کیسا دھوکا ہے کر کے چار آنکھیں

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیسا دھوکا ہے کر کے چار آنکھیں
تم نے بدلی ہیں بار بار آنکھیں


نیند شب میں بھی اب نہیں آتی
روز کرتی ہیں انتظار آنکھیں


روز دنیا میں لوگ مرتے ہیں
روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں


ایک دیوار کے بہت سے کان
ایک دیوار کی ہزار آنکھیں


جب گیا وہ تو پھر نہیں لوٹا
جس کو روتی ہیں زار زار آنکھیں


ہم کریں گے سوال نظروں سے
دل ہے منزل تو رہگزار آنکھیں


لوگ ہمدرد بن کے آتے ہیں
ہم کو چبھتی ہیں غمگسار آنکھیں


دل تھا پہلے ہی مضطرب شاہد
لے گئیں چھین کر قرار آنکھیں

برائے توجہ:
محترم جناب الف عین صاحب ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
پڑھنے پر ہم پابندی لگانے والے کون ہوتے ہیں ۔۔۔۔ داد سر آنکھوں پر ۔۔۔ برائے توجہ یہاں اصلاح کے لیے لکھا تھا ۔۔۔ وہ بھی کوئی ایسی شخصیت کرے جسے مخاطب نہ کیا گیا ہو تب بھی میں اعتراض نہیں کرتا۔ ۔۔۔
 
پڑھنے پر ہم پابندی لگانے والے کون ہوتے ہیں ۔۔۔۔ داد سر آنکھوں پر ۔۔۔ برائے توجہ یہاں اصلاح کے لیے لکھا تھا ۔۔۔ وہ بھی کوئی ایسی شخصیت کرے جسے مخاطب نہ کیا گیا ہو تب بھی میں اعتراض نہیں کرتا۔ ۔۔۔

شاہد شاہنواز بھائی میں نے از رہِ تفنن ہی کہا تھا۔ :p:p
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، ایک مشورہ
روز دنیا میں لوگ مرتے ہیں
روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں
دوسرے مصرع کی نسبر پہلا مصرع سپاٹ ہے، اسے یوں کہیں تو۔۔۔۔؟
روز دنیا میں لاکھ مرتے ہیں (مثلاً)
 
اچھی غزل ہے، ایک مشورہ
روز دنیا میں لوگ مرتے ہیں
روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں
دوسرے مصرع کی نسبر پہلا مصرع سپاٹ ہے، اسے یوں کہیں تو۔۔۔۔؟
روز دنیا میں لاکھ مرتے ہیں (مثلاً)

استادِ محترم جناب الف عین کی بات کو میں اس طرح سمجھا ہوں کہ،
"بے شمار" کے قافیے کو اگر پہلے مصرعے میں کسی "شمار" کی جانے والی شے سے نسبت مل جائے تو شعر کا حسن اور نکھر جائے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اچھی غزل ہے، ایک مشورہ
روز دنیا میں لوگ مرتے ہیں
روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں
دوسرے مصرع کی نسبر پہلا مصرع سپاٹ ہے، اسے یوں کہیں تو۔۔۔۔؟
روز دنیا میں لاکھ مرتے ہیں (مثلاً)
ضرور ۔۔۔
روز دنیا میں لاکھ مرتے ہیں
روز کھلتی ہیں بے شمار آنکھیں ۔۔۔
بدل دیا ۔۔۔
بہت شکریہ ۔۔۔
 
Top