عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

ایسا بہت سنا ہے کہ عشق مجازی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن ایسا ہوتا کیسے ہے؟ یہ بڑا اہم اور میرے لئے بہت تجسس سے بھرا سوال رہا ہے۔
لیکن اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پتا چلے کہ عشق ہوتا کیا ہے؟
میرے استاد محترم نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا کہ " دل کے کسی چیز کی طرف مائل ہونے کو محبت کہتے ہیں اور جب اس جذبے میں شدت پیدا ہوجائے تو اسے عشق کہتے ہیں"
اور ایک دفعہ ایک اور عالم نے مجھے بتایا کہ " عشقہ ایک پودے کا نام ہے جو خود خشک ہوتا ہے اور مگر ہرے بھرے درختوں سے چمٹ جاتا ہے۔ جس درخت سے چمٹ جاتا ہے اسے سکھا دیتا ہے مگر خود توانا رہتا ہے اسے اگر جڑ سے کاٹ دیا جائے تب بھی یہ مرتا نہیں"
عربی میں ایک مثل مشہور ہے کہ "العشق نار یحرق ما سوا المحبوب " عشق آگ ہے اور محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے۔"
میرا سوال یہ ہے کہ عشق مجازی انسان کو عشق حقیقی کی طرف کیسے لیکر جاتا ہے؟
 
عشق نامی بیل دو بار دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ، پہلی بار کویت کے علاقے " الزور " کے صحرا میں میرے ایک سعودی دوست نے دکھائی تھی جوکہ عجیب و غریب اور بد شکل جھاڑی سی تھی اور جو کہ ٹوٹی ہوئی وہاں پڑی تھی اور بقول میرے سعودی دوست یہ وہ بیل ہے کہ جس کی جڑیں زمین کے نیچے نہیں ہوتی بلکہ یہ جس درخت یا پودے سے چمٹ جائے اُسے سُکھا دیتی ہے ، وہ چھوٹی سا ٹوٹا ہوا ٹکڑا جانے وہاں کیسے آ گیا تھا ( اور دوسری بار کراچی میں ایک حکیم صاحب کے پاس دیکھی تھی )
 
CUJA_TAMUheintze.jpg
 
یہ نہیں ہے ! امر بیل سے میں واقف ہوں ، میرے سعودی دوست نے جو مجھے دکھائی تھی وہ کچھ عجیب سی صحرائی بیل نما جھاڑی سی تھی ۔
 
ایسا بہت سنا ہے کہ عشق مجازی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن ایسا ہوتا کیسے ہے؟ یہ بڑا اہم اور میرے لئے بہت تجسس سے بھرا سوال رہا ہے۔

میں خود بہت عرصہ تک یہی سمجھتا رہا اور دوسروں کو بھی سمجھاتا رہا مگر ایک بار ایک بزرگ کے ایک ہی جملے نے مجھے اپنے پرانے موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیا ۔
 
ع ش ق، عِشْق
عربی
زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے 1564ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم
کیفیت (مذکر)
جمع غیر ندائی: عِشْقوں {عِش + قوں (و مجہول)}
معانی
1.
شدید جذبۂ محبت، گہری چاہت، محبت، پریم، پیار۔
؎
ناز برداری کوئی آساں نہیں
میں نے
ناحق عشق کا دعویٰ کیا،
2. {
تصوف } حُبِ مفرط اور کشش معشوق اور حب معشوق اور مرتبۂ وحدت کو کہتے ہیں اس کے پانچ درجے ہیں : درجہ اول فقدانِ دل یعنی دل کا گم کرنا، درجۂ دوم تاسف کہ جس میں عاشق بیدل بغیر معشوق کے ہر وقت اپنی زندگی سے متاسف ہوتا ہے، درجۂ سوم وجد اس کی وجہ سے عاشق کو اپنی جگہ اور کسی وقت آرام اور قرار نصیب ہی نہیں ہوتا، درجہ چہارم بے صبری، درجہ پنجم صیانت، عاشق اس درجے میں پہنچ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، بجز معشوق کے اور کسی کی یاد نہیں ہوتی، عشقِ حقیقی۔
(مصباح التعرف، 176)
3. {
طب } ایک طرح کا جنون و سودا جو صورت آدمی کو دیکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
4. شوق، آرزو۔
؎ ہوا جو عشقِ ثنائے
ابوتراب مجھے
خدا نے کر دیا
ذرے سے آفتاب مجھے،
5. عادت، لت، دھت، ٹھرک۔
(فرہنگ آصفیہ)
6. سلام، آدابِ عرض۔
؎
یاں غش ہیں شوقِ طوف میں یارانِ کعبہ کو
اے
نامہ بر تو کہیو یہ پیغام اور عشق،
 

سلمان حمید

محفلین
ایک اللہ والے کی بات یاد آگئی،
جب عشقِ مجازی سر پہ سوار تھا تو اس اللہ والے سے میں نے کہا کہ دعا کر دیجیے کہ جس کو چاہتا ہوں وہ مجھے مل جائے۔
اس نیک انسان نے کہا کہ اگر نہیں ملی تو کیا کرے گا؟
میں نے کہا کہ خودکشی کا حوصلہ نہیں ہے تو شاید جنگلوں میں نکل جاؤں یا کسی دربار پر بیٹھ جاؤں اور اللہ اللہ کروں گا کیونکہ پھر اس دنیا سے لینا دینا نہیں رہ جائے گا کچھ۔
وہ بولا کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم نے دعا کر کے وہ تجھے دلا دی تو ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم نے عشقِ حقیقی پہ مائل ہونے والا بندہ اس سے پھیر دیا۔
میں لاجواب ہو کر دعا کروائے بغیر ہی اٹھ آیا۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
مجاز زینہ ہے حقیقت کی طرف لے جانے والا ۔ یہ اور بات ہے کچھ لوگ راستے میں ہی پڑاؤ ڈال کر رہگز کو ہی منزل سمجھ لیتے ہیں اور منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔تاہم اس کا ادراک دورانِ مسافت نہیں ہو پاتا اکثر۔منزل پہ پہنچ کر جب قلوب منورہوتے ہیں تو دیر سے پہنچنے والے کف ِ افسوس ملتے ہیں کہ اتنی دیر کیوں لگائی
 
ہمیں بھی تو بتائیے کیا فرمایا بزرگ نے؟

میرا ایک دوست ولی محمد پاکستان ائیر فورس میں سینئیر ٹیکنیشن ہے ، میں جب بھی چھٹی جاتا ہوں ، وہ اور ہمارا ایک مشترکہ اسلام الدین بھائی دوست مجھے برنس روڈ لے جاتے ہیں ، برنس روڈ کو اپ لوگ کراچی کی پہلی فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں جہاں اچھے اچھے اور مزے دار روائتی کھانے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ قریب چار سال پہلے میں چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا ، ایک دن اُس نے مجھے فون کیا کہ کسی دن برنس روڈ چلتے ہیں ، ہمارے درمیان وقت اور تاریخ طے ہو گئی ، اسلام الدین بھائی باقاعدہ ایک بزرگ سے بعیت ہیں اور خود بھی سر درد پر دم اور یرقان پر فی سبیل اللہ تعویذ دیتے ہیں ، ہم لوگ میرے بھائی کے ساتھ صدر پہنچے وہ ہمیں وہاں اُتار کر خود کسی کام سے چلا گیا ، ولی کو صدر مین کچھ کام تھا وہ نبٹا کر ہم لوگوں نے برنس روڈ جانے کا ارادہ کیا ، ولی کہنے لگا کہ پیدل چلتے ہیں ، بھوک مزید چمکے گی ، ہم لوگ صدر سے برنس روڈ کی طرف پیدل ہی چل پڑے جیسے ہی ہم لوگ برنس روڈ پہنچے اسلام بھائی کی ایک جوتی ٹوٹ گئی ، قریب ہی سڑک کنارے ایک پرانے درخت تلے ایک بزرگ بیٹھے جوتے مرمت کر رہے تھے ، اسلام بھائی نے اُنہیں اپنی جوتی مرمت کرنے کے لیے دی ، ہم تینوں اُن کے پاس ہی فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں عشق زیر بحث آ گیا ، اسلام بھائی نے عشق کی صوفیانہ تعریف بیان کی بات عشق مجازی سے ہوتی عشق حقیقی تک پہنچ گئی ۔ میں عشق حقیقی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سمجھ کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق رسول صلی اللہ کی مثالیں دینے لگا ، جوتی سیتے سیتے بزرگ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔
بیٹا جی ! عشق رسول نہ کہو ، حب رسول کہو ۔ اور حضرت بلال کو عاشق رسول نہ کہو ، بلکہ محب رسول کہو ۔
مجھ سے پہلے ہی اسلام بھائی نے پوچھا ۔ کیوں بابا جی ۔ محبت کی انتہا عشق ہے اور حضرت بلال کو رسول اللہ سے محبت عشق تک پہنچی ہوئی تھی ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا میری بات کا برا نہ ماننا مگر میرے دو ایک سوالوں کا جواب دو گے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ کیوں نہیں بابا جی آپ پوچھیں ۔
بابا جی نے کہا ۔ بیٹا ! تم اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ہو ۔
اسلام بھائی نے جواب دیا ۔ بہت زیادہ ! بلکہ دپنیا میں سب سے زیادہ ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! کیا تمہاری اپنی ماں سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ بے شک بابا جی ، مجھے اپنی ماں سے بے انتہا محبت ہے ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! تو کیا تم اپنے ماں کے عاشق ہو ؟
اسلام بھائی تو کیا ہم تینوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا جو لفظ تم اپنی ماں کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے وہ تم کیسے میرے پیارے آقآ صلاۃ السلام کے لیے استعمال کرتے ہو ، عشق کبھی بھی اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، محبت ہمیشہ اچھے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ، مگر محبت کی اُس انتہا کے لیے بھی ہم لوگ عشق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ، بیٹے اپنی ماں اور ماؤں کے اپنے بیٹوں کی محبت لازوال ہے مگر ہم اُسے محبت ہی کہتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کی انتہا کے لیے بھی مناسب لفظ " حب رسول " ہی ہے ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
میرا ایک دوست ولی محمد پاکستان ائیر فورس میں سینئیر ٹیکنیشن ہے ، میں جب بھی چھٹی جاتا ہوں ، وہ اور ہمارا ایک مشترکہ اسلام الدین بھائی دوست مجھے برنس روڈ لے جاتے ہیں ، برنس روڈ کو اپ لوگ کراچی کی پہلی فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں جہاں اچھے اچھے اور مزے دار روائتی کھانے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ قریب چار سال پہلے میں چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا ، ایک دن اُس نے مجھے فون کیا کہ کسی دن برنس روڈ چلتے ہیں ، ہمارے درمیان وقت اور تاریخ طے ہو گئی ، اسلام الدین بھائی باقاعدہ ایک بزرگ سے بعیت ہیں اور خود بھی سر درد پر دم اور یرقان پر فی سبیل اللہ تعویذ دیتے ہیں ، ہم لوگ میرے بھائی کے ساتھ صدر پہنچے وہ ہمیں وہاں اُتار کر خود کسی کام سے چلا گیا ، ولی کو صدر مین کچھ کام تھا وہ نبٹا کر ہم لوگوں نے برنس روڈ جانے کا ارادہ کیا ، ولی کہنے لگا کہ پیدل چلتے ہیں ، بھوک مزید چمکے گی ، ہم لوگ صدر سے برنس روڈ کی طرف پیدل ہی چل پڑے جیسے ہی ہم لوگ برنس روڈ پہنچے اسلام بھائی کی ایک جوتی ٹوٹ گئی ، قریب ہی سڑک کنارے ایک پرانے درخت تلے ایک بزرگ بیٹھے جوتے مرمت کر رہے تھے ، اسلام بھائی نے اُنہیں اپنی جوتی مرمت کرنے کے لیے دی ، ہم تینوں اُن کے پاس ہی فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں عشق زیر بحث آ گیا ، اسلام بھائی نے عشق کی صوفیانہ تعریف بیان کی بات عشق مجازی سے ہوتی عشق حقیقی تک پہنچ گئی ۔ میں عشق حقیقی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سمجھ کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق رسول صلی اللہ کی مثالیں دینے لگا ، جوتی سیتے سیتے بزرگ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔
بیٹا جی ! عشق رسول نہ کہو ، حب رسول کہو ۔ اور حضرت بلال کو عاشق رسول نہ کہو ، بلکہ محب رسول کہو ۔
مجھ سے پہلے ہی اسلام بھائی نے پوچھا ۔ کیوں بابا جی ۔ محبت کی انتہا عشق ہے اور حضرت بلال کو رسول اللہ سے محبت عشق تک پہنچی ہوئی تھی ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا میری بات کا برا نہ ماننا مگر میرے دو ایک سوالوں کا جواب دو گے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ کیوں نہیں بابا جی آپ پوچھیں ۔
بابا جی نے کہا ۔ بیٹا ! تم اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ہو ۔
اسلام بھائی نے جواب دیا ۔ بہت زیادہ ! بلکہ دپنیا میں سب سے زیادہ ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! کیا تمہاری اپنی ماں سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ بے شک بابا جی ، مجھے اپنی ماں سے بے انتہا محبت ہے ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! تو کیا تم اپنے ماں کے عاشق ہو ؟
اسلام بھائی تو کیا ہم تینوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا جو لفظ تم اپنی ماں کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے وہ تم کیسے میرے پیارے آقآ صلاۃ السلام کے لیے استعمال کرتے ہو ، عشق کبھی بھی اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، محبت ہمیشہ اچھے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ، مگر محبت کی اُس انتہا کے لیے بھی ہم لوگ عشق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ، بیٹے اپنی ماں اور ماؤں کے اپنے بیٹوں کی محبت لازوال ہے مگر ہم اُسے محبت ہی کہتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کی انتہا کے لیے بھی مناسب لفظ " حب رسول " ہی ہے ۔
ہر محب اپنے علم و فہم کے مطابق ہر اچھی سے اچھی چیز کو اپنے محبوب سے منسوب کرتا ہے اور عامیانہ چیزوں سے دور بھاگتا ہے۔ معشوق اور محبوب اسی طرح عاشق اور محب ہم معنی گردانے جاتے ہیں مذکور واقعہ کے مطابق اگر حُب کی اصطلاح کو ہی افضل تسلیم کر لیا جائے تو پھر ماں کے لیے محبوبہ کا لفظ بھی معیوب معلوم ہوتا ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اپ عشق کا ع، ش اور ق پڑھیں، جہاں تک یاد پڑتا ہے علیم الحق حقی کے لکھے ہوئے ناول ہیں تینوں۔۔۔۔۔!
 

ماہی احمد

لائبریرین
اگر جو ہر بات سے پردہ اُٹھ جائے تو باقی کیا رہ جائے پھر؟
میرا نہیں خیال کہ اس متعلق "الفاظ" سکت رکھتے ہیں، صرف احساس ہی ہے جو بیان نہیں ہو سکتا۔
 
Top