مرا سینہ بھی گویا وادیِ تاریک ٹھہرا ہے
کہ اس بستی میں رہنا یے دلِ گُمراہ کا رہنا
کئی برسوں کے بعد آخر فلک نیچے اُتر آیا...
غزل
کل کو جاری قتل کا فرمان بھی ہو جائے گا
دستخط تو ہو چکے ، اعلان بھی ہو جائے گا
غیر کے کالے سمندر میں گرا دے گا کوئی
میں اگر دریا ہوں ، وہ ڈھلوان بھی ہو جائے گا
شب سیاہی بھی مری قسمت میں لکھی جائے گی
اور طلوعِ صبح کا اعلان بھی ہو جائے گا
رفتہ رفتہ حسرتوں کی آگ بھی برفائے گی
آنسوؤں کا...
غزل
احساس کی تہوں میں جو موجِ قلق چلے
قرطاس پر زبانِ قلم ہو کے شق چلے
ہے دہر کی نہاد ہی سرگشتۂ رسوم
حق کو بھی ایک رسم بنائیں تو حق چلے
کب تک بچا بچا کے رکھوں اک نگہ کی یاد
مانگے کی زندگی کی کہاں تک رمق چلے
اُس کے نقوشِ پائے حنا بستہ دیکھ کر
مٹی پہ آسماں سے اُتر کر شفق چلے
ہم جس کو...
غزل
دنیا کتاب میں ہے نہ عقبیٰ نصاب میں
خاموش ہے وفا صلۂِ غم کے باب میں
جوہر ہے زندگی کا فقط پیچ و تاب میں
ورنہ ہے اٹھ کے بیٹھنے والا بھی خواب میں
تو نے تو لکھ رکھا ہے سبھی کچھ کتاب میں
ہم زندگی گزار گئے کس حساب میں
قسمت نہ ہو خراب جہانِ خراب میں
غم کھا گیا ہے دل کو ڈبو کر شراب میں
مرتا ہے...
غزل
مسکراہت نقش ہے ہونٹوں پہ عبرت کی طرح
نم بہت کم رہ گیا آنکھوں میں حیرت کی طرح
زندگی گزری بہت پُرلطف بھی ، سنسان بھی
سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح
آدمی کی خصلتوں ہی میں ہے اُس کی سرنوشت
ہے مرا رنگِ طبیعت میری قسمت کی طرح
کھیلتی ہیں آج اک دشتِ محن میں بار بار
میرے بالوں سے ہوائیں...
غزل
پہنچا نہ کوئی اُس دُرِ معنٰی کی چمک تک
جو روح سے چلتا ہُوا آیا ہے پلک تک
اک سطرِ ابدتاب مچلتی ہے مسلسل
تیرے گُلِ ایماں سے مرے غنچۂ شک تک
یہ تلخیِ تاریک ، یہ شیرینیِ روشن
لے جائے اگر سرمئی چہرے سے نمک تک
سُمرن کی دمک جی میں لہکتی ہے سرِ شب
خوابیدہ ہوں اک سِلکِ ستارہ کی ڈلک تک
اک...
غزل
تم کو مری افتاد کا اندازہ نہیں ہے
تنہائی صلہ ہے مرا خمیازہ نہیں ہے
تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہرگز کہ مرے گرد
دیوار ہی دیوار ہے دروازہ نہیں ہے
مدّھم ہے نوا میری کسی اور سبب سے
یہ بات نہیں ہے کہ غمِ تازہ نہیں ہے
ہیں شرق سے تا غرب پریشان مرے ذرّات
جُز موجِ صبا اب کوئی شیرازہ نہیں ہے
جو...
غزل
کھلنے کی فصل بیت گئی ،جَھڑ کے سو رہو
دورِ خزاں شعار ہے ، بس پَڑ کے سو رہو
کیسا عجیب عشق ہے ، از صبح تا بہ شام
ہنستے رہو ، پہ رات پڑے لَڑ کے سو رہو
اک شکل قَرن قَرن سے خُفتہ ہے خون میں
ہستی ہے کم بساط ، اُسے گَھڑ کے سو رہو
بالیں پہ منتظر ہے کوئی لمحۂ وصال
یہ کیا کہ ایک بات پہ ہی اَڑ...
شاعر
ہم فخرِ فلک لوگ جو پرودۂ گِل ہیں
ہر صبح خرد خوار ہیں، ہر شام خجل ہیں
کہنے کو تو نبّاض ہیں یا دہر کا دل ہیں
در اصل یونہی کارِ زمانہ میں مخل ہیں
ہر آن بدلتے ہیں غلافِ حرمِ حرف
اور اپنا مقدر ہے طوافِ حرمِ حرف
اختر عثمان
غزل
بار بار ایک ہی برچھی سے چھلو ، اور ملو
منع کرتے تھے نا ! لو ، اور ملو ، اور ملو
دہنِ غنچہ پہ گرتی ہے نظر کی شبنم
خندہ و گریہ لیے سادہ دلو ، اور ملو
وقت جو سب کا رفو کار ہے ، زچ ہے تم سے
اب کہیں اور چھلو ، اور سلو ، اور ملو
کیا وہ بیلیں کوئی کم تھیں سرِ دیوارِ ضمیر
زخم در زخم ہنسو ،...
غزل
کبھی ہم بھی کسی کی بزم سے بسمل نکلتے تھے
سراپا چشم جاتے تھے سراپا دل نکلتے تھے
مثالِ چاہِ نخشب تھی کبھی سینے کی گہرائی
کہ ہر ہر بات پر لب سے مہِ کامل نکلتے تھے
ہزاروں لغزشوں پر بھی نہ تھا گُم گشتگی کا ڈر
سبھی رستے بسوئے کوچۂ قاتل نکلتے تھے
کہاں کا بادباں ، پتوار کیسے ، ناخدا کس کا...
غزل
جی اُلجھتا ہے مری سمت جو یوں دیکھتی ہو
جانے تم کون ہو ، اور غور سے کیوں دیکھتی ہو
اک تلاطم سے ذرا پہلے کی کیفیت ہے
یہ جو تم کچھ مرے چہرے پہ سکوں دیکھتی ہو
کچھ بھی ہو دشتِ محبت نہیں طے ہونے کا
کیا مجھے دیکھتی ہو ، میرا جنوں دیکھتی ہو
تاب دل میں نہیں سنگیں نظری کی صاحب !
دیکھتی کب ہو...
غزل
جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی
تصویر بھی دیکھوں تو یاد آئے فراموشی
آنکھوں کو شکایت تھی یادوں کے عذابوں سے
اب دیکھئے جو کچھ بھی دکھلائے فراموشی
دو دن کو ہے یہ سارا ہنگامہ من و تُو کا
ہرنقش بہا دے گا دریائے فراموشی
اس دل کے بھی ہو شاید باقی کسی گوشے میں
اک یاد جسے کہیے ، ہمتائے...
غزل
مجھ سے محروم رہا میرا زمانہ خورشید
مجھ کو دیکھا ،نہ کسی نے مجھے جانا خورشید
آنکھ میں تھی کہیں تازہ کہیں فرسودہ نگاہ
زیرِ افلاک نیا کچھ نہ پرانا خورشید
ڈھونڈنا ہے تو مجھے ڈھونڈ سخن میں میرے
تابِ خورشید حقیقت ہے فسانہ خورشید
ڈوبتی شام یہ کہتی ہے ہلاتے ہوئے ہاتھ
صبح دم دیر نہ کرنا ،...
غزل
تراش محو ہوئی ،خدوخال سے بھی گئے
کچھ آئنے کہ تری دیکھ بھال سے بھی گئے
گہے گہے نگہِ نیلگوں تھی مرہم گیر
وہ بجھ گئی تو فقیر اندمال سے بھی گئے
یہ کارِ گفتنِ احوال کوئی سہل ہے کیا
وہ چپ لگی ہے کہ تابِ سوال سے بھی گئے
کہاں نشاط کی وہ ساعتیں، وہ درد کی لو
کہاں یہ حال کہ تیرے ملال سے بھی گئے...
غزل
دربدری کا دور ہے ، حرفِ سخن سرا میں رہ
معنی و مدعا میں جی ، رقص و رَمِ صبا میں رہ
شیشۂ تاکِ تازہ میں موج ِ مئے ہنر کہاں
کہنہ خُمار میں اتر ، نشّۂ پیش پا میں رہ
روشنی اور تیرگی دَور بہ دَور ساتھ ہیں
وقتِ نبود و بُود ہے ، لمحۂ سُرمہ سا میں رہ
نام و نمود کی ہوَس خوب سہی پہ تا بہ کے
خود میں...
غزل
گلِ پژمردہ کو اک بادِ صبا کیا دیتی
مانگ بھی لیتے اگر ہم تو دعا کیا دیتی
وسوسوں اور سوالوں کے سوا کیا دیتی
عقل کامل بھی اگر ہوتی بھلا کیا دیتی
بے نیازی ہی مقدر ہے ہمارا شاید
تیری مخلوق ہمیں تجھ سےجدا کیا دیتی
بے نواؤں کی خدا تک نہیں جاتی فریاد
بے نواؤں کو بھلا خلقِ خدا کیا دیتی
اپنے...