پڑتا ہے گلنا۔

رشید حسرت

محفلین
پڑتا ہے گلنا۔

سفر میں راستوں کے ساتھ چلنا
کرو سامان پِھر گھر سے نِکلنا

ابھی تو رات گہری ہو چلی ہے
ابھی آگے دِیّوں کے سنگ جلنا

مزہ جِینے کا تُم کو چاہِیئے گر
کِسی کی آرزُو بن کر مچلنا

ہمیں اپنا بنا لو آج دیکھو
تُمہیں موقع ملے گا ایسا کل نا

ابھی بھی وقت ہے اے دل سنبھل جا
فِراق و ہِجر میں پڑتا ہے گلنا

جوانی کی حقِیقت بس یہی ہے
پڑے گا ایک دِن اِس کو بھی ڈھلنا

بڑے چرچے سُنے تھے زِندگی کے
ہمیں حسرتؔ جچی ہے ایک پل نا۔


رشِید حسرتؔ۔
 
Top