ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں
تھک ہار کر ضمیر مرا سوگیا کہیں

کھولی تھی جس میں آنکھ جوانی کے خواب نے
وہ رَت جگوں کا شہر مرا کھوگیا کہیں

کچھ دیر کو ملے تھے سر ِراہ ِاحتیاج
پھر یوں ہوا کہ میں کہیں ، اور وہ گیا کہیں

اُگتی ہے کشتِ ذات میں مایوسیوں کی پود
کچھ خواہشوں کے بیج کوئی بوگیا کہیں

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۳​
 
آخری تدوین:
Top