غزل : دنیا کتاب میں ہے نہ عقبیٰ نصاب میں - راحیلؔ فاروق

غزل
دنیا کتاب میں ہے نہ عقبیٰ نصاب میں
خاموش ہے وفا صلۂِ غم کے باب میں

جوہر ہے زندگی کا فقط پیچ و تاب میں
ورنہ ہے اٹھ کے بیٹھنے والا بھی خواب میں

تو نے تو لکھ رکھا ہے سبھی کچھ کتاب میں
ہم زندگی گزار گئے کس حساب میں

قسمت نہ ہو خراب جہانِ خراب میں
غم کھا گیا ہے دل کو ڈبو کر شراب میں

مرتا ہے پیر ہو کے اسی اضطراب میں
جس جس نے دادِ عشق نہ دی ہو شباب میں

سانسیں کھنچی ہوئی ہیں نظر کی طناب میں
ہے تشنگانِ جلوہ کا خیمہ سراب میں

رگ رگ میں ہے جمود کی خون انقلاب کا
مرتا نہیں جمود کسی انقلاب میں

کہیے کسے رقیب کہ سب ہم نوالہ ہیں
ہڈّی بنی ہوئی ہے محبت کباب میں

ہستی کی اصل عقل نے پائی ہے نیستی
نکلا ہے عشق حسن کے لُبِّ لباب میں

میں لاجواب ہونے کو ہوں مجھ سے کچھ نہ پوچھ
تجھ سے کوئی سوال نہ کر دوں جواب میں

کانٹوں نے بڑھ کے آپ ہی دامن پکڑ لیا
یہ کسر رہ گئی تھی مرے انتخاب میں

سرمایۂِ نظر ہے فقط نقطۂِ نظر
ہونا حجاب میں ہے نہ ہونا نقاب میں

راحیلؔ ادب ہے کیا ادبِ حسن کے سوا
پڑھ دے غزل قصیدۂِ عالی جناب میں
راحیلؔ فاروق
ماخوذ
 
Top