خسارہ کیوں ہو۔

رشید حسرت

محفلین
خسارہ کیوں ہو۔


جِس نے ناشاد کیا، نام تُمہارا کیوں ہو
تُم پہ اِلزام مِرے دوست گوارا کیوں ہو

شب سِسکتے ہُوئے گُزری ہو بھلا کیوں میری
روتے روتے میں کوئی دِن بھی گُزارا کیوں ہو۔

صاف کپڑوں میں مگر دیکھ کے جلتے ہیں امیر
بس میں اِنکے ہو، مُجھے نان کا پارا کیوں ہو

بُھوک و افلاس کا ہے راج یہاں چاروں طرف
اپنی دھرتی کا ہی گردِش میں سِتارا کیوں ہو

بِالیقیں اور کِسی نے ہے اُسے اُکسایا
پُھول کے مُجھ سے مِرا دوست غُبارہ کیوں ہو؟


میں نے جِس راہ پہ کھائی ہے شِکست اے لوگو
ایسے جادہ سے گُزر اپنا دُوبارا کیوں ہو؟

جو بھی نقصان ہُؤا، مُجھ سے ازالہ لینا
سچ تو یہ ہے کہ مُحبّت میں خسارہ کیوں ہو

مُجھ کو تقدِیر سے بے وجہ شِکایت ہی رہی
کھینچ قِسمت نے مُجھے فرش پہ مارا کیوں ہو۔


جِس نے ہر حال میں غُربت میں تیرا ساتھ دیا
آج مِیری میں رشیدؔ اُس سے کنارا کیوں ہو۔


پروفیسر رشید حسرتؔ۔
 
Top