گلزار تعاقب

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صبح سے شام ہوئی اور ہرن مجھ کو چھلاوے دیتا

سارے جنگل میں پریشان کیے گھوم رہا ہے اب تک

اس کی گردن کے بہت پاس سے گزرے ہیں کئی تیر مرے

وہ بھی اب اتنا ہی ہشیار ہے جتنا میں ہوں

اک جھلک دے کے جو گم ہوتا ہے وہ پیڑوں میں

میں وہاں پہنچوں تو ٹیلے پہ کبھی چشمے کے اس پار نظر آتا ہے

وہ نظر رکھتا ہے مجھ پر

میں اسے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا

کون دوڑائے ہوئے ہے کس کو

کون اب کس کا شکاری ہے پتہ ہی نہیں چلتا

صبح اترا تھا میں جنگل میں

تو سوچا تھا کہ اس شوخ ہرن کو

نیزے کی نوک پہ پرچم کی طرح تان کے میں شہر میں داخل ہوں گا

دن مگر ڈھلنے لگا ہے

دل میں اک خوف سا اب بیٹھ رہا ہے

کہ بالآخر یہ ہرن ہی

مجھے سینگوں پر اٹھائے ہوئے اک غار میں داخل ہوگا
 
Top