یہ جہاں کیا ہے، اک سمندر ہے ۔۔

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر ہے، دل کے اندر ہے

ہیں جو سیارگان حرکت میں
ان کی حرکت بھی دائروں پر ہے

اب ہے مقصد خدا کی خوشنودی
اب خوشی ہو کہ غم ، برابر ہے

اپنا اپنا نصیب ہے یارو
کوئی کمتر ہے، کوئی برتر ہے

ہم ہیں اے وقت ! خود سزا اپنی
کون کہتا ہے تو ستمگر ہے

اک توقع بھی ہے بہاروں کی
گر چمن میں خزاں کا منظر ہے

ہے تعلق عجیب دونوں کا
حسن شیشہ ہے، آنکھ پتھر ہے

کیا قیامت ہے ساتھ رہ کر بھی
ہم سفر ساتھ ہے، یہی ڈر ہے

اس میں چھائی ہے کیسی ویرانی
یہ مرا دل جو آپ کا گھر ہے

کوئی مجھ سے برا نہیں شاہد
جو بھی اچھا ہے، مجھ سے بہتر ہے

ہوسکتا ہے کچھ مصرعے وزن سے گر گئے ہوں، معنوی اعتبار سے بھی اصلاح کی درخواست ہے ۔۔۔

محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔
 
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر ہے، دل کے اندر ہے

ہیں جو سیارگان حرکت میں
ان کی حرکت بھی دائروں پر ہے

واہ کیا خوب ہے لیکن کیا مطلع میں آپ نے خود کو پابند نہیں کر لیا
سمندر
اندر
 
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر ہے، دل کے اندر ہے
سمندر کی میم پر زبر ہے یا پیش، یہ دیکھ لیجئے۔ ویسے محمد اظہر نذیر کی بات درست ہے۔ مطلع میں قوافی کا اعلان ہو جاتا ہے۔ اس کو کھلا کر لیجئے۔

ہیں جو سیارگان حرکت میں
ان کی حرکت بھی دائروں پر ہے
حرکت (خاص طور پر سیاروں کی) دائروں میں ہوتی ہے دائروں پر نہیں۔ شعر اچھا بن سکتا تھا۔

اب ہے مقصد خدا کی خوشنودی
اب خوشی ہو کہ غم ، برابر ہے
دوسرا مصرع مجھے تو بے محل لگ رہا ہے۔ یہاں قبول ہے، منظور ہے کے معانی مطلوب ہیں۔

اپنا اپنا نصیب ہے یارو
کوئی کمتر ہے، کوئی برتر ہے
اگر نصیب کی جگہ مقام کر دیا جائے تو؟

ہم ہیں اے وقت ! خود سزا اپنی
کون کہتا ہے تو ستمگر ہے
آپ کا انداز ہے۔ اپنے کیے کی سزا تو ہو سکتی ہے۔ اپنی سزا کیا ہوا؟ گویا اپنے ہونے کے ذمہ دار بھی ہوئے؟ مجھے اتفاق نہیں ہے۔

اک توقع بھی ہے بہاروں کی
گر چمن میں خزاں کا منظر ہے
یا تو توقع تو ہے ۔۔ کیجئے، تاہم اس سے محسوساتی سطح وہ نہیں بنتی جو شعر میں چاہئے۔ امید اور توقع میں فرق ہے۔ امید میں آرزو یا خواہش شامل ہوتی ہے توقع میں آرزو یا خواہش مشروط نہیں۔ یہاں آرزو یا خواہش کا مقام ہے۔

ہے تعلق عجیب دونوں کا
حسن شیشہ ہے، آنکھ پتھر ہے
دونوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعجاز صاحب سے پوچھ لیجئے گا۔ دوسرے مصرعے کو میں نہیں پا سکا۔

کیا قیامت ہے ساتھ رہ کر بھی
ہم سفر ساتھ ہے، یہی ڈر ہے
اس شعر کا مفہوم کیا ہے۔

اس میں چھائی ہے کیسی ویرانی
یہ مرا دل جو آپ کا گھر ہے
پرانا خیال اور اس میں کوئی چاشنی یا نیا پن نہیں۔ جیسے کوئی بات دل کی کرے اور کرے یوں ہی بس۔

کوئی مجھ سے برا نہیں شاہد
جو بھی اچھا ہے، مجھ سے بہتر ہے
پہلا مصرع انسانی وقار کے خلاف ہے۔ بہتوں نے کہا بھی لکھا بھی، پر یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ مزید، جب کوئی مجھ سے برا نہیں تو سارے ہی اچھے ہوئے، جو بھی اچھا ہے کیوں کر؟ یاں پہ ہر شخص مجھ سے بہتر ہے؟ وغیرہ، تاہم میں اس خیال سے اتفاق نہیں کر رہا۔

جناب الف عین ۔۔ توجہ فرمائیے گا۔
 
ایطا تو اسی وقت لازم آئے گا جب باقی اشعار اس کے ساتھ جوڑے جائیں، ویسے تو شعر درست ہوگا؟؟
یہاں بات ہوئی ہے پوری غزل کے حوالے سے۔ اکیلا شعر تو بات ہی مختلف ہے۔

ایک سوال ہے جس پر الف عین صاحب سے راہنمائی چاہوں گا۔
ایک لفظ ہے سمُندر ۔۔ یعنی بحر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنا ہے ایک سمَندر ہوتا ہے، ایک کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے یا رہتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں باتیں، یعنی اعراب (پیش اور زبر) اور کیڑے والی بات کیا درست ہیں؟
اور یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شعر میں اَندر کا ہم قافیہ لفظ سمَندر ہو گا، سمُندر نہیں۔ کیا میرا استدلال درست ہے؟

میں علم القوافی کی اصطلاحات سے نابلد ہوں۔ معذرت۔ اطلاقی حوالے سے بات کر دیتا ہوں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔
ظاہر ہے، لیکن یہاں تو غزل مکمل ہو گئی ہے!! دوسرے اشعار میں ’ندر‘ کاالتزام نہیں ہے
۔
یہاں بات ہوئی ہے پوری غزل کے حوالے سے۔ اکیلا شعر تو بات ہی مختلف ہے۔

ایک سوال ہے جس پر الف عین صاحب سے راہنمائی چاہوں گا۔
ایک لفظ ہے سمُندر ۔۔ یعنی بحر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اور سنا ہے ایک سمَندر ہوتا ہے، ایک کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے یا رہتا ہے؟ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ یہ دونوں باتیں، یعنی اعراب (پیش اور زبر) اور کیڑے والی بات کیا درست ہیں؟
اور یہ کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس شعر میں اَندر کا ہم قافیہ لفظ سمَندر ہو گا، سمُندر نہیں۔ کیا میرا استدلال درست ہے؟

میں علم القوافی کی اصطلاحات سے نابلد ہوں۔ معذرت۔ اطلاقی حوالے سے بات کر دیتا ہوں۔

بہت شکریہ، باقی ساری غزل میں نقائص ہیں، اور اصلاح کی فی الحال کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ۔۔ جہاں تک مطلعے میں سمندر کے تلفظ کا سوال ہے تو اردو لغت جو urdulafz.com میں موجود ہے، اس میں ہے:
تلفظ : سَمَنْدَر
تقطیع: سَمَن
plus.png
دَر
اراکین (تجرباتی): 110+10 [11010] فعولن
زبان : سنسکرت
صیغہ : مذکر
مفردات : ساگَر ، دَرْیا ، قُلْزُم ، بَحْر
۔۔۔

فی الحال لغت اور میسر نہیں مجھے ۔۔۔۔ ہاں، یہ شعر:
یہ جہاں کیا ہے اک سمندر ہے
اک سمندر ہے دل کے اندر ہے
۔۔ اس میں اصلاح تجویز ہوئی ہے کہ:
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر جو دل کے اندر ہے ۔۔۔
آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے ۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں بات ہوئی ہے پوری غزل کے حوالے سے۔ اکیلا شعر تو بات ہی مختلف ہے۔

ایک سوال ہے جس پر الف عین صاحب سے راہنمائی چاہوں گا۔
ایک لفظ ہے سمُندر ۔۔ یعنی بحر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اور سنا ہے ایک سمَندر ہوتا ہے، ایک کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے یا رہتا ہے؟ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ یہ دونوں باتیں، یعنی اعراب (پیش اور زبر) اور کیڑے والی بات کیا درست ہیں؟
اور یہ کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس شعر میں اَندر کا ہم قافیہ لفظ سمَندر ہو گا، سمُندر نہیں۔ کیا میرا استدلال درست ہے؟

میں علم القوافی کی اصطلاحات سے نابلد ہوں۔ معذرت۔ اطلاقی حوالے سے بات کر دیتا ہوں۔
میرے خیال میں تو سمندر پیش سے نہیں بلکہ دونوں زبر سے ہیں ۔ چاہے پانی والا ہو یا آگ والا۔
پیش والا کچھ لوگو ں میں غلط رائج ہے۔
بچپن میں سیلے مینڈر کے بارے میں یہی سنا اور پڑھا تھا ۔آگ والا معاملہ۔
لیکن اب معلوم ہے کہ یہ ایمفی بئین ہے اور تازہ پانی میں اور قریب رہتا ہے ۔
سب سے بڑے قسم جاپانی نہروں میں ہوتی ہے جو ایک دو میٹرتک ہوتی ہے۔
 
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر ہے، دل کے اندر ہے
یوں دیکھ لیجئے
یہ جہاں کیا ہے اِک سمندر ہے
اِک سمندر کا میرا دل گھر ہے

ہیں جو سیارگان حرکت میں
ان کی حرکت بھی دائروں پر ہے
پہلا مصرع یوں بھی خارج لگ رہا ہے وزن سے ، کہ یہ بحر خفیف لگ رہی ہے مجھے۔ یوں کہیں تو کیسا رہے گا؟
دیکھ حرکت کرے جو سیارہ
دائرہ ہے، کہ جس کے اندر ہے


اب ہے مقصد خدا کی خوشنودی
اب خوشی ہو کہ غم ، برابر ہے
اسے یوں کہہ کر دیکھ لیجئے
اب ہے مقصد خدا کی خوشنودی
ایک وہ ہی تو سب سے بہتر ہے

ہم ہیں اے وقت ! خود سزا اپنی
کون کہتا ہے تو ستمگر ہے
یوں دیکھ لیجئے
جو کیا ہے، وہ خود ہی بھگتیں گے
وقت کس نے کہا ستمگر ہے

باقی پھر سہی انشا اللہ
 
تاہم یہاں مطلع (بلحاظ قافیہ) بقیہ غزل سے الگ ہو جاتا ہے۔
جناب سید عاطف علی کی تجویز بہت مناسب ہے۔
یہ جہاں کیا ہے اک سمَندر ہے
اک سمَندر کہ دل کے اندر ہے
تاہم اس کے ملیح قوافی شاید زیادہ نہیں مل سکیں گے۔
 
ابھی ناشتہ کرتے ہوئے خیال آیا کہ ۔۔۔
سمندر اور شناور کے قافیے مطلع کے لئے اچھا مضمون دے سکتے ہیں۔ یوں یہ غزل کے ساتھ بھی بنا رہے گا۔
 
Top