عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

سید عمران

محفلین
ارے اقوام متحدہ کو بلائے کوئی، صلح صفائی کرانے کے لیے!!!
ورنہ عالمی جنگ چھڑنے والی ہے۔۔۔۔۔۔
عشق علی عقل کو جلاتا ہے جلاتا نہیں ہے . . . (زیر زبر کا فرق ملحوظ رہے )
علم کے ساتھ حلم ہونا بہت ضروری ہے ورنہ نقصان دہ ہوتا ہے . . .
اے لو! یہاں بھی عشق آگیا۔۔۔
ارے بھئی لفظ عشق کا استعمال بعضوں کے یہاں شجر ممنوعہ ہے!!!
 

زیک

مسافر
عشق کی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علمِ غیب کے کسی کو پتا نہ ہونے کے اعتقاد کے باوجود ہر عاشق اپنے معشوق کے علم غیب اور مستقبل کی پیشنگوئیوں کے متعلق روایات کی تشہیر کرتا رہتا ہے۔ جیسے معشوق نہ ہوا نوسٹراڈیمس ہو گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
عشق کی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علمِ غیب کے کسی کو پتا نہ ہونے کے اعتقاد کے باوجود ہر عاشق اپنے معشوق کے علم غیب اور مستقبل کی پیشنگوئیوں کے متعلق روایات کی تشہیر کرتا رہتا ہے۔ جیسے معشوق نہ ہوا نوسٹراڈیمس ہو گیا۔
ہاہاہا، یہاں اب مذہب اور الحاد کی بحث شروع ہو جائے گی
 

محمد وارث

لائبریرین
ہونا تو ایسے ہی چاہیے، مگر اردو ادب کے اصول بسا اوقات بڑے نامراد نکل آتے ہیں
یہ اردو ادب کا اصول نہیں ہے بلکہ مذہبی اصول ہے، عشق حقیقی خدا سے عشق مجازی بندوں سے۔ ادب والے بس تو عشق کا غم کھاتے ہیں، کبھی محبوب کا غم اور کبھی محبوب نہ ہونے کا غم :)
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ اردو ادب کا اصول نہیں ہے بلکہ مذہبی اصول ہے، عشق حقیقی خدا سے عشق مجازی بندوں سے۔ ادب والے بس تو عشق کا غم کھاتے ہیں، کبھی محبوب کا غم اور کبھی محبوب نہ ہونے کا غم :)
معلوماتی، کیونکہ کچھ دیر قبل آپ کے ایک مراسلے سے اندازہ ہوا کہ عشق کا مذہبی پس منظر مصدقہ نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
معلوماتی، کیونکہ کچھ دیر قبل آپ کے ایک مراسلے سے اندازہ ہوا کہ عشق کا مذہبی پس منظر مصدقہ نہیں
جی ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے مصدقہ نہیں سمجھتے (خاص طور پر اہل حدیث اور سلفی) اور کچھ کا دین ایمان ہی بس عشق حقیقی یعنی خدا و رسول کا عشق ہے (خاص طور پر تصوف والے اور بریلوی اور دیو بندی بھی) اور عشق علی والے بھی یقینا موجود ہیں (اب ان کا نام کیا لکھوں، اوپر زیدی صاحب فرما رہے تھے کہ اشارہ ہی کافی ہے)۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جی ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے مصدقہ نہیں سمجھتے (خاص طور پر اہل حدیث اور سلفی) اور کچھ کا دین ایمان ہی بس عشق حقیقی یعنی خدا و رسول کا عشق ہے (خاص طور پر تصوف والے اور بریلوی اور دیو بندی بھی) اور عشق علی والے بھی یقینا موجود ہیں (اب ان کا نام کیا لکھوں، اوپر زیدی صاحب فرما رہے تھے کہ اشارہ ہی کافی ہے)۔ :)
متفق
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ اور رسول (ص) کی محبت کا تو ذکر ہے لیکن عشق کا نہیں؟
قرآن میں عشق کا تذکرہ کیا جائے یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآن کا اندازِ تخاطب کسی اور طرح کا ہے۔ اب اس کی وجہ کیا ہے، یہ تو اللہ اور اس کا رسول (ص) ہی بہتر جانتے ہیں۔ قرآن کا عام انداز یہ رہا ہے کہ وہ عموما لوگوں کے نام نہیں لیا کرتا جب تک اس کی ضرورت کسی واقعے یا قصے کے بیان یا مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں نہ ہو۔ عشق کے لغوی معنی عربی میں کچھ اور جبکہ اردو میں اس سے الگ ہوسکتے ہیں، یہ زبان اور اہل زبان کا معاملہ ہے اور اہل زبان کے طور پر اردو زبان کے شعراء لفظ عشق کو منفی معنوں کی طرف لے کر جاتے دکھائی نہیں دیتے، اس لیے میں بھی اسے منفی نہیں گردانتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قرآن میں عشق کا تذکرہ کیا جائے یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآن کا اندازِ تخاطب کسی اور طرح کا ہے۔ اب اس کی وجہ کیا ہے، یہ تو اللہ اور اس کا رسول (ص) ہی بہتر جانتے ہیں۔ قرآن کا عام انداز یہ رہا ہے کہ وہ عموما لوگوں کے نام نہیں لیا کرتا جب تک اس کی ضرورت کسی واقعے یا قصے کے بیان یا مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں نہ ہو۔ عشق کے لغوی معنی عربی میں کچھ اور جبکہ اردو میں اس سے الگ ہوسکتے ہیں، یہ زبان اور اہل زبان کا معاملہ ہے اور اہل زبان کے طور پر اردو زبان کے شعراء لفظ عشق کو منفی معنوں کی طرف لے کر جاتے دکھائی نہیں دیتے، اس لیے میں بھی اسے منفی نہیں گردانتا۔
میرے خیال میں یہ بحث افراد کے ناموں پر نہیں ہو رہی۔ عشق اور محبت کے الفاظ پر ہو رہی ہے۔ قرآن میں نام لے کر اللہ اور رسول سے محبت کا ذکر ہے بلکہ مومنین کی آپس کی محبت کا بھی ذکر ہے بلکہ شدید محبت کا بھی ذکر ہے لیکن عشق کا نہیں ہے۔ اگر عشق کا لفظ قرآن میں نہیں ہے، جو کہ یقینا نہیں ہے اور نہ کسی تاویل یا تشریح سے اس میں داخل کیا جا سکتا ہے نعوذ باللہ، تو ثابت ہوا کہ عشق غیر قرآنی لفظ ہے۔ بس اتنی سی بحث ہے :)

باقی رہا عشق میں کچھ منفی پہلو ہونا تو یہ صرف اردو ہی میں نہیں ہے بلکہ عربی میں بھی ہے اور فارسی میں بھی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس لفظ میں شدت اور انتہائی شدت کا پہلو ہے جو کہ مجنون پن اور "دماغ کے خلل" کی حدوں کو جا چھوتا ہے اور یہی منفی پہلو ہے۔ دوسرا اس میں نفسانی پہلو کا عنصر بھی ہے۔ ہم اپنے سے بہت بڑے عزت و منزلت والے "مرد" شخصیت کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ مجھے ان سے عشق ہے، مذہبی ہستیوں کے لیے کہہ سکتے ہیں، اللہ و رسول کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ اپنے چھوٹے بڑے مرد رشتے داروں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اپنے والد سے عشق ہے، بڑے بھائی سے عشق ہے، چھوٹے بھائی سے عشق ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اپنی محرم خواتین کے بارے میں یہ لفظ استعمال نہیں کر سکتے، اگر استعمال کرتے ہیں تو فقط بیوی کے لیے یا محبوباؤں کے لیے۔ دیگر خواتین کے لیے نہیں اور یہی اس لفظ کا نفسانی منفی پہلو ہے۔ کیا یہی وجہ نہیں ہو سکتی کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اور کیا یہ وجہ نہیں ہے کہ عشق حقیقی اور عشق مجازی کی دو اصطلاحیں گھڑنا پڑیں وگرنہ عشق بس عشق تھا۔

آخری بات یہ کہ میری یہ بحث ضروری نہیں ہے کہ میری ذاتی رائے بھی ہو، میرے تو اپنے شب و روز اسی لفظ کی مالا جپتے گزرتے ہیں اور اسی وجہ سے بیوی کی باتیں سنتے بھی :)
 
Top