غزل : بدن پر مَیل اور چہرے پہ گردِ راہ کا رہنا - اقبال ساجد

غزل
بدن پر مَیل اور چہرے پہ گردِ راہ کا رہنا
کوئی رہنا یہاں ہے شخصِ بے تنخواہ کا رہنا

کسی دن اپنی حیثیت گنوا بیٹھے گا ساحل بھی
سمندر کے قریب اچھا نہیں ہے چاہ کا رہنا

مرا سینہ بھی گویا وادیِ تاریک ٹھہرا ہے
کہ اس بستی میں رہنا یے دلِ گُمراہ کا رہنا

کئی برسوں کے بعد آخر فلک نیچے اُتر آیا
بہت اچھا لگا دھرتی پہ مہر و ماہ کا رہنا

زمانہ کہہ رہا ہے جب خُدائے شاعری مجھ کو
مرے چہرے پہ سجتا ہے جلال و جاہ کا رہنا
اقبال ساجد
 
Top