عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

La Alma

لائبریرین
کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ اور رسول (ص) کی محبت کا تو ذکر ہے لیکن عشق کا نہیں؟
کیونکہ عشق صرف اور صرف مبالغہ آرائی ہے . سپر نیچرل قسم کی ایک ادبی لغت ہے جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے ، ہاں البتہ فکشن کا حسن ہے .محبت کے متبادل کے طور پر تو لیا جا سکتا ہے لیکن اس میں ایسا کوئی امتیازی وصف نہیں جس کی بنا پر اسے محبت پر فوقیت دی جا سکے .محبت سے ماورا کوئی شے نہیں .
 

سید عمران

محفلین
کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ اور رسول (ص) کی محبت کا تو ذکر ہے لیکن عشق کا نہیں؟

کیوں نہیں ہے۔۔۔
قرآن پاک کی آیت ہے۔۔۔
و الذین امنو اشد حبا للہ۔۔۔
ایمان والے اللہ سے شدید نہیں اشد محبت کرتے ہیں۔۔۔
اگر اردو ترجمے میں عشق کالفظ پسند نہیں آرہا ہے تو۔۔۔
’’اشد حبا‘‘ کا ترجمہ شدید محبت تو ہے ہی۔۔۔
اللہ کی اس اشد محبت کو حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی مراد بنا کر دعا کے سانچے میں ڈھال دیا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل فرمایا :
اللھم انی اسئلک حبک و حب من یحبک و العمل الذی یبلغنی حبک ۔۔۔
اللهم اجعل حبك احب الی من نفسی و اہلی ومن الماء البارد۔۔۔
اے اللہ میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں۔۔۔
اور ان لوگوں کی محبت مانگتا ہوں جو آپ سے محبت رکھتے ہیں۔۔۔
اور ان اعمال کی بھی محبت مانگتا ہوں جو آپ سے محبت کا ذریعہ بن جائیں۔۔۔
اور۔۔۔
اے اللہ مجھے اپنی وہ محبت دے دیجیے جو مجھ کو میری جان، میرے مال، میرے اہل و عیال اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ ہو۔۔۔​
پیاسا چاہے جیسے آبِ سرد کو
تیری پیاس اس سے بڑھ کر ہو مجھ کو​
محبت میں بڑھ جانا، محبت کا شدید ہوجانا یقیناً عام محبت سے بڑھ کر ہے جسے خود انبیاء کرام مانگ رہے ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی یہ حدیث پاک تو بہت ہی مشہور و معروف ہے۔۔۔
تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تم کو تمہاری جانوں، بیوی بچوں، گھر بار اور ہر چیز میں سب سے پیارا نہیں ہوجاتا۔
یعنی مخلوق سے محبت سر آنکھوں پر، ان کی محبت کا انکار مطلوب نہیں ہے بلکہ ان سے محبت کی ترغیبات ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ اور رسول کی محبت ان سب سے شدید ہونی چاہیے ۔ چاہے نام عشق کا نہ ہو!!!
محبت محبت تو کہتے ہیں لیکن
محبت نہیں جس میں شدت نہیں ہے

عقل کا بھی تقاضا ہے کہ جو ہر لمحہ، ہر لحظہ عنایات پر عنایات کررکھا ہے۔۔۔
بلا ہمارے استحقاق کے۔۔۔
بلا اپنی غرض و لالچ کے۔۔۔​
اس کے لیے اور کچھ نہ کرسکیں تو کیا عشق بھی نہ کریں۔۔۔
اس کے لیے تو کسی عقلی و نقلی دلیل کی ضرورت بھی نہیں!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
کیوں نہیں ہے۔۔۔
قرآن پاک کی آیت ہے۔۔۔
و الذین امنو اشد حبا للہ۔۔۔
ایمان والے اللہ سے شدید نہیں اشد محبت کرتے ہیں۔۔۔
اگر اردو ترجمے میں عشق کالفظ پسند نہیں آرہا ہے تو۔۔۔
’’اشد حبا‘‘ کا ترجمہ شدید محبت تو ہے ہی۔۔۔
اللہ کی اس اشد محبت کو حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی مراد بنا کر دعا کے سانچے میں ڈھال دیا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل فرمایا :
اللھم انی اسئلک حبک و حب من یحبک و العمل الذی یبلغنی حبک ۔۔۔
اللهم اجعل حبك احب الی من نفسی و اہلی ومن الماء البارد۔۔۔
اے اللہ میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں۔۔۔
اور ان لوگوں کی محبت مانگتا ہوں جو آپ سے محبت رکھتے ہیں۔۔۔
اور ان اعمال کی بھی محبت مانگتا ہوں جو آپ سے محبت کا ذریعہ بن جائیں۔۔۔
اور۔۔۔
اے اللہ مجھے اپنی وہ محبت دے دیجیے جو مجھ کو میری جان، میرے مال، میرے اہل و عیال اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ ہو۔۔۔​
پیاسا چاہے جیسے آبِ سرد کو
تیری پیاس اس سے بڑھ کر ہو مجھ کو​
محبت میں بڑھ جانا، محبت کا شدید ہوجانا یقیناً عام محبت سے بڑھ کر ہے جسے خود انبیاء کرام مانگ رہے ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی یہ حدیث پاک تو بہت ہی مشہور و معروف ہے۔۔۔
تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تم کو تمہاری جانوں، بیوی بچوں، گھر بار اور ہر چیز میں سب سے پیارا نہیں ہوجاتا۔
یعنی مخلوق سے محبت سر آنکھوں پر، ان کی محبت کا انکار مطلوب نہیں ہے بلکہ ان سے محبت کی ترغیبات ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ اور رسول کی محبت ان سب سے شدید ہونی چاہیے ۔ چاہے نام عشق کا نہ ہو!!!
محبت محبت تو کہتے ہیں لیکن
محبت نہیں جس میں شدت نہیں ہے

عقل کا بھی تقاضا ہے کہ جو ہر لمحہ، ہر لحظہ عنایات پر عنایات کررکھا ہے۔۔۔
بلا ہمارے استحقاق کے۔۔۔
بلا اپنی غرض و لالچ کے۔۔۔​
اس کے لیے اور کچھ نہ کرسکیں تو کیا عشق بھی نہ کریں۔۔۔
اس کے لیے تو کسی عقلی و نقلی دلیل کی ضرورت بھی نہیں!!!
ہم جانتے اور مانتے ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی لفظ بلا وجہ نہیں ہے، بغیر ضرورت کے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، تو پھر کچھ تو وجہ ہوگی کہ اللہ نے شدید محبت کا لفظ تو استعمال کر لیا لیکن "عشق" کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے لیے ہمیں تاویل کرنی پڑتی ہے، کچھ تو وجہ رہی ہوگی۔ اور یہ واضح رہے کہ "عشق" اردو کا لفظ نہیں ہے جو اردو ترجمے میں آئے یا نہ آئے کا مسئلہ ہو، خاص عربی کا لفظ ہے اور زمانہ نزول قرآن کے وقت مستعمل تھا۔
 

سید عمران

محفلین
ہم جانتے اور مانتے ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی لفظ بلا وجہ نہیں ہے، بغیر ضرورت کے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، تو پھر کچھ تو وجہ ہوگی کہ اللہ نے شدید محبت کا لفظ تو استعمال کر لیا لیکن "عشق" کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے لیے ہمیں تاویل کرنی پڑتی ہے، کچھ تو وجہ رہی ہوگی۔ اور یہ واضح رہے کہ "عشق" اردو کا لفظ نہیں ہے جو اردو ترجمے میں آئے یا نہ آئے کا مسئلہ ہو، خاص عربی کا لفظ ہے اور زمانہ نزول قرآن کے وقت مستعمل تھا۔
تاویل نہیں کرنی پڑ رہی بلکہ تشریح کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔
جیسے ہم اپنے بڑوں سے بھی عشق نہیں شدید محبت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔۔۔
اور جیسا کہ پہلے عرض کردیا کہ لفظ عشق پسند نہیں تو کوئی حرج نہیں۔۔۔
شدید محبت ہی کرلیں۔۔۔
بات تو وہی ہے!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
تاویل نہیں کرنی پڑ رہی بلکہ تشریح کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔
جیسے ہم اپنے بڑوں سے بھی عشق نہیں شدید محبت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔۔۔
اور جیسا کہ پہلے عرض کردیا کہ لفظ عشق پسند نہیں تو کوئی حرج نہیں۔۔۔
شدید محبت ہی کرلیں۔۔۔
بات تو وہی ہے!!!
چلیں آپ کو غیر ٖقرآنی بلکہ بعض کے نزدیک قرآن کے "معتوب" الفاظ پسند ہیں تو ایسے ہی سہی۔ ہمیں تو قرآنی الفاظ ہی پسند ہیں، پسند اپنی اپنی :)
 

فاخر رضا

محفلین
Completion, perfection, satisfaction. ان تین چیزوں کی خواہش خدا نے انسان کے خمیر میں شامل کردی ہے. خوبصورتی یا جمال انسان کو اپنی طرف متوجہ اور جذب کرتا ہے مگر وقت کے ساتھ وہ ڈھل جاتا ہے. الغرض انسان کہیں کسی حالت میں یہ تین چیزیں نہیں پاتا. اس کی تلاش میں وہ کسی بت کے so-called عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے. اس عشق کا آخری نتیجہ یا تو تباہی ہوتا ہے یا شادی. شادی اور پھر بال بچے اور پھر نارمل زندگی. شادی کے بعد وہ گرما گرمی بھی نہیں رہتی جو so-called عشق کا خاصہ ہوتی ہے. عشق میرے خیال میں ایک ایسے آئیڈیل کی تلاش کا نام ہے جو مکمل ہو، کمال ہو اور انسان کو اس کو پالینے کے بعد کسی "شے" کی حاجت نہ رہے. ان تمام خصوصیات کا مالک کو مادی وجود ہو ہی نہیں سکتا. وجہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر وسعت کے باوجود مادہ محدود ہے، اپنی کمیت کے لحاظ سے اور اپنی کیفیت کے لحاظ سے اور اپنے اندرونی خالی پن کے لحاظ سے. جو مادہ خود اندر سے خالی ہو، جس کے الیکٹرون اور نیوٹران کے درمیان بے انتہا خلا ہو وہ کسی اور کو کیا مکمل کرے گا. جو شے بھی مادہ ہے چاہے وہ آپ کا محبوب ہی ہو وہ یہ نہیں کر سکتا.
عشق مجازی کا مزا چکھ کر اس بات پر یقین ہوجاتا ہے جو میں نے کہی اور پھر خدا ہی خدا ہوتا ہے
 

فاخر رضا

محفلین
عشق مجازی کیا ہوتا ہے؟ میرے خیال میں انسان کے اللہ تعالیٰ سے پیار ومحبت کی انتہا کو عشقِ حقیقی کہا جاتا ہے۔ جو انبیاء کی تعلیمات کا بڑا اور لازمی حصہ ہے۔ اور جسے عشقِ مجازی کہا جارہا ہے وہ ہستی ءِ باری تعالیٰ کے علاوہ دیگر سے پیار اور محبت کی انتہا ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کا اپنی امت سے پیار ِ کامل عشقِ مجازی تھا؟ یا عشقِ حقیقی؟
اور حکمت (دلیل) کے آگے اور پیچھے صرف علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے کنواں یا کھائی نہیں۔ میرے پاس بہت کچھ کہنے کو ہے۔ مختصراً ہر عشق اگر وہ عشق ہے تو وہ سفر بہ سمتِ عشقِ حقیقی ہی ہے۔ جو دلیل "اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی ذات پاک پر درود پاک پڑھتے ہیں " آپ نے پیش کی ہے اس سے توکوئی ابھی انکار کرنے کی جراءت نہیں کر سکتا ۔ یہ دلیل تو میرے مؤقف کو 100 فی صد سپورٹ کرتی ہے۔ ہر عاشق معشوق بھی ہوتا ہے یا کم از معشوق ہونے کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔ اگر میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا عاشق ہوں تو مجھے یقین ہے کہ جیسے آپ ﷺ میرے معشوق ہیں میں بھی آپ ﷺ کا معشوق ہوں بلکہ امت کا ہر ایک فرد ہے کہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو اس کے پیار میں آپ ﷺ نے دعائیں کیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا عشقِ رسول کامل نہ ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی پاک ﷺ کا اپنی امت کے تئیں عشق کامل نہ ہو۔
ایک بہت خوبصورت آیت یاد آگئی آپ کی بات پڑھ کر
اے رسول کہ دیجئے اگر وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تو تو میری (رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اتباع کریں، اللہ ان سے محبت کرنے لگے گا.
یہ ایک محبت یا عشق کی انتہا ہے جو اللہ اپنے حبیب سے کرتا ہے. کیا بات ہے. میری جان قربان ہوجائے محبت رسول اکرم میں
 

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم
چوہدری صاحب ! دُکھ اور پریشانی کی کیا بات ہے ، ہر آدمی کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے ، آپ مجھ سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں ، اور میں آپ کے اختلاف رائے کا احترام کرتا ہوں ، اختلاف رائے کوئی بری شے نہیں بلکہ میرے خیال میں اس سے ہر آدمی کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی ہے ، ہر زبان اور ہر بولی کے اپنے اپنے معنی ہوتے ہیں جو کہ اکثر اوقات علاقائی تمدن اور ثقافت کے گہرے اثر کے سبب تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، ہم لوگ فارسی اور اردو میں لفظ ذلیل استعمال کرتے ہیں ، جو کہ بعد میں پنجابی سندھی اور دیگر زبانوں اور بولیوں میں بھی مستعمل ہوا اور ان تمام زبانوں اور بولیوں میں لفظ " ذلیل " کے معنی " کمینہ " لیا جاتا ہے ۔ مگر یہی لفظ جب عربی زبان میں لیا جائے گا تو اس کے معنی ہونگے " کمزور ، کم ہمت "
پنجاب اور عرب کی ثقافتوں اور تمدن میں بڑا فرق ہے ، آپ دونوں جگہوں پر مستعمل ایک ہی لفظ کے ایک ہی معنی نہیں لے سکتے ، علم القرآن و علم الحدیث یا پرانے عربی ادب کے علماء سے پوچھ سکتے ہیں ، آپ کو یہ لفظ عشق کہیں نہیں ملے گا ، آپ کو ہر جگہ " حُب " کا لفظ ملے گا ، عربوں میں پہلے پہلے یہ لفظ ایران کی فتح کے بعد مستعمل ہوا ، ایرانی چونکہ بہت متمدن سمجھے جاتے تھے ، بلکہ زمانہ قدیم میں فلسفہ کے تین ہی مراکز تھے ، ہندوستان ، یونان ، اور ایران ، سو ایرانی فلاسفہ اور علم الکلام کے ماہرین نے عرب معاشرے اور ادب پراپنا اثر چھوڑا ، یہی سبب ہے کہ بعد کے ادب میں یہ لفظ استعمال ہوتا رہا اور پھر ایرانی اور عربی ادب کے زیر اثر ہم لوگ بھی اس لفظ کو استعمال کرنے لگے ، خیر میں اس لفظ کے استعمال کو برا نہین جانتا مگر میں سمجھتا ہون کہ جب آپ کو ایک اچھی " شے " کے مقابلے میں " زیادہ بہتر شے " مل جائے تو زیادہ بہتر شے کو ہی اپنا لینا چاہیے ۔
آصف احمد بھٹی
جہاں تک میری معلومات ہیں، قرآن کریم میں لفظ عشق نہیں بلکہ حب استعمال ہوا ہے. اس کا ترجمہ محبت یا عشق کیا گیا ہے.
 

اکمل زیدی

محفلین
ہم جانتے اور مانتے ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی لفظ بلا وجہ نہیں ہے، بغیر ضرورت کے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، تو پھر کچھ تو وجہ ہوگی کہ اللہ نے شدید محبت کا لفظ تو استعمال کر لیا لیکن "عشق" کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے لیے ہمیں تاویل کرنی پڑتی ہے، کچھ تو وجہ رہی ہوگی۔ اور یہ واضح رہے کہ "عشق" اردو کا لفظ نہیں ہے جو اردو ترجمے میں آئے یا نہ آئے کا مسئلہ ہو، خاص عربی کا لفظ ہے اور زمانہ نزول قرآن کے وقت مستعمل تھا۔
امیرالمومنین ؑ جنگِ صفین میں جب کوفہ سے دمشق کی طرف حرکت کررہے تھے تو راستے میں کربلا سے گزر ہوا۔ جب آپؑ اس دشت پر پہنچے تو اس سرزمین کی مٹی کو اپنی مٹھی میں اٹھایا اور تین دفعہ فرمایا کہ
’’واللہ ہہنا، واللہ ہہنا، واللہ ہہنا‘‘
خدا کی قسم! یہی جگہ ہے، خدا کی قسم! یہی جگہ ہے، اللہ کی قسم! یہی جگہ ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے امام ؑ ! کیا یہی جنگ کرنے یا رکنے کی جگہ ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ عاشقوں کے گرنے کی جگہ ہے یعنی امیر المومنین ۔ نے کربلا کا نام دشتِ عشق رکھا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
امیرالمومنین ؑ جنگِ صفین میں جب کوفہ سے دمشق کی طرف حرکت کررہے تھے تو راستے میں کربلا سے گزر ہوا۔ جب آپؑ اس دشت پر پہنچے تو اس سرزمین کی مٹی کو اپنی مٹھی میں اٹھایا اور تین دفعہ فرمایا کہ
’’واللہ ہہنا، واللہ ہہنا، واللہ ہہنا‘‘
خدا کی قسم! یہی جگہ ہے، خدا کی قسم! یہی جگہ ہے، اللہ کی قسم! یہی جگہ ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے امام ؑ ! کیا یہی جنگ کرنے یا رکنے کی جگہ ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ عاشقوں کے گرنے کی جگہ ہے یعنی امیر المومنین ۔ نے کربلا کا نام دشتِ عشق رکھا ہے۔
امیر المومنین کا نام بھی درج کر دیجیے، ہر انسان شاید نہ سمجھ پائے کہ یہاں کون مقصود ہیں
 
Top