دل نذیر آ گئے۔

رشید حسرت

محفلین
دل پذیر آ گئے۔

اتنا تھا سوز چیخ میں سُن کر فقیر آ گئے

گُوندھا ہؤا تھا عشق میں دل کا خمیر آگئے

ھم نے کسی بھی درد سے دل کو بچا لیا تو تھا
لیکن نِشانہ ڈُھونڈتے (کیا ھے کہ) تِیر آ گئے

لو ہم نے چُن لیا تُمہیں، لو ہم تُمہارے ہو لِیئے
لو موسموں میں مرحلے وہ دِل پذیر آ گئے

جِن کو شعُور و آگہی، چُھو کر کبھی گئی نہیں
افسوس کا مقام ہے، وہ بھی وزیر آ گئے

بے جُرم دھر لیئے گئے، تھانے پٹخ دیئے گئے
آئے حوالدار کیا، منکِر نکِیر آ گئے۔

مانا کہا تھا جب کبھی دو گے صدا تو آئیں گے
تم نے اِشارہ دے دیا، ہو کر اسیر آ گئے

سب سےگناہ گار کی فہرست بن رہی ہے آج
درجہ شمار عجیب ہے، پہلے امیرؔ آ گئے

تم نے تو غرق ہونے کے سب انتظام کر دیئے
بیڑا یہ ڈوبنے کو تھا کہ دستگیر آ گئے

ہم نے خیالِ شعر میں حسرتؔ مشاعرہ رکھا
غالبؔ تھے، داغؔ و مصحفیؔ آخر میں میرؔ آ گئے۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top