نتائج تلاش

  1. رشید حسرت

    غزل: مے تُمہاری دی ہُوئی، مے کش تُمہارا، جام بھی :: از رشید حسرت

    مے تُمہاری دی ہُوئی، مے کش تُمہارا، جام بھی میں تُمہیں بُھولُوں گا مت رکھنا خیالِ خام بھی شاعری سے پیٹ پُوجا ہو کبھی دیکھا نہیں شعر کہنا ٹِھیک ہے لیکِن کرو کُچھ کام بھی بُھول بیٹھا ہوں تُمہیں پر بر سبیلِ تذکرہ نام ہونٹوں پر مچلتا تھا ابھی کل شام بھی اپنے بچّوں کے لیئے آرام کی تھی کھوج یُوں...
  2. رشید حسرت

    غزل :: ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ : از : رشید حسرت

    ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ رشید حسرت ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ آ نہ پایا لیکن دُوجا، ہم دونوں کے بِیچ کیا موسم تھے، کیسے دِن تھے دوری بِیچ نہیں تھی حائل فاصلہ اب صدیوں کا ہم دونوں کے بِیچ یوں ہی رشتے، ناتے اک دِن بھسم تو ہو جانے تھے باقی رہ گیا ایک دِلاسہ ہم دونوں...
  3. رشید حسرت

    گُلاب اور کوئی۔

    بات کُچھ اور تھی پر لُبّ لُباب اور کوئی پائی تعبِیر کوئی اور، تھا خواب اور کوئی سخت موسم تو گُلستاں کے سبھی ہم نے سہے لے گیا چُن کے مگر سارے گُلاب اور کوئی ایرے غیرے کے لیئے دل میں لچک کیا رکھنا تھا جو اِک شخص مگر اُس کا حساب اور کوئی کیا نِکالے گا بھلا حل وہ مُعمّوں کا حُضور ہم نے پُوچھا ہے...
  4. رشید حسرت

    تشہیر کرنا۔

    تشہِیر کرنا۔ لِکھا میں نے تُمہیں اب تُم مُجھے تحرِیر کرنا گواہی دے تِرا دِل جو وُہی تعبِیر کرنا تُمہیں جب بھی لگے میں تُم سے باہر جا رہا ہوں بس اپنی زُلف میرے پاؤں کی زنجِیر کرنا مُجھے تُم ایک تھیلا دے کے آٹا سوچتے ہو تُمہارا حق ہے میری ہر طرح تشہِیر کرنا بُڑھاپے کی مِرے تُم لِکھ رہے ہو...
  5. رشید حسرت

    اردو ہماری جان (ترمیمی)-

    اردو ہماری جان۔ اُردو ہے ذرا سوچ سمجھ کے ہی غزل کر کم کم ہے تُجھے شعر کا عرفان سنبھل کر۔ دکنؔ کا ولیؔ اِس کے بہُت ناز اُٹھائے الفاظ نئے طرز کے ہیں اِس میں کھپائے ساجن کے لیئے گِیت نئے جُھوم کے گائے نکھرے ہیں نئے شعر نئے سانچوں میں ڈھل کر کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر خُسروؔ...
  6. رشید حسرت

    میں تُجھ کو کروں یاد یا تُو مُجھ کو کرے یاد

    میں تُجھ کو کروں یاد یا تُو مُجھ کو کرے یاد ماضی کے جھروکوں میں عجب رنگ بھرے یاد یہ کِس نے کہا وقت نے دُھندلائے تِرے نقش فانُوس جلے رکھتا ہوں پلکوں پہ سرِ یاد چہرے پہ مِرے وقت نے بھبُوت رمائی اب تو ہے وُہی بات کہ خُود مُجھ سے ڈرے یاد اک عُمر ہوئی پیار کا تابُوت اُٹھائے ہر شئے پہ فنا آئی ہے...
  7. رشید حسرت

    اردو ہماری جان

    اُردو ہماری جان اُردو ہے یہ سنبھل کے ذرا، دیکھ بھال کر اِس کو جوان ہم نے کِیا پُوس پال کر دکنؔ کا ولیؔ اِس کے بہُت ناز اُٹھائے الفاظ نئے طرز کے ہیں اِس میں کھپائے پِریتم کے لیئے گِیت نئے جُھوم کے گائے رکھا ہے اِسے شعروں کے سانچوں میں ڈھال کر اِس کو جوان ہم نے کِیا پُوس پال کر...
  8. رشید حسرت

    سکتا تھا۔

    سکتا تھا۔ تیرا قرضہ اُتار سکتا تھا دِل محبّت میں ہار سکتا تھا کام محنت طلب نہ تھا ہرگز مُجھ کو آنکھوں سے مار سکتا تھا ایک میں گُونجتا تھا اُس بن میں چار سُو میرے یار سکتہ تھا سر ہی اُس کا قلم کیا میں نے میری پگڑی اُتار سکتا تھا غیر کو تُو نے دی صدا ورنہ تُو مجھے بھی پُکار سکتا تھا تُو نے...
  9. رشید حسرت

    نہ دیکھا ہم نے۔

    نہ دیکھا ہم نے۔ کوئی بھی لمحہ سُکون والا نہ دیکھا ہم نے اندھیرے دیکھے کہِیں اُجالا نہ دیکھا ہم نے اِسی کو کہتے ہیں زِندگانی، کوئی بتاؤ؟ کبھی بھی راحت بھرا نِوالہ نہ دیکھا ہم نے کبھی کہِیں عورتیں اِکٹھی اگر ہُوئی ہیں سکُوت کا اِن کے لب پہ تالا نہ دیکھا ہم نے ہمیں ہے تسلیم دِل پُرانی حویلی...
  10. رشید حسرت

    پڑتا ہے گلنا۔

    پڑتا ہے گلنا۔ سفر میں راستوں کے ساتھ چلنا کرو سامان پِھر گھر سے نِکلنا ابھی تو رات گہری ہو چلی ہے ابھی آگے دِیّوں کے سنگ جلنا مزہ جِینے کا تُم کو چاہِیئے گر کِسی کی آرزُو بن کر مچلنا ہمیں اپنا بنا لو آج دیکھو تُمہیں موقع ملے گا ایسا کل نا ابھی بھی وقت ہے اے دل سنبھل جا فِراق و ہِجر میں پڑتا...
  11. رشید حسرت

    علی الاعلان ہو گا۔

    علی الاعلان ہو گا۔ یقیناً یہ بڑا احسان ہو گا نیازِ حُسن جو کُچھ دان ہوگا بُجھا لینے دو پہلے پیاس من کی پِھر اُس کے بعد جو فرمان ہو گا مکاں ہم نے بھی چھوڑا، تُم گئے تو بُجھے دِل کی طرح وِیران ہو گا مسل دے دِل کو جو غُنچہ سمجھ کر نہِیں اِنساں، کوئی حیوان ہو گا ہمیں مِلنے کی تُم سے جیسی چاہت...
  12. رشید حسرت

    کلام کرتا رہا۔

    کلام کرتا رہا۔ فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ...
  13. رشید حسرت

    دل نذیر آ گئے۔

    دل پذیر آ گئے۔ اتنا تھا سوز چیخ میں سُن کر فقیر آ گئے گُوندھا ہؤا تھا عشق میں دل کا خمیر آگئے ھم نے کسی بھی درد سے دل کو بچا لیا تو تھا لیکن نِشانہ ڈُھونڈتے (کیا ھے کہ) تِیر آ گئے لو ہم نے چُن لیا تُمہیں، لو ہم تُمہارے ہو لِیئے لو موسموں میں مرحلے وہ دِل پذیر آ گئے جِن کو شعُور و آگہی،...
  14. رشید حسرت

    سائے کی طلب کیا۔

    سائے کی طلب کیا سفر ہے، اِس میں سائے کی طلب کیا چلا ھوں دُھوپ میں آرام اب کیا میں اپنے باپ کے تابع کہاں تھا اگر بیٹا ہے نا فرمان عجب کیا؟ چلو سب مان لِیں شرطیں تُمہاری بہانہ حِیل و حُجّت کا ھے اب کیا مِرا سب کچھ ادھورا رہ گیا ھے نہ آیا مُدعا یہ تا بہ لب، کیا؟ محبّت میں لُٹا بیٹھا ہوں سب...
  15. رشید حسرت

    یادوں کا سنسار۔

    یادوں کا سنسار۔ زباں کا مُنہ میں اِک ٹکڑا سا جو بیکار رکھا ہے یہ میرا ظرف ہے لب پر نہ کُچھ اِظہار رکھا ہے مِرے اپنوں نے ہی مُجھ کو حقارت سے ہے ٹُھکرایا کہوں کیا دِل میں شِکووں کا بس اِک انبار رکھا ہے یہ سوچا تھا محل سپنوں کا ہی تعمِیر کر لیں گے مگر تُم نے ہمیشہ کو روا انکار رکھا ہے چلو...
  16. رشید حسرت

    کیا ضروری ہے؟

    کیا ضروری ہے؟ بڑھاؤں اُن کی طرف ہات، کیا ضروری ہے؟ کریں وہ مُجھ سے کوئی بات، کیا ضروری ہے؟ کبھی کبھار تو ہوتی ہے بادلوں کے بغیر فقط ہو ابر میں برسات، کیا ضروری ہے؟ میں بِیچ راہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں رہوں میں منزلوں پہ سات، کیا ضروری ہے؟ اُداسیوں میں بِلا وجہ کھو کے رہتا ہوں تصوُّرات...
  17. رشید حسرت

    دیکھ تو لو۔

    دیکھ تو لو۔ تُمہارے بعد کے حالات اِدھر کے دیکھ تو لو ذرا گہرائیوں میں تم اُتر کے دیکھ تو لو تُمہیں دِل کو سجانے کا ھُنر آتا تو ھوگا یہ کُچھ بِکھرے ہُوئے اسباب گھر کے دیکھ تو لو نہیں کہ تُم سے دولت کا تقاضہ کر لیا ھے یہی کہ مُعجزے شعر و ہنر کے دیکھ تو لو کہِیں پہ خُود کو رکھ کے بُھول...
  18. رشید حسرت

    دیکھ تو لو۔

    ادا کر کے۔ یاد پھینکی ھے دُور اُٹھا کر کے تنگ کرتی ہے تھی پاس آ کر کے پِھر سے کھونا کریں گوارا کیوں "تُجھ کو مانگا بہت دُعا کر کے" آخری قرض ہے بِچھڑ جانا لوٹ جائیں گے کل ادا کر کے کوئی مُدّت سے اِنتظار میں ہے دیکھ آنا اُسے بھی جا کر کے قِیمتی چِیز ہے جفا یارو ہم نے پائی، بہت وفا کر کے...
  19. رشید حسرت

    ادا کر کے۔

    ادا کر کے۔ یاد پھینکی ھے دُور اُٹھا کر کے تنگ کرتی ہے تھی پاس آ کر کے پِھر سے کھونا کریں گوارا کیوں "تُجھ کو مانگا بہت دُعا کر کے" آخری قرض ہے بِچھڑ جانا لوٹ جائیں گے کل ادا کر کے کوئی مُدّت سے اِنتظار میں ہے دیکھ آنا اُسے بھی جا کر کے قِیمتی چِیز ہے جفا یارو ہم نے پائی، بہت وفا کر کے...
  20. رشید حسرت

    خسارہ کیوں ہو۔

    خسارہ کیوں ہو۔ جِس نے ناشاد کیا، نام تُمہارا کیوں ہو تُم پہ اِلزام مِرے دوست گوارا کیوں ہو شب سِسکتے ہُوئے گُزری ہو بھلا کیوں میری روتے روتے میں کوئی دِن بھی گُزارا کیوں ہو۔ صاف کپڑوں میں مگر دیکھ کے جلتے ہیں امیر بس میں اِنکے ہو، مُجھے نان کا پارا کیوں ہو بُھوک و افلاس کا ہے راج یہاں چاروں...
Top