سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح
زمیں کی بات ہے رفعت میں آسماں کی طرح

یہی خدا کی رضا ہے کہ ارتقا میں رہے
ہر ایک رنگ میں اردو نئی زباں کی طرح

لگا کے ہاتھ جنہیں تو نے کر دیا انمول
چمک رہے ہیں وہ پتھر بھی کہکشاں کی طرح

قدم قدم پہ نئے وسوسوں کی سازش ہے
یہ زندگی ہے ذہانت کے امتحاں کی طرح

نہ دیکھئے تو زمانہ بھی کچھ نہیں لگتا
دکھائی دے تو ہے انسان بھی جہاں کی طرح

ہر ایک سمت نئے پھول اس سے کھلتے ہیں
بہار برگ سکھاتی نہیں خزاں کی طرح

ہمیں خبر تھی ہے بے سود تم سے کچھ کہنا
تبھی تو چپ سے تھے ہم بحر بے کراں کی طرح

وہ سرکشی ہے کہ غافل ہیں اپنے آپ سے لوگ
نشان والے بھی رہتے ہیں بے نشاں کی طرح

خبر نہیں ہے کہ منزل ہے کس طرف شاہدؔ
بکھرتے جاتے ہیں قائد بھی کارواں کی طرح

برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
 
سب سے پہلے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے حساب میں اب آپ "نئے لکھنے والے" نہیں رہے؛ آپ کے شعر میں جزئیاتی سطح پر پختگی نظر آنی چاہئے۔ رہی بات عروض و اوزان کی، وہ تو پہلی شرط قرار پاتی ہے اور آپ پر لازم تر ہے۔ سو، اگر مجھے آپ کے ہاں کوئی عروضی سقم نہیں ملتا تو میں اس پر آپ کی تعریف نہیں کروں گا۔ زبان اور محاورے کی غلطی کی آپ کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور ظاہر ہے ایسی اجازت مجھے بھی حاصل نہیں! سو، کہیں کچھ غلط کہہ جاؤں تو نشان دہی ضرور کر دیجئے گا۔
کیا خیال ہے؟ آگے چلیں؟
 
چلئے صاحب! پہلے ہم شعر بہ شعر چلیں گے اور پھر ایک ملا جلا جائزہ لیں گے۔ میرے ساتھ ساتھ رہئے گا۔
اور ہاں! میری ہر بات کو من و عن تسلیم کر لینا آپ پر واجب نہیں ہے۔ جو بات اچھی لگے اختیار کر لیجئے اور جو اچھی نہ لگے اسے اَن سنی کر دیجئے۔
 
سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح
زمیں کی بات ہے رفعت میں آسماں کی طرح
یہاں تھوڑا سا مسئلہ ہے! یعنی جنابِ شاعر جو بات سنا رہے ہیں وہ سنا ایسے رہے ہیں جیسے محبت کی داستان ہو، بات ہے کچھ اور۔ اور یہ کہ بات زمین کی ہے، زمین زادوں کی ہے مگر رفعت میں آسمان کی سی یا آسمان والوں کی سی ہے۔ مگر وہ بات ہے کیا؟ آپ کا شعر اس طرف کوئی اشارہ نہیں کر رہا۔ دوسرے مصرعے میں جتنی قوت ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہے۔ زمین کی بات رفعت میں آسمان کی طرح ہے؛ یہ تو عام سی بات ہوئی! یہاں تقاضا اس امر کا ہے کہ: بات زمین کی ہے مگر اتنی ارفع ہے کہ آسمان کی بات لگتی ہے۔ ان دو نکات پر توجہ فرمائیے گا۔
اہم تر بات! مطلع بقول لالہ مصری خان "ظالم" ہونا چاہئے، یعنی قاری کو اپنی گرفت میں لے لے، کہ یہاں آپ کی غزل شروع ہو رہی ہے۔ شروع میں ہی مجھ جیسا کوئی کم ذوق قاری کہہ دے یا سوچ لے کہ یار! نہیں! ڈھیلا ہے! بقیہ اشعار کے مقابلے میں ایسی بات مطلع یا مقطع کے بارے میں کہی سوچی جائے تو وہ زیادہ گھمبیر ہے۔
 
یہی خدا کی رضا ہے کہ ارتقا میں رہے
ہر ایک رنگ میں اردو نئی زباں کی طرح
یہ شعر بنایا ہوا لگتا ہے بھائی۔ زبان کوئی بھی ہو، وہ ہمیشہ ارتقاء میں رہتی ہے اور ارتقاء کا عمل رک جائے تو زبان مرنے لگتی ہے۔ "نئی" سے آپ غالباً تازہ بلکہ تر و تازہ اور زندہ لینا چاہ رہے ہیں، اس طرف ذہن جاتا ہے مگر بات جیسے بننی چاہئے بن نہیں پائی۔ میں بات کر رہا ہوں رفعتِ خیال کی اور اس کا شایان اظہار کی۔ آپ کو بلندی کی طرف جانا ہے؛ بلندی کا سفر بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے تو ہوا کرے۔ اسے جاری رہنا ہے! اور بات زبان کے ارتقاء کی ہو تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ہر ایک رخ سے کسی بھی جواں زباں کی طرح بلکہ اس سے بہتر کچھ سوچئے گا۔
 
لگا کے ہاتھ جنہیں تو نے کر دیا انمول
چمک رہے ہیں وہ پتھر بھی کہکشاں کی طرح
یہ شعر نسبتاً بہتر ہے۔ ایک جگہ رعایت کی کمی رہ گئی۔ چمکنے کی رعایت سے انمول ایسی مضبوط رعایت نہیں، اس کو کچھ اور کیجئے۔ بظاہر یہی ہے کہ دوسرے مصرعے میں مراعات النظیر کا اہتمام کریں تو قافیہ جاتا ہے۔
 
قدم قدم پہ نئے وسوسوں کی سازش ہے
یہ زندگی ہے ذہانت کے امتحاں کی طرح
پوری غزل کے پیش منظر میں یہ شعر بہت کمزور ہے۔ وسوسہ سازش نہیں کرتا، وسوسہ ڈالنے والا سازش کرتا ہے۔ اور وسوسے کا تعلق ذہن سے کہیں زیادہ دل سے ہوتا ہے۔ قدم قدم کہا تو زندگی کو بھی سفر کہہ دیجئے، زندگی کہا تو قدم قدم کی جگہ سانس سانس کہئے کہ اس شعر کی فضا سفر کے ویسی مناسبت بنا نہیں رہی۔ مراعات النظیر کا نظام یا رعایات کا نظام یا علامات (آپ جو نام بھی دے لیجئے) جتنا مضبوط ہو گا شعر کی جمالیاتی سطح بلند ہو گی اور ترسیل فکر کو زیادہ مؤثر بنائے گی۔
 
نہ دیکھئے تو زمانہ بھی کچھ نہیں لگتا
دکھائی دے تو ہے انسان بھی جہاں کی طرح
دیکھنا، غور کرنا؛ یہاں لغت و معانی کی سطح پر مسئلہ نہیں ہے۔ اسی لئے تو بات قاری تک پہنچ رہی ہے؛ لیکن قاری تک آپ کے محسوسات پورے طور پر پہنچا نہیں پاتی۔ "کچھ نہیں لگتا" کے قریبی معانی کوئی تعلق نہ ہونے کے ہیں، جب کہ آپ کی مراد ہے "کچھ نہیں" یعنی ہیچ، بے قیمت، بے وقعت۔ ایسی صورت کو اصطلاحاً "عجزِ بیان" کہتے ہیں۔
الفاظ کی در و بست اور تھوڑی سی ترمیم سے آپ اس کو نکھار سکتے ہیں۔ خبر نہ ہو تو زمانہ بھی کوئی چیز نہیں، جو ہو شعور تو انساں بھی ہے جہاں کی طرح؛ یا کچھ اس سے بہتر صورت بہ سہولت نکل سکتی ہے۔
 
ہر ایک سمت نئے پھول اس سے کھلتے ہیں
بہار برگ سکھاتی نہیں خزاں کی طرح
ایک ہوتا ہے خبر دینا، بات کہہ دینا، کوئی بیان دینا؛ ایک ہوتا ہے اسی کو شعر بنانا۔ جب وہ شعر کے مقام کو نہ پا سکے تو "کلامِ منظوم" سے زیادہ کچھ نہیں۔ شعر کا مقام کیا ہے؟ یہ بہت طویل بحث ہو گی، مختصر طور پر کہہ لیجئے کہ شاعر اور قاری کے درمیان محسوسات کی سطح پر رابطہ قائم ہونے کا نام شعر ہے۔ زیرِ نظر دو مصرعوں میں کمزوری نفسِ مضمون کی بھی ہو سکتی ہے، مضمون نگاری کی بھی اور مضمون آفرینی کی بھی؛ شاعر کو بہتر ادراک ہوتا ہے بہ نسبت قاری کے۔
 
ہمیں خبر تھی ہے بے سود تم سے کچھ کہنا
تبھی تو چپ سے تھے ہم بحر بے کراں کی طرح
ایک دو شعر دیکھئے
جو بگولوں کو کہہ رہے ہیں نسیم
ان سے کہئے بھی کیا کہ ہے بے سود
بات کرنے میں عار ہو جن کو
ان سے کس مدعا کی بات کریں
میرا خیال ہے کہ میرا "خیال" آپ تک پہنچ گیا ہو گا۔ مجھے اس شعر میں بندش کی کمی محسوس ہوئی، الفاظ کی نشست و برخاست میں جبر کا عنصر لگتا ہے۔ یہ مت کہئے گا کہ الف واو یاے ہاے کا گرانا جائز ہے؛ کہ وہ جائز ہے لازم نہیں ہے۔ میرا آپ کا ایک عرصے کا ساتھ ہے، آپ جانتے ہیں کہ میں ملائمت کا قائل ہوں۔ خاص طور پر غزل کے شعر میں بہر لحاظ ملائمت ہونی چاہئے الفاظ نرمی سے ادا ہوں، بات نرم اور دھیمے مگر مؤثر لہجے میں کی جائے، نفسِ مضمون اور اندازِ اظہار میں لفظی اور غنیاتی سطح پر بھی قربت ہو۔
ایسے شعر جیسا آپ نے کہا اور دو شعر وہ بھی جو میں نے نقل کئے، ان میں مضمون اتنا بڑا نہیں کہ قاری کی توجہ پر گرفت کر سکے؛ اس کو مضمون بنانا پڑے گا۔ وہاں اپنی غزل کی فضا اور اپنے مزاج کے مطابق الفاظ کا چناؤ ہی رہ جاتا ہے جو ایک چھوٹی بات کو بڑی بات بنا دے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ایسے فن کی بہت عمدہ مثال ہے:
میں نوائے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ رمیدہ بو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتم دلبری
(واضح رہے کہ ہم اقبال سے حالی والی ملائمت کی توقع نہیں رکھ سکتے، اقبال کے شعر کا خاص وصف شوکتِ لفظی ہے)۔
 
وہ سرکشی ہے کہ غافل ہیں اپنے آپ سے لوگ
نشان والے بھی رہتے ہیں بے نشاں کی طرح
یہاں حذف کی وہ صورت بن ہی نہیں سکتی تھی جو میر کے ہاں بنی ہے کہ "مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو ۔۔۔۔۔۔۔"۔
ایک احساس یہ ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑے موضوع کو بہت کم الفاظ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے جو باروَر نہیں ہوئی۔ ہر موضوع یا مضمون کی اپنی کچھ لفظی ضروریات اور تقاضے ہوتے ہیں، اس سے کم میں اس کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔
توجہ فرمائیے گا۔
 
مجموعی منظر نامہ زیرِ نظر غزل کے حق میں جاتا ہے، تاہم اطمینانِ قطعی کی نوید نہیں سناتا۔ شعر کا معاملہ ہوتا ہی ایسا ہے، جہاں شاعر رک گیا یا اپنے آپ کو دہرانے لگا وہاں جانئے اس کو زنگ لگ گیا ہے۔ آپ نوجوان آدمی ہیں، آپ کے سامنے ابھی بہت لمبا سفر ہے۔ میں نے اتنا کڑا تول جو رکھا ہے اس کی ایک منطق ہے۔ دیکھئے ایک مقام ہے جہاں میں اور آپ (حیثیت شاعر) اس وقت کھڑے ہیں۔ ہمیں یہیں کھڑے نہیں رہنا، اور اس سے بھی بچنا ہے کہ ہمارا اگلا قدم تنزل کی طرف ہو۔ خوب سے خوب تر کی جستجو رہنی چاہئے۔
 
میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ میں نے کہا یار مضمون میں نے لکھ لیا ہے، عنوان جو پہلے رکھا تھا اس کو بدلنا ہے۔ کہنے لگے: "آپ بدلتے رہیں جی، ہمارے قلم سے تو ایک جملہ پہلی بار جیسا نکل گیا، نکل گیا"۔ میں اس طرز کا حامی نہیں ہوں! اچھی ترمیم اگر بیس تیس سال بعد بھی سوجھ جائے تو کر لیتا ہوں۔ ایک شعر بیس برس پہلے کہا تھا، ایک لفظ کی عروضی بندش درست نہیں تھی (بالکل سامنے کا نقص)؛ وہ ویسا ہی رہا، تا آنکہ کوئی دو ماہ پہلے غزلوں کا مجموعہ اپنی آخری شکل کو پہنچا۔ ایک ترمیم سوجھ گئی، سو کر دی۔ شعر کی دونوں حالتیں پیش کئے دیتا ہوں:
جو تنکے آج بکھرے ہیں گلی میں
کبھی اک چہکتی چڑیا کا گھر تھا

جو تنکے آج بکھرے ہیں گلی میں
یہاں چڑیا چہکتی تھی، یہ گھر تھا​

غزل کی زلفِ پریشاں سنور نہیں سکتی
یہ ہو رہے تو غزل ہی غزل نہ رہ پائے
۔۔۔۔ 16 اگست 2014ء
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ماشاء اللہ آپ نے غزل کے ہر شعر پر سیر حاصل تنقید کی ہے۔آپ نے یہ جو فرمایا کہ " میرے حساب میں اب آپ "نئے لکھنے والے" نہیں رہے؛ آپ کے شعر میں جزئیاتی سطح پر پختگی نظر آنی چاہئے۔ " ۔۔ اس پر صرف اتنا عرض کروں گا کہ لکھنے کی طرف توجہ کم رہتی ہے۔ زیادہ تر غم روزگار لاحق رہتا ہےتو پرانا لکھنے والا ہونے کے باوجود بھی میں نئے لوگوں کی طرح لکھنے لگتا ہوں۔ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ غزل کو مزید وقت دوں، مزید نکھاروں اور پھر آپ کے سامنے لاؤں تاکہ کسی قسم کا سقم باقی نہ رہے۔ ان شاء اللہ کچھ دنوں میں دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔۔۔
 
Top