نتائج تلاش

  1. محمد شکیل خورشید

    دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے

    کس طرح درد تری خو سے نکالا جائے دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے پھر سے یادوں کو تری روپ نیا پہناؤں پھر ترا درد نئے ڈھنگ سے پالا جائے کوئی بت ہے کہ خدا ہے کہ مقدس گائے اب یہ ابہام نصابوں سے نکالا جائے مذہب و نسبت و اقدار تو پہچانے گئے نئے سانچے میں نیا بت کوئی ڈھالا جائے ٹوٹنا اس سے تعلق...
  2. محمد شکیل خورشید

    اک تازہ غزل

    خواہشِ واہ واہ کس کو ہے فقر میں فکرِ جاہ کس کو ہے سانس لینا تو جبرِ قدرت ہے ورنہ جینے کی چاہ کس کو ہے ایک مسکان ظاہری سی بس ورنہ دکھ سے پناہ کس کو ہے کفر ہے نا امیدی سچ لیکن آخر اس کا گناہ کس کو ہے اک جلی لاش سینکڑوں کا ہجوم جانے یہ انتباہ کس کو ہے اک اندھیرا ہے چار سمت شکیل سوجھتی اس میں...
  3. محمد شکیل خورشید

    نعتِ رسولِ مقبول، بسلسلہ عیدِ میلاد

    مدحتِ مصطفیٰ ہو سینے میں ہے سرور اس طرح سے جینے میں ساری دنیا بھی گھوم لوں لیکن ہو مرا دھیان بس مدینے میں ڈوبنے دے گا کب کرم ان کا لاکھ ہوں چھید اگر سفینے میں رحمتیں کل جہاں پہ ہوتی ہیں ان کے میلاد کے مہینے میں نعت لب پر ہو، دل میں عشق ِ نبی عمر کٹ جائے اس قرینے میں روشنی عشقِ مصطفیٰ ہی سے...
  4. محمد شکیل خورشید

    ایک مفرد شعر

    تتلی کے پروں کے رنگ حسیں ہاتھوں پہ چھٹیں تو میل بنیں
  5. محمد شکیل خورشید

    غزل: میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں

    میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں کسی کا آزار بن گیا ہوں کسی کے زخموں کو سی رہا ہوں کسی کی فرقت کو سہہ رہا ہوں تو جھیلتا ہوں کوئی رفاقت مرے مقدر میں جو لکھے ہیں وہ زہر سارے میں پی رہا ہوں وہ مجھ سے مانوس ہو رہے ہیں کہ ظاہری سی ہے مسکراہٹ میں زندگی بھر اسی...
  6. محمد شکیل خورشید

    بات ساری اسی کے بارے کی: نئی غزل

    کھوج میں ہوں میں اک ستارے کی خوبصورت سے استعارے کی اور بھایا نہ کوئی بھی موضوع بات ساری اسی کے بارے کی جب میسر ہے اس کی یاد تو پھر کیا ضرورت کسی سہارے کی چاند پورا، خزاں رسیدہ پیڑ واہ کیا بات ہے نظارے کی ہے تمنا کہ عرضِ حال کہوں سن بھی لو التجا بچارے کی خرمنِ ہوش کو جلا ڈالے آرزو ہے...
  7. محمد شکیل خورشید

    نئی غزل: لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں

    لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں وہ تری یاد وہ تری باتیں ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں ہر گھٹا لے کے اس کی یاد آئی کیسی غمناک ہیں یہ برساتیں درد، آنسو، سکوت، بے خوابی رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں آؤ اشکوں سے اب وضو کرلیں پھر سے کرنی ہیں کچھ مناجاتیں شہرِ یاراں میں ہے...
  8. محمد شکیل خورشید

    جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے- نئی غزل

    ان کے لہجے میں جو رچاؤ ہے جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے یہ نگر کھوکھلا ہے اندر سے ظاہری سب یہ رکھ رکھاؤ ہے تھک گیا ہوں سفر کی محنت سے ڈالنا اب کہیں پڑاؤ ہے ٹوٹ جائے نہ ایک دن یہ ڈور اتنا سانسوں میں کیوں تناؤ ہے دل میں اس کی حسین یادوں کا اک دہکتا ہوا الاؤ ہے یہ جو اک بے کلی سی دل میں ہے لگ...
  9. محمد شکیل خورشید

    سانس لینا چاہتا ہوں۔ ایک نئی کاوش

    غم چھپانا چاہتا ہوں گنگنانا چاہتا ہوں کر چکا سیر و سیاحت اب ٹھکانہ چاہتا ہوں بھول کر فکریں جہاں کی مسکرانا چاہتا ہوں چھوڑ کر سارے بکھیڑے بھاگ جانا چاہتا ہوں راگ پہلی چاہتوں کا پھر سے گانا چاہتا ہوں جس میں وہ تھی ساتھ میرے وہ زمانہ چاہتا ہوں اک مکاں رکھا ہے جس کو گھر بنانا چاہتا ہوں ساز...
  10. محمد شکیل خورشید

    عہدو پیمان کی کریں تجدید

    عہدو پیمان کی کریں تجدید ٹوٹ جائے کہیں نہ پھر امید مدعا ہوسکا کبھی نہ بیاں لاکھ باندھی سنوار کر تمہید شہر سارے نے سانحہ دیکھا گرچہ اخبار میں چھپی تر دید شیشہِ دل ہے آج تک خالی کوئی ابھری نہ صورتِ ناہید اک خلش زندگی میں باقی ہے جانے پژمردگی ہے یا امید وہ نہ لوٹا، کبھی سفر سے شکیل خوب...
  11. محمد شکیل خورشید

    اک تصور سے دل کو شاد کریں-نئی غزل

    اک تصور سے دل کو شاد کریں وہ سراپا سفر کا زاد کریں یاد اس کو نہیں کیا اب تک بھول پائیں تبھی تو یاد کریں بھوک افلاس پر ہے کیا تعزیر آج اس پر بھی اجتہاد کریں آؤ کچھ دیر شہر میں گھومیں راستے اس کے گھر کے یاد کریں ایک مسکان پر پگھل جائے کس طرح دل پہ اعتماد کریں تم کو سونپا ہے اختیار سبھی تم کرو...
  12. محمد شکیل خورشید

    ایک کاوش

    مجھے نہیں معلوم یہ شاعری کی کسی مخصوص اور معتبر صنف میں شمار ہو سکے یا نہیں ، البتہ یہ اشعار اسی ترتیب سے موزوں ہوتے گئے، رمضان کی مناسبت سے پیش کر رہا ہوں، اساتذہ و دیگر احباب کی آراء اور رہنمائی کا منتظر رہوں گا تو خدائے لم یزل تو مالکِ کون و مکاں ذرہ ذرہ ہر دو عالم کا ترا مدحت کناں...
  13. محمد شکیل خورشید

    ایک وحشت ہے اس قرینے میں- نئی غزل

    کب تمنا کوئی ہے جینے میں سانس بس چل رہی ہے سینے میں کوہ کن ہو تو ڈھونڈلے دل میں کیا چھپا ہے مرے دفینے میں کچھ الٹ جائے سانس کی ترتیب ایک وحشت ہے اس قرینے میں اس قدر صاف دل سے کیا مطلب ٹھیس اک چاہیے نگینے میں بات دل کی نہ لب پہ آ جائے عذر کیا اور مجھ کو پینے میں شہر میں حبس اس قدر ہے کہ بس...
  14. محمد شکیل خورشید

    تقریبا تین دہائیاں پرانی ایک غزل- میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی

    میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی اک تو ان کا عشق...
  15. محمد شکیل خورشید

    ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے

    پل تری یاد کے بہانے کے ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن ضبط کے، صبر کے ، زمانے کے اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں بھید سارے جو تھے چھپانے کے کیسے اس کے بغیر کہہ ڈالوں تھے جو قصے اسے سنانے کے زندگی اب نہ مجھ کو بھائیں ذرا تیرے انداز دل لبھانے کے ہم نے سینچے ہیں...
  16. محمد شکیل خورشید

    اے مرے سد پارہ- ایک خراجِ عقیدت

    اے مرے سد پارہ وہ رستے دیکھے بھالے تھے وہ منظر آشنا سے تھے وہ جن سے ہوکے اس کو لوٹ کر آنا تھا پھر واپس وہ رستے اس کے قدموں میں ہمیشہ بچھتے آئے تھے کبھی برفاب چاہت سے، کبھی گلنار الفت سے وہ رستے یار تھے اس کے، وہی دلدار تھے اس کے اسے بھی عشق تھا ان سے اسے بھی انس تھا ان سے وہ اس کے ہمسفر ، ہم...
  17. محمد شکیل خورشید

    مسز زمان

    "زمان نہیں رہے" مسز زمان نے شدتِ جذبات سے لرزتی آواز میں فون پراسے بتایا۔ اور اس کے ذہن میں بیتے دنوں کی یادیں در آئیں۔ **** زمان کے ساتھ اس کے خاندانی مراسم ، دوستی، بے تکلفی اور احترام ، ہر طرح کا رشتہ تھا۔ تقریباَ دس گیارہ سال قبل ایک دن زمان نے باتوں باتوں میں ذکر کیا،...
  18. محمد شکیل خورشید

    آخری دس منٹ باقی ہیں

    "آخری دس منٹ باقی ہیں" اس کی پاٹ دار آواز ہال میں گونجی، جواب میں ایک مانوس بھنبھناہٹ ابھری، کچھ قلم مزید تیزرفتاری سے کاغذ پر گھسٹنے لگے،کچھ نے غیریقینی انداز میں اپنی کلائی کی گھڑیوں پر نظر ڈالی، ایک دو احتجاجی آوازیں اور کچھ التجائیہ فقرے۔۔۔ سر پانچ منٹ اور، پیپر بہت مشکل تھا، نہیں نہیں...
  19. محمد شکیل خورشید

    کچھ مناجات روز کرتا ہوں

    صبح سےرات روز کرتا ہوں یہ خرافات روز کرتا ہوں روز تکتا ہوں شیشہِ دل میں یہ ملاقات روز کرتا ہوں مان کر اس کی ضد کی ساری بات میں اسے مات روز کرتا ہوں ان کی مدحت سے بات کر کے شروع کچھ مناجات روز کرتا ہوں اپنے دل میں تمہاری یادوں کے اجتماعات روز کرتا ہوں روز کرتا ہوں گفتگو ان سے ایک ہی بات روز...
  20. محمد شکیل خورشید

    کب کوئی جان وار دیتا ہے ۔ ایک اور غزل

    درد کب اختیار دیتا ہے چند سانسیں ادھار دیتا ہے دل تری یاد کے سرور میں گم ساری فکریں اتار دیتا ہے آج بھی لمس اس کی یادوں کا میری شامیں نکھار دیتا ہے آہ و گریہ فغاں یہی کچھ بس کب کوئی جان وار دیتا ہے چیر لیتا ہے بیج سینے کو تب چمن کو بہار دیتا ہے شہر اپنے سکوت کی لے میں اک صدا بار بار دیتا ہے...
Top