عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

ابن رضا

لائبریرین
ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟
کامیابی سے مراد یہاں حصول ہے۔ اگر مقصود حاصل ہو جائے تو عمومی طور پر اسے کامیاب کہا جاتا ہے ورنہ ناکام۔ یہ مجاز کی معراج ہے۔ تاہم حقیقت مجاز کے برعکس ہے کہ یہ بِلا تقاضا ہے ۔ جب ، جو، جیسا، سب محبوب کی خوشی سے منسوب ہوتا ہے۔ محب کامقصد ِ اول و آخر یہی ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشی حاصل ہو۔
 
ایک اللہ والے کی بات یاد آگئی،
جب عشقِ مجازی سر پہ سوار تھا تو اس اللہ والے سے میں نے کہا کہ دعا کر دیجیے کہ جس کو چاہتا ہوں وہ مجھے مل جائے۔
اس نیک انسان نے کہا کہ اگر نہیں ملی تو کیا کرے گا؟
میں نے کہا کہ خودکشی کا حوصلہ نہیں ہے تو شاید جنگلوں میں نکل جاؤں یا کسی دربار پر بیٹھ جاؤں اور اللہ اللہ کروں گا کیونکہ پھر اس دنیا سے لینا دینا نہیں رہ جائے گا کچھ۔
وہ بولا کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم نے دعا کر کے وہ تجھے دلا دی تو ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم نے عشقِ حقیقی پہ مائل ہونے والا بندہ اس سے پھیر دیا۔
میں لاجواب ہو کر دعا کروائے بغیر ہی اٹھ آیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

ترجمہ
جو بہت زیادہ عبادت کرتے ہیں ان میں پری رخوں کے جمال کےنظارے کی تاب نہیں ہوتی اور اسی لئے وہ وہ ویران جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں کہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں
 

ابن رضا

لائبریرین
ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟
عشق کو سمندر کہیں اگر تو ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں سے پانی لیتا ہے۔

ایک مثال

ایک بادشاہ فرطِ نشاط میں اعلان کرتا ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں مجھ سے جس کو جو چاہیے مانگو ، سب ملےگا ۔ وزرا ، اور دیگرتمام درباری زرو جاہ کی آرزو کرتے ہیں جب کہ ایک کنیز خاموشی سے سب دیکھتی رہتی ہے تو اس سے پوچھا جاتا کہ تم نے کچھ طلب نہیں کیا تم بھی جس چیز پر ہاتھ رکھو گی وہ تمھاری ہو جائے گی۔ تو وہ آگے بڑھ کر بادشاہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔ تو ثابت ہوا کے ہر ایک کی اپنی ایک بساط ہے کچھ حاصل کرنے کی
 
آخری تدوین:
میرا ایک دوست ولی محمد پاکستان ائیر فورس میں سینئیر ٹیکنیشن ہے ، میں جب بھی چھٹی جاتا ہوں ، وہ اور ہمارا ایک مشترکہ اسلام الدین بھائی دوست مجھے برنس روڈ لے جاتے ہیں ، برنس روڈ کو اپ لوگ کراچی کی پہلی فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں جہاں اچھے اچھے اور مزے دار روائتی کھانے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ قریب چار سال پہلے میں چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا ، ایک دن اُس نے مجھے فون کیا کہ کسی دن برنس روڈ چلتے ہیں ، ہمارے درمیان وقت اور تاریخ طے ہو گئی ، اسلام الدین بھائی باقاعدہ ایک بزرگ سے بعیت ہیں اور خود بھی سر درد پر دم اور یرقان پر فی سبیل اللہ تعویذ دیتے ہیں ، ہم لوگ میرے بھائی کے ساتھ صدر پہنچے وہ ہمیں وہاں اُتار کر خود کسی کام سے چلا گیا ، ولی کو صدر مین کچھ کام تھا وہ نبٹا کر ہم لوگوں نے برنس روڈ جانے کا ارادہ کیا ، ولی کہنے لگا کہ پیدل چلتے ہیں ، بھوک مزید چمکے گی ، ہم لوگ صدر سے برنس روڈ کی طرف پیدل ہی چل پڑے جیسے ہی ہم لوگ برنس روڈ پہنچے اسلام بھائی کی ایک جوتی ٹوٹ گئی ، قریب ہی سڑک کنارے ایک پرانے درخت تلے ایک بزرگ بیٹھے جوتے مرمت کر رہے تھے ، اسلام بھائی نے اُنہیں اپنی جوتی مرمت کرنے کے لیے دی ، ہم تینوں اُن کے پاس ہی فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں عشق زیر بحث آ گیا ، اسلام بھائی نے عشق کی صوفیانہ تعریف بیان کی بات عشق مجازی سے ہوتی عشق حقیقی تک پہنچ گئی ۔ میں عشق حقیقی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سمجھ کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق رسول صلی اللہ کی مثالیں دینے لگا ، جوتی سیتے سیتے بزرگ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔
بیٹا جی ! عشق رسول نہ کہو ، حب رسول کہو ۔ اور حضرت بلال کو عاشق رسول نہ کہو ، بلکہ محب رسول کہو ۔
مجھ سے پہلے ہی اسلام بھائی نے پوچھا ۔ کیوں بابا جی ۔ محبت کی انتہا عشق ہے اور حضرت بلال کو رسول اللہ سے محبت عشق تک پہنچی ہوئی تھی ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا میری بات کا برا نہ ماننا مگر میرے دو ایک سوالوں کا جواب دو گے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ کیوں نہیں بابا جی آپ پوچھیں ۔
بابا جی نے کہا ۔ بیٹا ! تم اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ہو ۔
اسلام بھائی نے جواب دیا ۔ بہت زیادہ ! بلکہ دپنیا میں سب سے زیادہ ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! کیا تمہاری اپنی ماں سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ بے شک بابا جی ، مجھے اپنی ماں سے بے انتہا محبت ہے ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! تو کیا تم اپنے ماں کے عاشق ہو ؟
اسلام بھائی تو کیا ہم تینوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا جو لفظ تم اپنی ماں کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے وہ تم کیسے میرے پیارے آقآ صلاۃ السلام کے لیے استعمال کرتے ہو ، عشق کبھی بھی اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، محبت ہمیشہ اچھے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ، مگر محبت کی اُس انتہا کے لیے بھی ہم لوگ عشق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ، بیٹے اپنی ماں اور ماؤں کے اپنے بیٹوں کی محبت لازوال ہے مگر ہم اُسے محبت ہی کہتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کی انتہا کے لیے بھی مناسب لفظ " حب رسول " ہی ہے ۔


انتہائی دکھ سے عرض کرتا ہوں مجھے اس بات سے قطعاً اختلاف ہے
مجھے اپنی ماں کا عاشق کہلانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ماں میری نظر میں دنیا میں محبت کی اکائی ہے لفظ "اکائی" میں بنیاد کے معنوں میں استعمال کرتا ہوں۔ مجھے چھینک آتی ہے میں اللہ کے بدلے "امی" کہتا ہوں، ماں سے ہر کوئی پیار کرتا ہے جانور بھی۔ دنیا میں انسانی رشتوں میں ماں کا رشتہ سب سے پہلا اور بنیادی رشتہ ہے یہ رشتہ مجھے محبت سکھاتا ہے۔ میں دنیا کے ہر انسان سے پیار کرتا ہوں ہر تخلیقِ خداوندی سے عشق کرتا ہوں۔ اور سب سے زیادہ حضرت محمد ﷺ سے کیوں کہ مجھے میرے خدا کی پہچان اُن ہی کی وجہ سے ۔ یہ ہماری اپنی کمزوریاں ہیں ، پنجابی زبان میں "یار" لفظ کو برا سمجھا جاتا ہے ، ماں یا بہن کے ساتھ استعمال نہیں کرتے برا سمجھتے ہیں ، لفظ برا نہیں ہے۔ یارِ غار ، عشقِ رسول کا لفظ برا نہیں ہے اگر ہم اس لفظ کو غلط معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن ڈر لگتا ہے۔۔۔۔
 
کبی کبھی عشق حقیقی کے لئے عشق مجازی کا کامیاب ہونا بھی ضروری ہے۔
جناب تجربہ اور تاریخ تو یہ ہی کہتے ہیں کہ عشق مجازی میں ناکامی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جاتی ہے مگر اس منزل تک کوئی کوئی ہی پہنچتا ہے کچھ مجذوب بن جاتے ہیں کچھ قلندر
مجذوب اور قلندر میں کیا فرق ہے؟
مجذوب
جنوں کی شرط اول ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو گریباں چاک کرے اسے دیوانہ نہیں کہتے
قلندر
میرا ضبط جنوں ہے جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے مرے لئے چاک گریباں ہونا
 

قیصرانی

لائبریرین
ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟
آپ کا اندازِ فکر میری طرح ہے بھتیجی۔ جیتی رہیئے :)
 
جناب تجربہ اور تاریخ تو یہ ہی کہتے ہیں کہ عشق مجازی میں ناکامی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جاتی ہے مگر اس منزل تک کوئی کوئی ہی پہنچتا ہے کچھ مجذوب بن جاتے ہیں کچھ قلندر
مجذوب اور قلندر میں کیا فرق ہے؟
مجذوب
جنوں کی شرط اول ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو گریباں چاک کرے اسے دیوانہ نہیں کہتے
قلندر
میرا ضبط جنوں ہے جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے مرے لئے چاک گریباں ہونا

مجذوبی اور قلندری عشق نہیں ہے عشق بہت بلند چیز ہے عاشقی عقلمندی ہے ۔ پاگلوں کا عشق کیا واسطہ۔ محاورے کی بات اور حقیقت میں فرق ہے
 

نایاب

لائبریرین
مجذوبی اور قلندری عشق نہیں ہے عشق بہت بلند چیز ہے عاشقی عقلمندی ہے ۔ پاگلوں کا عشق کیا واسطہ۔ محاورے کی بات اور حقیقت میں فرق ہے
مجذوبیت ، قلندری ۔ دیوانگی ۔ دیوانہ ۔ پاگل سب جدا جدا ہیں ۔ کسی کو عطا ہے تو کوئی کسب کرتے اس مقام تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔
وہ مجذوبیت و قلندری جو کہ عقل و شعور کے عشق میں مبتلا ہونے پر ابھرتی ہے ۔ وہی تو حقیقت تک پہنچا بے نیازی کے درجہ خاص پر پہنچا دیتی ہے ۔
اور دیکھنے والی نگاہ اسے مجذوب قلندر کے لقب سے پکارنے لگتی ہے ۔
عشق میں مجذوبیت اور مزاج قلندری نہ ہو تو عشق عشق رہتا ہی نہیں ، مفاد پرستی کا کھیل بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
عاشق کی عاشقی جب حد سے سوا ہوتی ہے تو جذب میں بدل جاتی ہے ۔ میں و انا قلندری کی دھول میں فنا ہوجاتے ہیں ۔
یہ جذب و مزاج قلندری محبوب سے ماسوا کو فنا کر دیتا ہے ۔ عاشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں ہر شئے میں اسے صرف اپنے محبوب کا جلوہ دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مجذوبیت ، قلندری ۔ دیوانگی ۔ دیوانہ ۔ پاگل سب جدا جدا ہیں ۔ کسی کو عطا ہے تو کوئی کسب کرتے اس مقام تک پہنچتا ہے ۔۔۔ ۔
وہ مجذوبیت و قلندری جو کہ عقل و شعور کے عشق میں مبتلا ہونے پر ابھرتی ہے ۔ وہی تو حقیقت تک پہنچا بے نیازی کے درجہ خاص پر پہنچا دیتی ہے ۔
اور دیکھنے والی نگاہ اسے مجذوب قلندر کے لقب سے پکارنے لگتی ہے ۔
عشق میں مجذوبیت اور مزاج قلندری نہ ہو تو عشق عشق رہتا ہی نہیں ، مفاد پرستی کا کھیل بن جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔
عاشق کی عاشقی جب حد سے سوا ہوتی ہے تو جذب میں بدل جاتی ہے ۔ میں و انا قلندری کی دھول میں فنا ہوجاتے ہیں ۔
یہ جذب و مزاج قلندری محبوب سے ماسوا کو فنا کر دیتا ہے ۔ عاشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں ہر شئے میں اسے صرف اپنے محبوب کا جلوہ دکھتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔


حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بڑا کوئی عاشق نہیں ہو سکتا۔ آپﷺ سے بڑھ کر عقل کسی میں نہیں ہوسکتی۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
آخری تدوین:
تھوڑا سا اختلاف ہے اس دعوے سے کہ آپ ﷺ حبیب و محبوب و معشوق ہیں اللہ کریم کے بھی اور مومنین کے بھی


اس میں کوئی اختلاف نہیں یہ ہمارا ایمان ہے۔ میں تو آپﷺ کی بے انتہا خوبیوں میں سے صرف اس خوبی کا ذکر کر رہا ہو جو موضوعِ بحث ہے
 
یہ عشق کیا ہے؟ کہیں وہی تو نہیں جس نے غالب کو نکما کیا تھا اور ہمیں نکما تر؟

گو کہ سننے کو سنتے ہیں کہ:

کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں ''بہت باکمال '' تھے ہم بھی
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ عشق کیا ہے؟ کہیں وہی تو نہیں جس نے غالب کو نکما کیا تھا اور ہمیں نکما تر؟

گو کہ سننے کو سنتے ہیں کہ:

کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں ''بہت باکمال '' تھے ہم بھی
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال سنائیں کیا
 

ماہی احمد

لائبریرین
مجذوبیت ، قلندری ۔ دیوانگی ۔ دیوانہ ۔ پاگل سب جدا جدا ہیں ۔ کسی کو عطا ہے تو کوئی کسب کرتے اس مقام تک پہنچتا ہے ۔۔۔ ۔
وہ مجذوبیت و قلندری جو کہ عقل و شعور کے عشق میں مبتلا ہونے پر ابھرتی ہے ۔ وہی تو حقیقت تک پہنچا بے نیازی کے درجہ خاص پر پہنچا دیتی ہے ۔
اور دیکھنے والی نگاہ اسے مجذوب قلندر کے لقب سے پکارنے لگتی ہے ۔
عشق میں مجذوبیت اور مزاج قلندری نہ ہو تو عشق عشق رہتا ہی نہیں ، مفاد پرستی کا کھیل بن جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔
عاشق کی عاشقی جب حد سے سوا ہوتی ہے تو جذب میں بدل جاتی ہے ۔ میں و انا قلندری کی دھول میں فنا ہوجاتے ہیں ۔
یہ جذب و مزاج قلندری محبوب سے ماسوا کو فنا کر دیتا ہے ۔ عاشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں ہر شئے میں اسے صرف اپنے محبوب کا جلوہ دکھتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ناقص رائے تو یہ ہے کہ عشق کوئی ایک رنگ نہیں ہر رنگ ہے، جیسے سفید رنگ اور کالا رنگ، سفید سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے میں سب جذب ہو جاتے ہیں، عشق سفید ہے ، عشق کالا ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
کامیابی سے مراد یہاں حصول ہے۔ اگر مقصود حاصل ہو جائے تو عمومی طور پر اسے کامیاب کہا جاتا ہے ورنہ ناکام۔ یہ مجاز کی معراج ہے۔ تاہم حقیقت مجاز کے برعکس ہے کہ یہ بِلا تقاضا ہے ۔ جب ، جو، جیسا، سب محبوب کی خوشی سے منسوب ہوتا ہے۔ محب کامقصد ِ اول و آخر یہی ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشی حاصل ہو۔
غیر متفق
عشق تو بذات خود ایک منزل ہے اس سے آگے تو اور کوئی منزل کوئی مقصد رہ ہی نہیں جاتا،عشق مجازی اور حقیقی میں یہ کیسی عجب تفریق کر ڈالی آپ نے، میں پهر کہوں گی عشق تو عشق ہے چاہے مجازی ہو یا حقیقی، اسمیں مقصد کہاں سے آگیا بهلا؟؟؟
 

نایاب

لائبریرین
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بڑا کوئی عاشق نہیں ہو سکتا۔ آپﷺ سے بڑھ کر عقل کسی میں نہیں ہوسکتی۔۔۔
میرے محترم بھائی ۔۔
کہاں عشق مجازی اور کہاں عشق حقیقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کہاں انبیاء کرام ۔۔۔ ؟
وہ جو منتخب کردہ ہستیاں ہیں انہیں " روح الامین " کے واسطے سے اللہ اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے ۔
انہیں مجاز و حقیقی میں فرق واضح فرما دیتا ہے ۔ اسی سبب اللہ کے نبی و رسول لغویات دنیا میں نہیں الجھتے ۔ وہ اپنے نفس پر اللہ کی برہان کو نگران پاتے ہیں ۔
کبھی کبھی ہماری دلیل ہمیں اس مقام پر لے آتی ہے جہاں آگے کنواں پیچھے کھائی کی مثال حقیقت بن جاتی ہے ۔
آپ نے عقل کامل کی دلیل میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی سامنے لائے ۔۔ بلاشک و شبہ اس حقیقت سے اتفاق ہے ۔
لیکن کیا آپ کوئی ایسی دلیل بھی رکھتے ہیں جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق مجازی کو ثابت کر سکے ۔۔۔۔۔؟
آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو محبوب کبریا ہیں ۔ عاشق ہمیشہ معشوق کی اور محب ہمیشہ محبوب کی مدح و تعریف کرتا ہے ۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح کی اس سے بڑھ کر دلیل کیا ہوگی کہ " اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی ذات پاک پر درود پاک پڑھتے ہیں "
آپ کے ذکر کو خود رب تعالی نے بلند فرما دیا ۔۔۔۔۔
 
Top