غزل : ان ابروؤں کی سِدھی تھی نظر تو لگنی تھی - اختر عثمان

غزل
ان ابروؤں کی سِدھی تھی نظر تو لگنی تھی
میں بے ہُنر تھا سو تیغِ ہنر تو لگنی تھی

بھلا ہوا کہ کنارے لگی بھرے دن میں
یہ ناؤ شام کو بھی گھاٹ پر تو لگنی تھی

میں حرف حرف اُٹھاتا رہا تھا گھر کے ستون
سو کوئی قیمتِ دیوار و در تو لگنی تھی

نگاہ نم ہے مگر پھر بھی روح سوزاں ہے
جو آگ تھی سرِ دہلیز ، گھر تو لگنی تھی

میں عین عشق تھا اور عاجزی تھی عشق کی زیر
اُدھر انا تھی ، اور اُس پر زبر تو لگنی تھی

گنوائی قرنوں کی نیند اور خواب سے بھی گیا
لگی تھی آنکھ ، مگر لمحہ بھر تو لگنی تھی

نہ مفت بَر تھا کہ بس مُنہ اُٹھائے چل دیتا
بہ اہتمام گیا تھا خبر تو لگنی تھی

میں بُوذروں میں تھا اور یوں بطورِ خمیازہ
مجھے سنانِ خدایانِ زر تو لگنی تھی

اب اپنا حُزن ہے ، شب ہے ، کتاب خانہ ہے
کسی بہانے طبیعت اِدھر تو لگنی تھی
اختر عثمان
 
آخری تدوین:
Top