نتائج تلاش

  1. محمد شکیل خورشید

    1992 کی ایک غزل

    1992 میں رشتہ ازدواج میں بندھا تو نکاح اور رخصتی کے درمیانی عرصہ میں (تقریباََ نو ماہ) یہ غزل لکھی، ہر شعر کا پہلا حرف ملاتے جائیں تو جنت مکانی کا نام بن جاتا ہے محترم الف عین محترم محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر اساتذہ و احباب کی رہنمائی کی منتظر اب تو بس انتظار آپ کا ہے...
  2. محمد شکیل خورشید

    ایک اور غزل

    اساتذہ اور احباب کی حوصلہ افزائی پر ایک اور جسارت پیش ہے رہنمائی کا متمنی رہوں گا ابھی تو کرب کے لمحے ہیں باقی ابھی تو درد کے قصے ہیں باقی ابھی تو جان تم پر وارنی ہے ابھی تو عمر کے صدقے ہیں باقی محبت ،عشق ،نفرت، مٹ گئے سب یہ کچھ بے نام سے جذبے ہیں باقی نئی رت کی سنائیں کیا ابھی تو وہ پچھلے...
  3. محمد شکیل خورشید

    پہلی جسارت

    اصلاحِ سخن میں ایک غزل پر محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی حوصلہ افزائی کے باعث یہاں اپنا تازہ کلام پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے اساتذہ کی رہنمائی یہاں بھی حاصل رہے گی شکریہ پہنچی نہیں ہے میری صدا اُس جناب میں یوں بے رخی نہ تھی کبھی اُن کے جواب میں ہر ذی نفس اُٹھائے ہے اپنی صلیبِ درد...
  4. محمد شکیل خورشید

    غزل کی اصلاح درکار ہے

    کرب چہرے سے یوں عیاں کیوں ہے کیا ہوا، ضبط رائیگاں کیوں ہے جب تبسم سجا لیا لب پر درد آنکھوں سے پھر رواں کیوں ہے پا چکے محنتوں کا پھل سب لوگ میرے حصے میں امتحاں کیوں ہے میرا دل تو نہیں ہے شہر ہے یہ ایک سناٹا سا یہاں کیوں ہے چھت تو میں نے بھی گھر پہ ڈالی تھی میرے سر پر پھر آسماں کیوں ہے دل تو اک...
  5. محمد شکیل خورشید

    نعتیہ دعا یا دعائیہ نعت

    اتنی نعمت مجھے خدا دے دے اُن کی رحمت کا آسرا دےدے جلوہِ حسنِ مصطفیٰ دیکھوں میری بینائی کو ضیا دے دے روزِ محشر ہو ان کی دید نصیب بخت ایسا مجھے مرا دے دے میری مدحت بھی ہو قبول انہیں میری گویائی کو نوا دے دے میں تو ڈوبا ہوں معصیت میں شکیل بخش دینے کی اک ندا دے دے نعتیہ دعا ہے یا دعائیہ...
  6. محمد شکیل خورشید

    ایک اور تازہ کاوش برائے اصلاح

    اے مری رات کے ستارے سُن میری خاموشیوں کے نالے سُن کیوں زمانے سے اپنا درد کہا اب یہ سب کھوکھلے دِلاسے سُن فصل جن کے سروں کی کاٹی گئی بولتے کیا ہیں اُن کے لاشے سُن شہر میں اس سکوت کے پیچھے شور کرتے ہیں جو وہ نعرے سُن کل تری بزم یوں سجے نہ سجے آج کی رات شکوے سارے سُن سُن ذرا پیار کی حکایت سُن...
  7. محمد شکیل خورشید

    مزید نئی غزل برائے اصلاح

    تو کہاں ہے کہاں مرے اے دوست ڈھونڈوں تیرے نشاں مرے اے دوست وہ تری یاد تھی کہ اشک مرے ایک سیلِ رواں مرے اے دوست یوں تو آتی ہے سانس تیرے بِن درد ہے بیکراں مرے اے دوست میں فنا ہو گیا ترے دکھ میں تو رہے جاوداں مرے اے دوست حالِ دل تیرے بعد کس سے کہوں اے مرے رازداں مرے اے دوست تُو تو پہچانتا...
  8. محمد شکیل خورشید

    نئی غزل برائے اصلاح

    لوٹ کر شام گھر بھی جانا ہے درد یہ بھی ابھی اٹھانا ہے اے مرے درد کچھ رعایت کر تجھ سے رشتہ بڑا پرانا ہے تیرے بِن زندگی بِتائیں گے یہ تماشہ بھی کر دکھانا ہے میرے کمرے میں اب بھی رہتے ہو جانے والے کو یہ بتانا ہے کیا ستم ہے یہ رسمِ دنیا بھی درد ہے پھر بھی مسکرانا ہے میں بھی زندہ ہوں سانس لیتا...
  9. محمد شکیل خورشید

    تازہ کاوش برائے اصلاح

    کوئی تو تصویرِ زندگی کو کرے کبھی ایک بار پورا کوئی تو بے رنگ پیکروں کو کہیں سے دے دے نکھار پورا مئے حوادث ہے قطرہ قطرہ، میں گھونٹ لیتا ہوں جرعہ جرعہ نہ ہوش جاتے ہیں ایک دم سے، نہ چھٹ رہا ہے خمار پورا بس آنکھ لگتی ہے ایک پل کو کئی پہر پھر شمارِ انجم نہ خواب میرے ہوئے ہیں پورے، نہ ہو رہا ہے...
  10. محمد شکیل خورشید

    چھوٹی بحر میں کاوش۔ اصلاح کی منتظر

    رات بھر سوچا نہ کر بے سبب رویا نہ کر وہ نہ واپس آئے گا دیر تک جاگا نہ کر فکر کی پرواز کو اس قدر اونچا نہ کر اپنے گھر کو لوٹ جا یوں سڑک ناپا نہ کر راستے کی دھول میں منزلیں کھویا نہ کر سچ سنا نہ جائے گا سوچ لے، ایسا نہ کر مِیچ لے آنکھیں شکیل حسن کو رسوا نہ کر
  11. محمد شکیل خورشید

    ایک اور غزل اصلاح کے واسطے

    دیارِ ہست میں مجھ کو اداس چھوڑ گئی مرا لباس تھی وہ، بے لباس چھوڑ گئی غضب کہ اذنِ ودع لے کے وہ ہوئی رخصت مجھے بنا کے وہ تصویرِ یاس چھوڑ گئی اسے تو درد بھلانے کے ڈھنگ آتے تھے یہ کیسی ٹھیس تھی جینے کی آس چھوڑ گئی چلی گئی ہے وہ کوثر کا جام پینے کو مرے لبوں پہ وہ تا عمر پیاس چھوڑ گئی وہ خود تو سو...
  12. محمد شکیل خورشید

    غیر حاضری کے بعد

    وہ تری یاد کا موسم، وہ جدائی کا حبس سانس آتی تو ہے آتے ہوئے رُکتی ہوگی کیا کبھی میرے تڑپنے کے نظارے کےلیئے اپنے برزخ سے مری سمت وہ جھُکتی ہوگی راکھ مٹھی میں لیئے پھرتا ہوں یادوں کی شکیل صبر کی گنگا ملے گی تبھی مُکتی ہوگی طویل غیر حاضری کی معذرت ثاہتے ہوئے عرض ہے کہ 6 جنوری کو اہلیہ برضائے...
  13. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    رہ بدلتا رہا ہوں ساری عمر پھر بھی چلتا رہا ہوں ساری عمر غم چھپاتا رہا ہوں سینے میں خوں اُگلتا رہا ہوں ساری عمر ہر قدم پر بھٹکنا چاہا تھا پر سنبھلتا رہا ہوں ساری عمر وقت نے جو سکھائے تھے کردار ان میں ڈھلتا رہا ہوں ساری عمر خار بن کر سبھی کی آنکھوں میں جیسے کَھلتا رہا ہوں ساری عمر ایک...
  14. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    لوچ تیری ادا میں کچھ بھی نہیں پیچ بندِقبا میں کچھ بھی نہیں کتنا سادہ مرض ہے چارہ گرو درد ہے اور دوا میں کچھ بھی نہیں حاصلِ عمر ہاتھ آیا کیا اک خلا اور خلا میں کچھ بھی نہیں زلف کھولی ہے تم نے شائد آج ورنہ خوشبو ہوا میں کچھ بھی نہیں کیسے پرنم ہو کوئی آنکھ شکیلؔ سوز تیری نوا میں کچھ بھی نہیں
  15. محمد شکیل خورشید

    نعت برائے اصلاح

    حضور آپ کی رحمت کا ہی سہارا ہے وگرنہ نامۂِ اعمال میں خسارا ہے بس ایک آپ کی نسبت ہے آپ کا ہی کرم یہ گرنصیب نہ ہو تو کہاں گزارا ہے کٹھن ہے راہ گزر، قافلے ہیں درماندہ مگر یہ حوصلہ ہے کہ وہ در ہمارا ہے پھرا ہوں کوچہ بہ کوچہ مگر اے شہرِ رسُل جو نقش دل میں ہے اب تک، ترا نظارا ہے شکیل اتنی سی ہے...
  16. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    درد ظاہر نہ یوں کیا کیجے بے سبب مسکرا لیا کیجے ہوش میں ضبطِ غم نہیں ممکن آپ مدہوش ہی جیا کیجے سر پہ تہمت جنوں کی آئے نہ چاک دامن کے خود سیا کیجے خامشی الجھنیں بڑھاتی ہے بات جو بھی ہو کہہ دیا کیجے میکدے سے تو لوٹ آئے شکیل ان کی آنکھوں سے اب پیا کیجے
  17. محمد شکیل خورشید

    طالبِ اصلاح

    عشق کرنے لگا ہوں میں پھر سے تم پہ مرنے لگا ہوں میں پھر سے زہر آلود ہو گیا لہجہ خود سے ڈرنے لگا ہوں میں پھر سے ضبط کے توڑ کر سبھی بندھن آہ بھرنے لگا ہوں میں پھر سے سیکھ لی ہے روش زمانے کی کہہ مکرنے لگا ہوں میں پھر سے اس کے آنے کی ہے نوید شکیل لو سنورنے لگا ہوں میں پھر سے
  18. محمد شکیل خورشید

    اگلی غزل برائے اصلاح

    آنکھ میں اک سوال ہوتا ہے بس یونہی عرضِ حال ہوتا ہے بات میں بھی تھکن جھلکتی ہے اور لہجہ نڈھال ہوتا ہے بس کسی دن وہ یاد آتے ہیں اور وہ دن کمال ہوتا ہے ایک لمحہ تری جدائی میں جیسے فرقت کا سال ہوتا ہے رنج تو عشق نے اٹھائے ہیں حسن کیوں پُر ملال ہوتا ہے شہر میں یہ سکوت ہے یا حبس سانس لینا محال ہوتا...
  19. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے ایک اور غزل کی

    ہجر کی رات یاد آئی نہیں دل کی برسات یاد آئی نہیں ان سے کرنی تھی کچھ ضروری بات بس وہی بات یاد آئی نہیں ان سے نسبت کی بات کر بیٹھا اپنی اوقات یاد آئی نہیں کب گرفتارِ دامِ ناز ہوئے وہ ملاقات یاد آئی نہیں کُل جہاں جس کے اختیار میں ہے ایک وہ ذات یاد آئی نہیں کھیل بیٹھے ہیں اور اک بازی عشق...
  20. محمد شکیل خورشید

    سچ کہا نہیں جاتا

    سچ کہوں ، سچ کہا نہیں جاتا بن کہے بھی رہا نہیں جاتا چوٹ ہو گی کوئی بڑی گہری خون یونہی بہا نہیں جاتا اے ستم گر ذرا توقف کر درد پیہم سہا نہیں جاتا اس کو شائد کچھ انس ہے مجھ سے وہم یہ بار ہا نہیں جاتا مجھ پہ بیتا ہے عشق میں جو شکیل سانحہ وہ کہا نہیں جاتا
Top