غزل
جنگ اندھیرے سے بادِ برہم تک
ہے چراغوں کی آخری دم تک
آدمی پر نجانے کیا گزری
ابنِ آدم سے ابنِ درہم تک
تم مسیحا کی بات کرتے ہو ؟
ابھی خالص نہیں ہے مرہم تک !
معجزہ دیکھئے توکّل کا !
ریگِ صحرا سے آبِ زمزم تک
داستا ں ہے شگفتنِ دل کی
خندہء گل سے اشکِ شبنم تک
اک سفر ہے کہ طے نہیں ہوتا...