غزل : پہنچا نہ کوئی اُس دُرِ معنٰی کی چمک تک - اختر عثمان

غزل
پہنچا نہ کوئی اُس دُرِ معنٰی کی چمک تک
جو روح سے چلتا ہُوا آیا ہے پلک تک

اک سطرِ ابدتاب مچلتی ہے مسلسل
تیرے گُلِ ایماں سے مرے غنچۂ شک تک

یہ تلخیِ تاریک ، یہ شیرینیِ روشن
لے جائے اگر سرمئی چہرے سے نمک تک

سُمرن کی دمک جی میں لہکتی ہے سرِ شب
خوابیدہ ہوں اک سِلکِ ستارہ کی ڈلک تک

اک خاتمِ عشّاق بہ یاقوت سرِ شام
جاتا ہے کسی کے لبِ لعلیں کی للک تک

زندان کی دیوار پہ ہیں نقش بہت سے
ہِر پِھر کے نطر جاتی ہے تصویرِ فلک تک

دم بھر کو میّسر ہو رفاقت جو نگہ کی
اے دل ! کبھی اس خواب کو تعبیر تلک تک

جولانیِ جلوہ سے مجھے کام ہے اخترؔ
جیتا ہوں کسی رو کی فقط ایک جھلک تک
اخترعثمان
 
Top