غزل : بار بار ایک ہی برچھی سے چھلو ، اور ملو - اختر عثمان

غزل
بار بار ایک ہی برچھی سے چھلو ، اور ملو
منع کرتے تھے نا ! لو ، اور ملو ، اور ملو

دہنِ غنچہ پہ گرتی ہے نظر کی شبنم
خندہ و گریہ لیے سادہ دلو ، اور ملو

وقت جو سب کا رفو کار ہے ، زچ ہے تم سے
اب کہیں اور چھلو ، اور سلو ، اور ملو

کیا وہ بیلیں کوئی کم تھیں سرِ دیوارِ ضمیر
زخم در زخم ہنسو ، اور کھلو ، اور ملو

کن گمانوں میں گِھرے بُت سے کھڑے ہو اخترؔ
راہ نکلے گی کوئی ، کچھ تو ہلو ، اور ملو
اختر عثمان
 
Top