نئی غزل: لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں

لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں
وہ تری یاد وہ تری باتیں

ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں
ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں

ہر گھٹا لے کے اس کی یاد آئی
کیسی غمناک ہیں یہ برساتیں

درد، آنسو، سکوت، بے خوابی
رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں

آؤ اشکوں سے اب وضو کرلیں
پھر سے کرنی ہیں کچھ مناجاتیں

شہرِ یاراں میں ہے یہ کیا آسیب
کتنی ویران ہیں یہاں راتیں

روز جاتا ہوں اس گلی میں شکیل
ان سے باقی ہیں کچھ ملاقاتیں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن

اور دیگر احباب و اساتذہ کی نذر
 
لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں
وہ تری یاد وہ تری باتیں

ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں
ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں

ہر گھٹا لے کے اس کی یاد آئی
کیسی غمناک ہیں یہ برساتیں

درد، آنسو، سکوت، بے خوابی
رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں

آؤ اشکوں سے اب وضو کرلیں
پھر سے کرنی ہیں کچھ مناجاتیں

شہرِ یاراں میں ہے یہ کیا آسیب
کتنی ویران ہیں یہاں راتیں

روز جاتا ہوں اس گلی میں شکیل
ان سے باقی ہیں کچھ ملاقاتیں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن

اور دیگر احباب و اساتذہ کی نذر
خوبصورت خوب صورت
 

میم الف

محفلین
ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں
ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں
جی شکیل بھائی
پھر آج کچھ بتا ہی دیں۔
کیا بتائیں عذاب کیا کیا ہیں
یونہی تخلیقِ فن نہیں ہوتی
واہ شکیل صاحب
سنو سنو ہماری بات سنو
جاؤ ہم نہیں بتاتے - کسی اور سے سن لو
اسی طرح،
اب ہم پوچھتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کیا بتائیں
چہ خوب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب ! اچھی غزل ہے شکیل بھائی !

درد، آنسو، سکوت، بے خوابی
رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں

کیا بات ہے ! کیا اچھا کہا ہے!
 
Top