چمکے تو برق، کڑکے تو رعد، گرے تو صاعقہ (کاپی، پیسٹ)

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چھوڑیں گے نہ ہم کوشش تعمیرِ نشیمن
گرتی ہے اگر برق تو سو بار گرے اور

استاد کہتے ہیں شعر اچھا ہے مگر اس میں ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ شاعر ’برق‘ گرنے کی بات کر رہا ہے جب کہ حقیقت میں ’برق‘ نہیں گرتی۔

پر یہ برق تو شاعر مشرق کے ہاں بھی گر رہی ہے۔ مشہور مصرع ہے: ’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔‘ پھراُن خبروں کا کیا ہے جن میں بجلی گرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ ہم نے اقبال اور اخبار کا حوالہ پیش کیا۔

بولے: میں نے ’برق‘ کی بات کی ہے بجلی کی نہیں۔

ایسا ہے تو آپ ہی بتا دیں کیا گرتا ہے اور کیا نہیں۔ ہم نے ہار مان لی۔

فاتحانہ لہجے میں بولے:

دیکھو آسمان پر جو چمکتی، کوندتی، کڑکتی، گرجتی اور بالآخر زمین پر گرتی ہے اردو میں اس کے لیے فقط ایک لفظ ’بجلی‘ ہے۔ اس کے علاوہ electricity کو بھی بجلی کہتے ہیں۔ یعنی ’بجلی‘ ہر صورت میں ’بجلی‘ ہے۔

دوسری طرف عربی زبان کے مطابق جو بجلی چمکتی ہے وہ ’برق‘، جو کڑکتی ہے وہ ’رعد‘ اور جو گرتی ہے وہ ’صاعقہ‘ کہلاتی ہے۔ جب کہ الیکٹریسٹی (electricity) کو ’كهرباء‘ کہتے ہیں۔

عربی میں ’برق‘ صرف چمکتی ہے جب کہ اردو میں ’برق‘ چمکتی ہی نہیں گرتی بھی ہے۔ پھر مجازاً الیکٹریسٹی کو بھی ’برق‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے بجلی کی فراہمی پر مامور ادارہ ’محکمہ برقیات‘ کہلاتا ہے۔

چوں کہ بجلی کے چمکنے میں تیزی شامل ہے اس لیے اردو میں ’برق‘ کے معنی میں چمک دمک کے ساتھ تیز، پھرتیلا اور شوخ بھی شامل ہوگئے۔ پھر اسی سے ترکیب ’برق انداز‘ بنا لی گئی جو چوکیدار،عدالت یا پولیس کے سپاہی اور بندوقچی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

’برق‘ کی اسی تیزی کے پیش نظر ’ٹیلی گراف‘ کو’بَرْقِيَّة‘ کہتے ہیں۔ ہمارے مرحوم استاد ’الیکٹرونک اینڈ پرنٹ میڈیا‘ کو ہمیشہ ’برقی و ورقی ذرائع ابلاغ‘ لکھتے تھے، دیکھو کس قدر آسان اور رواں ترجمہ ہے۔

مطلب یہ کہ اردو میں ’برق‘ گر سکتی ہے؟

بولے: جی ہاں! اردو میں ’برق‘ گر سکتی ہے، میرا اعتراض تو محض اس جانب توجہ دلانا تھا۔

اب گرجنے اور گرنے والی بجلی ’رعد و صاعقہ‘ پر بھی روشنی ڈال دیں، ہم نے کہا

بولے:’رعد‘ بادلوں کو چلانے والے فرشتے کا نام ہے اور اسی نسبت سے بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے کڑکنے کو بھی ’رعد‘ کہتے ہیں۔ پھر گرجدار آواز کی رعایت سے اردو میں توپ چلانے اور گولہ پھینکنے والے شخص کو ’رعد انداز‘ کہا جاتا ہے۔ اب ’رعد‘ کو زور دار آواز کی رعایت سے ’رفیق سندیلوی‘ کےشعر میں سنو:

خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے
عجب شور قیامت میں گھرے تھے کان میرے

اردو میں لفظ ’صاعقہ‘ اپنے اصل اور مجازی دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی گرنے والی بجلی اور مجازی معنی میں مہلک عذاب ،کڑک، تیز اور رواں شامل ہیں۔ پھر انہیں معنی کی رعایت سے ’صاعقہ خصال‘ اور ’صاعقہ خو‘کی تراکیب بنیں جو تیزمزاج اور تیز رفتار کو کہتے ہیں۔ پھر بجلی گرانے والے کو ’صاعقہ زن‘ اور ’صاعقہ زا‘ کہا گیا۔ الغرض اردو میں برق اور رعد کی طرح صاعقہ سے بھی کئی ایک ترکیبیں بنالی گئی ہیں۔ اب صاعقہ کی رعایت سے ’رفیق خیال‘ کا ایک شعر ملاحظہ کرو:

وہ صاعقہ مزاج ہے میں سرد برف سا
حیرت زدہ ہیں لوگ تمام اس ملاپ پر

استاد اپنی قابلیت کی بجلیاں گرا چکے تو بولے تمھیں ایک دلچسپ بات اور بتاتا چلوں۔ ہم کسی چیز کو دور سے دیکھیں یا نزدیک سے، سرسری دیکھیں یا غور سے معائنہ کریں، ہر صورت میں اُس کے لیے ’دیکھنا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی دوسرا لفظ استعمال کریں بھی تو وہ اپنی اصل میں اردو زبان کا نہیں ہوتا ہے۔

کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ ہم نے کہا

بولے: ’رویت، بصر اور نظر‘۔ یہ تینوں الفاظ عربی کے ہیں اور ان تینوں کے معنی ’دیکھنا‘ ہے، مگران کے استعمال میں فرق ہے۔

پہلے رویت پر آجاؤ۔ اس سے ترکیب ’رویت ہلال‘ یعنی چاند دیکھنا ہے۔ ہمارے یہاں بالخصوص رمضان اور عیدین پر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ ’رویت ہلال کمیٹی‘ کرتی ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ رویت کا مادہ (بنیادی لفظ) ’رأ ی‘ ہے۔ اس کے معنی ’دیکھنا‘ ہیں، پھر اسی سے لفظ ’رویت اور رویا‘ بھی ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے معنی بھی ’دیکھنا‘ ہے۔

ان تینوں ’دیکھنا‘ میں کیا فرق ہے؟

ان تینوں کے درمیان لطیف فرق ہے۔ ’رأی‘ دل سے دیکھنے کو کہتے ہیں۔ ’رویت‘ آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں۔ ’رویا‘ خواب میں دیکھنے کو کہتے ہیں۔

’رأی‘ سے ایک لفظ ’مرئی‘ ہے۔ ’مرئی‘ اسے کہتے ہیں ’جسے دیکھ سکیں‘۔ اردو میں ’مرئی‘ سے زیادہ اس کی ضد ’غیرمرئی‘ یعنی ’جسے نہ دیکھ سکیں‘ زیادہ برتا جاتا ہے

موضوع مشکل اور قدرے پیچیدہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ذہنی حوصلہ جواب دینے کو تھا اس لیے عرض کیا: استاد اگر مختصر الفاظ میں بصر اور نظر کا فرق سمجھا دیں تو نوازش ہوگی۔

مسکرا کر بولے: بات تو یہ بھی طویل ہے تاہم مختصر طور یہ سمجھ لو کہ سرسری دیکھنے کو ’بصر‘ اور کسی چیز کو دیکھ کر سمجھنے کو ’نظر‘ کہتے ہیں۔ اب نظر کی رعایت سے علامہ اقبال کا ایک پُر مغز شعر سنو اور ہمیں اجازت دو:

نظر آتے نہيں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقليد سے کور
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
Top