صبح سے شام ہوئی اور ہرن مجھ کو چھلاوے دیتا
سارے جنگل میں پریشان کیے گھوم رہا ہے اب تک
اس کی گردن کے بہت پاس سے گزرے ہیں کئی تیر مرے
وہ بھی اب اتنا ہی ہشیار ہے جتنا میں ہوں
اک جھلک دے کے جو گم ہوتا ہے وہ پیڑوں میں
میں وہاں پہنچوں تو ٹیلے پہ کبھی چشمے کے اس پار نظر آتا ہے
وہ نظر رکھتا ہے مجھ...