عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

میرے محترم بھائی ۔۔
کہاں عشق مجازی اور کہاں عشق حقیقی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور کہاں انبیاء کرام ۔۔۔ ؟
وہ جو منتخب کردہ ہستیاں ہیں انہیں " روح الامین " کے واسطے سے اللہ اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے ۔
انہیں مجاز و حقیقی میں فرق واضح فرما دیتا ہے ۔ اسی سبب اللہ کے نبی و رسول لغویات دنیا میں نہیں الجھتے ۔ وہ اپنے نفس پر اللہ کی برہان کو نگران پاتے ہیں ۔
کبھی کبھی ہماری دلیل ہمیں اس مقام پر لے آتی ہے جہاں آگے کنواں پیچھے کھائی کی مثال حقیقت بن جاتی ہے ۔
آپ نے عقل کامل کی دلیل میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی سامنے لائے ۔۔ بلاشک و شبہ اس حقیقت سے اتفاق ہے ۔
لیکن کیا آپ کوئی ایسی دلیل بھی رکھتے ہیں جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق مجازی کو ثابت کر سکے ۔۔۔ ۔۔؟
آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو محبوب کبریا ہیں ۔ عاشق ہمیشہ معشوق کی اور محب ہمیشہ محبوب کی مدح و تعریف کرتا ہے ۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح کی اس سے بڑھ کر دلیل کیا ہوگی کہ " اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی ذات پاک پر درود پاک پڑھتے ہیں "
آپ کے ذکر کو خود رب تعالی نے بلند فرما دیا ۔۔۔ ۔۔


عشق مجازی کیا ہوتا ہے؟ میرے خیال میں انسان کے اللہ تعالیٰ سے پیار ومحبت کی انتہا کو عشقِ حقیقی کہا جاتا ہے۔ جو انبیاء کی تعلیمات کا بڑا اور لازمی حصہ ہے۔ اور جسے عشقِ مجازی کہا جارہا ہے وہ ہستی ءِ باری تعالیٰ کے علاوہ دیگر سے پیار اور محبت کی انتہا ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کا اپنی امت سے پیار ِ کامل عشقِ مجازی تھا؟ یا عشقِ حقیقی؟
اور حکمت (دلیل) کے آگے اور پیچھے صرف علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے کنواں یا کھائی نہیں۔ میرے پاس بہت کچھ کہنے کو ہے۔ مختصراً ہر عشق اگر وہ عشق ہے تو وہ سفر بہ سمتِ عشقِ حقیقی ہی ہے۔ جو دلیل "اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی ذات پاک پر درود پاک پڑھتے ہیں " آپ نے پیش کی ہے اس سے توکوئی ابھی انکار کرنے کی جراءت نہیں کر سکتا ۔ یہ دلیل تو میرے مؤقف کو 100 فی صد سپورٹ کرتی ہے۔ ہر عاشق معشوق بھی ہوتا ہے یا کم از معشوق ہونے کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔ اگر میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا عاشق ہوں تو مجھے یقین ہے کہ جیسے آپ ﷺ میرے معشوق ہیں میں بھی آپ ﷺ کا معشوق ہوں بلکہ امت کا ہر ایک فرد ہے کہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو اس کے پیار میں آپ ﷺ نے دعائیں کیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا عشقِ رسول کامل نہ ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی پاک ﷺ کا اپنی امت کے تئیں عشق کامل نہ ہو۔
 

ابن رضا

لائبریرین
یعنی عشق کامیاب ہوا اور شادی ہو گئی تو پھر اللہ ہی بہتری کرے اور عشق کو قائم و دائم رکھے :)

ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟

کامیابی سے مراد یہاں حصول ہے۔ اگر مقصود حاصل ہو جائے تو عمومی طور پر اسے کامیاب کہا جاتا ہے ورنہ ناکام۔ یہ مجاز کی معراج ہے۔ تاہم حقیقت مجاز کے برعکس ہے کہ یہ بِلا تقاضا ہے ۔ جب ، جو، جیسا، سب محبوب کی خوشی سے منسوب ہوتا ہے۔ محب کامقصد ِ اول و آخر یہی ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشی حاصل ہو۔

غیر متفق
عشق تو بذات خود ایک منزل ہے اس سے آگے تو اور کوئی منزل کوئی مقصد رہ ہی نہیں جاتا،عشق مجازی اور حقیقی میں یہ کیسی عجب تفریق کر ڈالی آپ نے، میں پهر کہوں گی عشق تو عشق ہے چاہے مجازی ہو یا حقیقی، اسمیں مقصد کہاں سے آگیا بهلا؟؟؟
عشقِ مجازی کی سمت یہ عمومی رائے یا رجحان کی بابت گزشتہ گفتگو کے سیاق و سباق کے موافق یہ ایک خیال عرض کیا تھا۔ تاہم جس عشق کی بات آپ کر رہی ہیں اس میں تو مجاز اور حقیقت کی بھی کوئی تقسیم نہیں۔ وہ تو ایک آگہی کا نام ہے کہ جس کو شعور مل گیا وہ معراج پا گیا۔
 
آخری تدوین:
میرے ذاتی غور و فکر اور کچھ ذاتی تجربے کا حاصل مندرجہ ذیل ہے۔
اگر ہم عربی مقولہ "عشق آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے (یعنی بھسم کر دیتی ہے) " کو ہی عشق سمجھ لیں تو ہمارے لئے آسان ہو جائے گا یہ سمجھنا کہ عشق مجازی ، عشق حقیقی کا راستہ کیسے بنتا ہے۔

جب کوئی انسان عشق میں مبتلا ہوجائے تو اسکا مقصود صرف معشوق ہوتا ہے۔ اور معشوق کے علاوہ ساری خواہشات اسکے اندر سے آہستہ ختم ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ نا روزگار کی فکر، نا کھانے پینے کا ہوش نا اپنے فرائض کا احساس اور نا اپنے حقوق کا احساس۔ یعنی معشوق کو پانے کی شدید خواہش انسان کو ہر چیز سے بے راغب کر دیتی ہے اور غافل کر دیتی ہے۔
انسان کی صحت بھی گرنے لگتی ہے۔ عاشق سوکھ کر کانٹا ہوجائے ، اس کی رنگت پیلی ہوجائے تو یہ ایک معمول کی بات ہے۔

اب ذرا اس پر غور کیا جائے کہ روحانی ترقی کیسے ہوتی ہے؟
روحانی ترقی کے لئے نفسانی خواہشات کو دبانا اور ترک کرنا پڑتا ہے۔ کھانے کی خواہش کم سے کم کی جائے۔ نا کسی کی غیبت، نا چغلی نا فالتو بات، نا بے حیائی کے کام الغرض ساری نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کی جائے۔

اب ذرا عاشق اور روحانی ترقی کے خواہش مند کا تقابل کریں تو صرف معشوق کا ہی فرق رہ جاتا ہے!
جب ایک عاشق صادق عشق میں کافی عرصے تک مبتلا رہے اور آہستہ آہستہ تمام نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لے تو اسکی روح بہت طاقت ور ہوجائے گی اور قرب الہی کا مزا چکھنے لگے گی۔ اور ایک وقت آئے گا جب عاشق صادق قرب الہی کی لذت معشوق مجازی کے شوق سے بہت زیادہ پانے لگے گا تو معشوق مجازی اسکا مقصود نہیں رہے گا اور عشق حقیقی اسکی منزل پا لے گا۔
 
ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟

میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں ، ( عشق کے اگر وہ معنی لیے بھی جائیں جو کہ عام طور پر مستعمل ہیں ، میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں جیسا کہ پہلے لکھ بھی چکا ہوں کہ عشق کے مقابلے میں محبت کو زیادہ با منعی لفظ سمجھتا ہوں ، عاشق کی جگہ محب اور معشوق کی جگہ محبوب زیادہ بہتر جانتا ہوں )
محبت ( عشق ) تو محبت ( عشق ) ہے ، اس میں کامیابی یا ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی ، بلکہ یہ جذبہ تو ان تمام تر کیفیات سے بالا تر ہے ، یقینا محبت کوئی کھیل نہیں ، بلکہ " ای چیز دیگرے است "
 

ماہی احمد

لائبریرین
عشقِ مجازی کی سمت یہ عمومی رائے یا رجحان کی بابت گزشتہ گفتگو کے سیاق و سباق کے موافق یہ ایک خیال عرض کیا تھا۔ تاہم جس عشق کی بات آپ کر رہی ہیں اس میں تو مجاز اور حقیقت کی بھی کوئی تقسیم نہیں۔ وہ تو ایک آگہی کا نام ہے کہ جس کو شعور مل گیا وہ معراج پا گیا۔
سوال نمبر 1: عشق کیا ہے تعریف لیکھیں؟ عشق کی کتنی اقسام ہیں، مثالوں سے واضع کریں اور تمام اقسام پر تفصیلی نوٹ لیکھیں؟
5نمبر​
:confused::confused::confused::confused:
 
فوئد الفوادمیں حضورنظام الدین اؤلیاء قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں یعنی میں مفہوم بیان کررہا ہوں کہ عشق دراصل عشقا سے مشتق ہے اور یہ ایک ایسی بوٹی ہے جو کہ کسی سرسبز درخت پر کسی پرندے کے پاؤںً سے لگ کر آتی ہے تو یہ بوٹی اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے بوٹی تو ہری بھری ہوتی جاتی ہے لیکن درخت روز بروز مضمحل ہوتا جاتا ہے۔
میرے خیال میں یہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اور یہ کیفیت کم از کم ہفتے کی ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال تک محیط ہوتی ہے
بقول مظفر وارثی
کوئی ملتا ہے تو اب اپنا پتہ پوچھتا ہوں
میں تری کھوج میں تجھ سے بھی پرے جا نکلا
گو تھوڑا سا موضوع سے ہٹ کر ہے لیکن عشق مجازی کی بہترین نمائندگی کرتا ہے بقول پروین شاکر
گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی
 
انتہائی دکھ سے عرض کرتا ہوں مجھے اس بات سے قطعاً اختلاف ہے
مجھے اپنی ماں کا عاشق کہلانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ماں میری نظر میں دنیا میں محبت کی اکائی ہے لفظ "اکائی" میں بنیاد کے معنوں میں استعمال کرتا ہوں۔ مجھے چھینک آتی ہے میں اللہ کے بدلے "امی" کہتا ہوں، ماں سے ہر کوئی پیار کرتا ہے جانور بھی۔ دنیا میں انسانی رشتوں میں ماں کا رشتہ سب سے پہلا اور بنیادی رشتہ ہے یہ رشتہ مجھے محبت سکھاتا ہے۔ میں دنیا کے ہر انسان سے پیار کرتا ہوں ہر تخلیقِ خداوندی سے عشق کرتا ہوں۔ اور سب سے زیادہ حضرت محمد ﷺ سے کیوں کہ مجھے میرے خدا کی پہچان اُن ہی کی وجہ سے ۔ یہ ہماری اپنی کمزوریاں ہیں ، پنجابی زبان میں "یار" لفظ کو برا سمجھا جاتا ہے ، ماں یا بہن کے ساتھ استعمال نہیں کرتے برا سمجھتے ہیں ، لفظ برا نہیں ہے۔ یارِ غار ، عشقِ رسول کا لفظ برا نہیں ہے اگر ہم اس لفظ کو غلط معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن ڈر لگتا ہے۔۔۔ ۔

السلام علیکم
چوہدری صاحب ! دُکھ اور پریشانی کی کیا بات ہے ، ہر آدمی کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے ، آپ مجھ سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں ، اور میں آپ کے اختلاف رائے کا احترام کرتا ہوں ، اختلاف رائے کوئی بری شے نہیں بلکہ میرے خیال میں اس سے ہر آدمی کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی ہے ، ہر زبان اور ہر بولی کے اپنے اپنے معنی ہوتے ہیں جو کہ اکثر اوقات علاقائی تمدن اور ثقافت کے گہرے اثر کے سبب تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، ہم لوگ فارسی اور اردو میں لفظ ذلیل استعمال کرتے ہیں ، جو کہ بعد میں پنجابی سندھی اور دیگر زبانوں اور بولیوں میں بھی مستعمل ہوا اور ان تمام زبانوں اور بولیوں میں لفظ " ذلیل " کے معنی " کمینہ " لیا جاتا ہے ۔ مگر یہی لفظ جب عربی زبان میں لیا جائے گا تو اس کے معنی ہونگے " کمزور ، کم ہمت "
پنجاب اور عرب کی ثقافتوں اور تمدن میں بڑا فرق ہے ، آپ دونوں جگہوں پر مستعمل ایک ہی لفظ کے ایک ہی معنی نہیں لے سکتے ، علم القرآن و علم الحدیث یا پرانے عربی ادب کے علماء سے پوچھ سکتے ہیں ، آپ کو یہ لفظ عشق کہیں نہیں ملے گا ، آپ کو ہر جگہ " حُب " کا لفظ ملے گا ، عربوں میں پہلے پہلے یہ لفظ ایران کی فتح کے بعد مستعمل ہوا ، ایرانی چونکہ بہت متمدن سمجھے جاتے تھے ، بلکہ زمانہ قدیم میں فلسفہ کے تین ہی مراکز تھے ، ہندوستان ، یونان ، اور ایران ، سو ایرانی فلاسفہ اور علم الکلام کے ماہرین نے عرب معاشرے اور ادب پراپنا اثر چھوڑا ، یہی سبب ہے کہ بعد کے ادب میں یہ لفظ استعمال ہوتا رہا اور پھر ایرانی اور عربی ادب کے زیر اثر ہم لوگ بھی اس لفظ کو استعمال کرنے لگے ، خیر میں اس لفظ کے استعمال کو برا نہین جانتا مگر میں سمجھتا ہون کہ جب آپ کو ایک اچھی " شے " کے مقابلے میں " زیادہ بہتر شے " مل جائے تو زیادہ بہتر شے کو ہی اپنا لینا چاہیے ۔
آصف احمد بھٹی
 

ابن رضا

لائبریرین
سوال نمبر 1: عشق کیا ہے تعریف لیکھیں؟ عشق کی کتنی اقسام ہیں، مثالوں سے واضع کریں اور تمام اقسام پر تفصیلی نوٹ لیکھیں؟
5نمبر​
:confused::confused::confused::confused:
میری رائے میں
نمبر 1: حبِ یار کی والہانہ انتہا
نمبر 2: مجازی اور حقیقی
نمبر 3: (مجاز و حقیقت دونوں کے تقاضے ایک ہیں مگر منزلت و افضلیت فرق ہے جیسے کہ (ادنیٰ سی مثال) ایک شہر کا کفیل اور ایک ملک کا کفیل، کام ایک سا مگر منزلت و افضلیت مختلف ہے)
نمبر 4: وہ اوپر کئی جگہ سب نے نوٹ لکھ رکھیں ہیں کم و بیش یکساں ہیں
نمبر 5 : :cautious::cautious::cautious::cautious:
 

ماہی احمد

لائبریرین
میری رائے میں
نمبر 1: حبِ یار کی والہانہ انتہا
نمبر 2: مجازی اور حقیقی
نمبر 3: (مجاز و حقیقت دونوں کے تقاضے ایک ہیں مگر منزلت و افضلیت فرق ہے جیسے کہ (ادنیٰ سی مثال) ایک شہر کا کفیل اور ایک ملک کا کفیل، کام ایک سا مگر منزلت و افضلیت مختلف ہے)
نمبر 4: وہ اوپر کئی جگہ سب نے نوٹ لکھ رکھیں ہیں کم و بیش یکساں ہیں
نمبر 5 : :cautious::cautious::cautious::cautious:
0 نمبر
آپ نے ہر پوائنٹ میں ایک ہی بات الفاظ تبدیل کر کے دوبارہ لکھی ہوئی ہے۔
پس ثابت ہوا میں ٹھیک کہہ رہی تھی
عشق بس صرف عشق ہے۔ تالیاں :applause::applause::applause:
 
جی ہاں ! محبت صرف محبت ہے ۔ ۔ ۔
ہر جذبے کے درجے ہوتے ہیں جیسے کسی سے کم محبت اور کسی سے زیادہ محبت۔ اگر محبت میں بہت زیادہ شدت ہو تو وہ عشق بن جاتا ہے۔ محبت اور عشق کی خصوصیات میں فرق ہوتا ہے۔
اسکی مثال گندھک کے تیزاب سے دی جاسکتی ہے۔ کم کنسنٹریشن والے تیزاب کی کیمیائی خصوصیات اور ہیں اور زیادہ کی اور۔
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
1385425_10153321355945182_1385278503_n.jpg
 

محمد امین

لائبریرین
میں وقت کی قلت کے باعث سارے تبصرے پڑھ نہیں سکا بس کچھ عرض کروں گا۔ ہمارے یہاں کے ادب اور معاشرے میں عشقِ مجازی کو نجانے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ عشقِ مجازی "چھانڑے بازی" ہی ہے اور کچھ نہیں۔ تو یہ سراسر بے باکی و بے ادبی ہی ہے۔ عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کا زینہ کہنا اول درجے کی بدمعاشی سمجھتا ہوں۔۔ اتنی سخت بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں اس "چھانڑے بازی" کی مذمت کرنی چاہیے نہ کہ اسے ادب کا حصہ بنا کر امر کردیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے۔۔۔۔
 
Top