نتائج تلاش

  1. شاہد شاہنواز

    ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا ۔۔ برائے اصلاح

    کچھ عرصے تک خاموشی کے بعد اب پہلی غزل کہہ رہا ہوں۔ شاعری کے کافی اصول بھول چکا ہوں۔ آپ کی رائے کا طالب ہوں: ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا بس ایک تیری تمنا رہی مرے دل میں میں اپنے قلب کی سب خواہشیں نکال آیا نظر کے زاویے بدلے ہوئے سے لگنے لگے مری نگاہ میں...
  2. شاہد شاہنواز

    رقص کرتے ہیں، چلی آتی ہے برسات کے ساتھ

    رقص کرتے ہیں، چلی آتی ہے برسات کے ساتھ یاد مشروط نہیں اس کی ملاقات کے ساتھ منہ کے بل گر کے بھی دنیا پہ ہنسی آتی ہے لحظہ لحظہ ہے مسرت کوئی صدمات کے ساتھ پوچھتے وقت کہیں طنز کی برسات بھی ہے اک ہنسی بھی ہے زمانے کے سوالات کے ساتھ کس کو معلوم ہے دنیا میں کہانی اپنی؟ کون کرتا ہے تری بات مری بات کے...
  3. شاہد شاہنواز

    سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح

    سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح زمیں کی بات ہے رفعت میں آسماں کی طرح یہی خدا کی رضا ہے کہ ارتقا میں رہے ہر ایک رنگ میں اردو نئی زباں کی طرح لگا کے ہاتھ جنہیں تو نے کر دیا انمول چمک رہے ہیں وہ پتھر بھی کہکشاں کی طرح قدم قدم پہ نئے وسوسوں کی سازش ہے یہ زندگی ہے ذہانت کے امتحاں کی طرح نہ...
  4. شاہد شاہنواز

    کیسا دھوکا ہے کر کے چار آنکھیں

    کیسا دھوکا ہے کر کے چار آنکھیں تم نے بدلی ہیں بار بار آنکھیں نیند شب میں بھی اب نہیں آتی روز کرتی ہیں انتظار آنکھیں روز دنیا میں لوگ مرتے ہیں روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں ایک دیوار کے بہت سے کان ایک دیوار کی ہزار آنکھیں جب گیا وہ تو پھر نہیں لوٹا جس کو روتی ہیں زار زار آنکھیں ہم کریں...
  5. شاہد شاہنواز

    چلیں گے ساتھ کوئی رہگزر ملے نہ ملے

    چلیں گے ساتھ کوئی رہگزر ملے نہ ملے الگ نہ ہوں گے کبھی چاہے گھر ملے نہ ملے دلوں پہ نقش ہے نقشہ جب اپنی منزل کا یہ کارواں نہ رکے، راہبر ملے نہ ملے ذرا بھی خوف نہ کرنا چمکتے سورج کا ہمارے سائے میں چلنا، شجر ملے نہ ملے ہر ایک آنکھ ٹکی ہے تمہارے چہرے پر تمہی کو دیکھ رہے ہیں نظر ملے نہ ملے تمام عمر...
  6. شاہد شاہنواز

    اب تو جیتے ہیں مر بھی سکتے تھے

    اب تو جیتے ہیں مر بھی سکتے تھے ہم جہاں سے گزر بھی سکتے تھے جتنے ٹکڑے تھے جڑ گئے لیکن ٹوٹ کر ہم بکھر بھی سکتے تھے اُس کے چھونے سے ایک لمحے کو رنگ سارے نکھر بھی سکتے تھے بن کے بارش سب آب کے قطرے آسماں سے اُتر بھی سکتے تھے تم جو ہمت ذرا سی کر لیتے جو ڈراتے ہیں ڈر بھی سکتے تھے غیر لوگوں نے آ کے...
  7. شاہد شاہنواز

    ہم کو آنکھوں سے گرایا جا رہا ہے کیا کریں

    ہم کو آنکھوں سے گرایا جا رہا ہے کیا کریں غیر کو دل میں بسایا جا رہا ہے کیا کریں پھر وہ منصف بن کے آ بیٹھے ہمارے سامنے پھر ہمیں مجرم بنایا جا رہا ہے کیا کریں جو رقیبوں کے لیے ساتھی بنے پھرتے تھے کل ربط ان سب سے بڑھایا جارہا ہے کیا کریں ہم کو اشکوں میں ڈبو کر رکھ دیا ہے یار نے ہم پہ دنیا کو...
  8. شاہد شاہنواز

    ہے غرض ہم کو بس دعاؤں سے

    ہے غرض ہم کو بس دعاؤں سے کام چلتا نہیں دواؤں سے ہم بچاتے نہیں ہواؤں سے دل تو ٹوٹا نہیں جفاؤں سے ہے فقط یار کی وفا پہ نظر ہم نہیں ڈر رہے بلاؤں سے موت کے منہ سے آگئے واپس سب ہوا ہے تری دعاؤں سے دور ہوتے ہیں خون کے رشتے شہر ایسے جدا ہے گاؤں سے دھوپ میں پک رہے ہیں پھل سارے کچھ نہیں مل رہا تھا...
  9. شاہد شاہنواز

    جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں

    جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں اسے کیسے ہم بھی پکارتے کہ گلے سے نکلی صدا نہیں اسے جیسے رنگ میں دیکھئے وہ فریب اپنی نظر کا ہے ہے خیال اپنے دماغ کا، وہ بھلا نہیں وہ برا نہیں غمِ دل سنائیں تو ہم کسے ؟ کوئی ہے نہیں جو یہ سب سنے اسے کیا کہیں جو قریب تھا، اسے کیا کہیں جو...
  10. شاہد شاہنواز

    ڈرا رہے ہیں کسی کو نہ ڈر کے رہتے ہیں

    ڈرا رہے ہیں کسی کو نہ ڈر کے رہتے ہیں ہمیں تو جو بھی ہے کرنا، وہ کر کے رہتے ہیں کوئی رفیق نہ ساتھی ہمارے ساتھ رہا نہ ہم ہی ساتھ کسی ہمسفر کے رہتے ہیں نہ ہم غریب کی غربت سے دور بھاگتے ہیں نہ ہم اسیر کسی اہل زر کے رہتے ہیں زمین والے تو جاتے ہیں آسماں کی طرف فلک نشین زمیں پر اُتر کے رہتے ہیں نہ...
  11. شاہد شاہنواز

    نہ ہے جدا نہ مرے ساتھ چل رہا ہے کوئی

    نہ ہے جدا نہ مرے ساتھ چل رہا ہے کوئی میں چل رہا ہوں تو رستہ بدل رہا ہے کوئی میں اُس کے عشق میں خود کو بدل رہا ہوں مگر نہ جانے کیوں مرے سانچے میں ڈھل رہا ہے کوئی ہزار بار اُسے ٹھوکروں میں رکھا گیا ہزار بار گرا، پھر سنبھل رہا ہے کوئی کسی کے ذہن میں تشکیک جڑ پکڑتی ہے کسی کے جسم میں ناسور پل رہا...
  12. شاہد شاہنواز

    گم صم کوئی بیٹھا ہے اسے ایک نظر دیکھ

    گم صم کوئی بیٹھا ہے اسے ایک نظر دیکھ آنکھوں میں ذرا جھانک محبت کا نگر دیکھ مت دیکھ مری راہ میں کہسار ہیں کتنے تو میرا جگر دیکھ مرا ذوقِ سفر دیکھ کچھ تو ہی سرِ بزم یہ احساس کیا کر ہم کیسے کہیں دیکھ، ادھر دیکھ، ادھر دیکھ اب کس کا اجالا ہے سرِ شہرِ تمنا اب کس کی محبت ہے سرِ راہ گزر دیکھ کیا...
  13. شاہد شاہنواز

    اقرارِ تمنا ہے نہ انکارِ تمنا

    اقرارِ تمنا ہے نہ انکارِ تمنا اب کچھ بھی نہیں صورتِ اظہارِ تمنا کہتا ہے یہی زاہدِ بے زارِ تمنا ہوتے ہیں خطا کار گنہگارِ تمنا چلتے ہیں بصد عزم اگر جانبِ منزل ملتی ہے کھڑی راہ میں دیوارِ تمنا اک شخص ہے پھرتا ہے پریشان جنوں میں اِک دل ہے کہ رہتا ہے طلبگارِ تمنا انسان ہمیشہ سے اسیری میں رہا ہے...
  14. شاہد شاہنواز

    کب جال بُن رہا ہے مقدر مرے خلاف ۔۔۔

    کب جال بُن رہا ہے مقدر مرے خلاف؟ ہونے لگا ہے اب تو مرا سر مرے خلاف تقریر ہو رہی ہے سرِ شہرِ انقلاب تحریک چل رہی ہے برابر مرے خلاف یاروں سے کیا میں شکوہِ عہدِ وفا کروں؟ نعروں سے گونجتا ہے مرا گھر مرے خلاف طوفان کا تو صرف بہانہ ہے اے صبا! لہریں اُٹھا رہا ہے سمندر مرے خلاف کیا کر دیا ہے میں نے،...
  15. شاہد شاہنواز

    کراچی میں سیکنڈری ایجوکیشن کا معیار

    پیشے کے اعتبار سے میں ایک کمپیوٹر آپریٹر ہوں۔ دوسرے شہروں کا معلوم نہیں لیکن کراچی میں آج کل میٹرک کر کے طلباء خود ہی کسی کالج میں ایڈمیشن نہیں لے سکتے بلکہ اسے ایک ادارے SECCAP کے تحت کر دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ہی طلباء سے ایک فارم بھروا کر ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس طالب علم کا داخلہ...
  16. شاہد شاہنواز

    کردار بن گئے ہیں فسانوں میں رہ گئے

    کردار بن گئے ہیں فسانوں میں رہ گئے ہم یادِ رفتگاں کے ترانوں میں رہ گئے اپنا ہی نقش ڈھونڈنے نکلے تو یوں ہوا ہم عکس بن کے آئنہ خانوں میں رہ گئے نیت میں تھا وہ کھوٹ ،فلک تک نہ جاسکے وہ لفظ جو تسبیح کے دانوں میں رہ گئے (خارج ہے شاید ۔۔) لشکر ہوائے سرد نے پتھر بنا دیا جتنے بھی تیر تھے وہ کمانوں...
  17. شاہد شاہنواز

    یہ جہاں کیا ہے، اک سمندر ہے ۔۔

    یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے اِک سمندر ہے، دل کے اندر ہے ہیں جو سیارگان حرکت میں ان کی حرکت بھی دائروں پر ہے اب ہے مقصد خدا کی خوشنودی اب خوشی ہو کہ غم ، برابر ہے اپنا اپنا نصیب ہے یارو کوئی کمتر ہے، کوئی برتر ہے ہم ہیں اے وقت ! خود سزا اپنی کون کہتا ہے تو ستمگر ہے اک توقع بھی ہے بہاروں کی...
  18. شاہد شاہنواز

    میری کتاب "اعترافِ جرم " پر میرا ایک مضمون اور انتساب

    اعترافِ جرم میری 16 سال کی محنت کا ثمر ہے۔ میں نے اس کا انتساب اور بحیثیت شاعر کچھ اپنے اور اس کتاب کے بارے میں شاہدؔ، شاعری اور اعترافِ جرم کے عنوان سے مضمون لکھا ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر اس میں زبان و بیان کی کوئی غلطی، کوئی ذہن کو پریشان کرنے والی بات یا فضول جملے محسوس کریں تو مطلع...
  19. شاہد شاہنواز

    نہ تلملائے ہوئے ہیں نہ سٹپٹائے ہوئے

    نہ تلملائے ہوئے ہیں نہ سٹپٹائے ہوئے بڑے سکون سے پھرتے ہیں چوٹ کھائے ہوئے یہاں تو پینے سے مت روک ہم کو اے ساقی کہ ہم سے رند زمانے کے ہیں ستائے ہوئے چلا ہے جانبِ مغرب کشاں کشاں سورج قدوں سے بڑھ کے عجیب و غریب سائے ہوئے کبھی جو آنکھ سے جھانکیں تو ان کو حیرت ہو ہیں دل میں ہم نے قرینے سے غم سجائے...
  20. شاہد شاہنواز

    ساری دنیا کو ویران کر جائیں گے ۔۔۔

    ساری دنیا کو ویران کر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا جینے والے یہ سب لوگ مر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا خوبصورت بھی ہیں، خوب سیرت بھی ہیں، اہلِ دنیا میں اہلِ بصیرت بھی ہیں سب کے سب اِس جہاں سے گزر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا لے کے آنکھوں میں ہم کتنا...
Top