اصلاح درکار ہے

درد ظاہر نہ یوں کیا کیجے
بے سبب مسکرا لیا کیجے
ہوش میں ضبطِ غم نہیں ممکن
آپ مدہوش ہی جیا کیجے
سر پہ تہمت جنوں کی آئے نہ
چاک دامن کے خود سیا کیجے
خامشی الجھنیں بڑھاتی ہے
بات جو بھی ہو کہہ دیا کیجے
میکدے سے تو لوٹ آئے شکیل
ان کی آنکھوں سے اب پیا کیجے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ۔ بس ایک مصرع پر اعتراض کیا جا سکتا ہے
سر پہ تہمت جنوں کی آئے نہ
بول چال کی زبان میں تو اسی طرح کہتے ہیں لیکن 'نہ' کو 'نا' تقطیع ہونا درست نہیں
کچھ اور سوچیں
 
Top