ڈرا رہے ہیں کسی کو نہ ڈر کے رہتے ہیں

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ڈرا رہے ہیں کسی کو نہ ڈر کے رہتے ہیں
ہمیں تو جو بھی ہے کرنا، وہ کر کے رہتے ہیں

کوئی رفیق نہ ساتھی ہمارے ساتھ رہا
نہ ہم ہی ساتھ کسی ہمسفر کے رہتے ہیں

نہ ہم غریب کی غربت سے دور بھاگتے ہیں
نہ ہم اسیر کسی اہل زر کے رہتے ہیں

زمین والے تو جاتے ہیں آسماں کی طرف
فلک نشین زمیں پر اُتر کے رہتے ہیں

نہ یوں مٹا کہ اے قاتل یہ تیرا خنجر ہے
پر اِس پہ داغ ہمارے ہی سر کے رہتے ہیں

یہ بھانت بھانت کی خبریں یہ ان گنت اخبار
ہمارے گھر میں کسی بے خبر کے رہتے ہیں

ابد حیات فقط دوسرے جہان میں ہے
جو اِس جہان میں جیتے ہیں، مر کے رہتے ہیں

تمہاری دید کے پیاسے تمہارے دیوانے
رہیں تو پاس تمہارے ہی در کے رہتے ہیں

برائے توجہ:
محترم الف عین صاحب ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں کم از کم شروع کے۔ آخری چار اشعار ایسا لگتا ہے کہ قافیہ استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ جو کہ ناکام رہی۔
ابد حیات؟ ’ب‘ پر زبر سے تقطیع ہوتا ہے، جزم سے نہیں۔ ویسے مفہوم کے لغاظ سے ابدی حیات کا محل ہے، محض ابد کا نہیں۔
 
Top