عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

میں وقت کی قلت کے باعث سارے تبصرے پڑھ نہیں سکا بس کچھ عرض کروں گا۔ ہمارے یہاں کے ادب اور معاشرے میں عشقِ مجازی کو نجانے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ عشقِ مجازی "چھانڑے بازی" ہی ہے اور کچھ نہیں۔ تو یہ سراسر بے باکی و بے ادبی ہی ہے۔ عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کا زینہ کہنا اول درجے کی بدمعاشی سمجھتا ہوں۔۔ اتنی سخت بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں اس "چھانڑے بازی" کی مذمت کرنی چاہیے نہ کہ اسے ادب کا حصہ بنا کر امر کردیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے۔۔۔ ۔
لوگوں نے بیہودگی اور بے حیائی کا نام عشق رکھ لیا جس میں میڈیا اور فلموں کا بھی بہت دخل ہے۔ حالانکہ اس بیہودگی اور بے حیائی کو محبت بھی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ہن یہاں اصل عشق پر بات کر رہے ہیں۔ آپ پورے مراسلے پڑھ لیں تو میری بھی خلاف توقع یہاں احباب نے بہت علمی اور خوبصورت باتیں بھی کی ہیں۔
 
السلام علیکم
چوہدری صاحب ! دُکھ اور پریشانی کی کیا بات ہے ، ہر آدمی کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے ، آپ مجھ سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں ، اور میں آپ کے اختلاف رائے کا احترام کرتا ہوں ، اختلاف رائے کوئی بری شے نہیں بلکہ میرے خیال میں اس سے ہر آدمی کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی ہے ، ہر زبان اور ہر بولی کے اپنے اپنے معنی ہوتے ہیں جو کہ اکثر اوقات علاقائی تمدن اور ثقافت کے گہرے اثر کے سبب تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، ہم لوگ فارسی اور اردو میں لفظ ذلیل استعمال کرتے ہیں ، جو کہ بعد میں پنجابی سندھی اور دیگر زبانوں اور بولیوں میں بھی مستعمل ہوا اور ان تمام زبانوں اور بولیوں میں لفظ " ذلیل " کے معنی " کمینہ " لیا جاتا ہے ۔ مگر یہی لفظ جب عربی زبان میں لیا جائے گا تو اس کے معنی ہونگے " کمزور ، کم ہمت "
پنجاب اور عرب کی ثقافتوں اور تمدن میں بڑا فرق ہے ، آپ دونوں جگہوں پر مستعمل ایک ہی لفظ کے ایک ہی معنی نہیں لے سکتے ، علم القرآن و علم الحدیث یا پرانے عربی ادب کے علماء سے پوچھ سکتے ہیں ، آپ کو یہ لفظ عشق کہیں نہیں ملے گا ، آپ کو ہر جگہ " حُب " کا لفظ ملے گا ، عربوں میں پہلے پہلے یہ لفظ ایران کی فتح کے بعد مستعمل ہوا ، ایرانی چونکہ بہت متمدن سمجھے جاتے تھے ، بلکہ زمانہ قدیم میں فلسفہ کے تین ہی مراکز تھے ، ہندوستان ، یونان ، اور ایران ، سو ایرانی فلاسفہ اور علم الکلام کے ماہرین نے عرب معاشرے اور ادب پراپنا اثر چھوڑا ، یہی سبب ہے کہ بعد کے ادب میں یہ لفظ استعمال ہوتا رہا اور پھر ایرانی اور عربی ادب کے زیر اثر ہم لوگ بھی اس لفظ کو استعمال کرنے لگے ، خیر میں اس لفظ کے استعمال کو برا نہین جانتا مگر میں سمجھتا ہون کہ جب آپ کو ایک اچھی " شے " کے مقابلے میں " زیادہ بہتر شے " مل جائے تو زیادہ بہتر شے کو ہی اپنا لینا چاہیے ۔
آصف احمد بھٹی

نتیجہ کیا نکلا؟ عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا درست ہے یا نہیں؟
 
لَقَدْجَآئَ کُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌعَلَیہِ مَاعَنِتُّم حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ باِلْمُومِنیْنَ رَئُ وفٌ رَّحِیمٌ (سورۃ التوبہ ۔ آیت 128)
ترجمہ: (اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گذرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے۔ اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا (اور ) بہت کرم کرنے والا ہے۔
 
سیرت نبویؐ کا جامع نقشہ

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے آپ کی سنت کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا۔

اَلمَعْرِفَۃُ رَأسُ مَالِی معرفت میرا سرمایہ ہے

وَالعَقْلُ اَصْلُ دِیْنیِ اور عقل میرے دین کی بنیاد

وَالْحُبُّ اَسَاسِیْ اور محبت میری اساس

وَالشَّوقُ مَرْکَبِیْ اور شوق میری سواری
وَذِکرُاللہ اَنِیسِیْ اور ذکرالٰہی میرامونس

وَالثِّقَۃُ کَنْزِی اور وثوق میرا خزانہ

وَالْحُزْنُ رَ فِیْقیِ اور غم میرا رفیق

وَالعِلمُ سَلاَحِیْ اور علم میرا ہتھیار

وَالصَبْرُرِدَائیِ اور صبرمیری چادر

وَالرَّضَائُ غَنِیمَتِی اور رضا میری غنیمت

وَالعَجْزُفَخْرِی اور عاجزی میرا فخر
وَالزُّھْدُحِرْفَتِی اور زھدمیرا پیشہ

وَالیَقینُ قُوَّتِی اور یقین میری قوت

وَالصِّدْقُ شَفِیعِی اور صدق میرا شفیع

وَالطَّاعَۃُ حَسْبِی اور اطاعت الٰہی میرا حسب

وَالْجِھَادُ خُلْقِی اور جہاد میرا خلق

وَقُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلوٰۃِ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے

وَثَمْرَۃُ فُؤادِی فِی ذِکْرِہٖ اور ذکرالٰہی میرے دل کا پھل ہے

وَغَمِّیْ لِاَ جَلِ اُمَّتِی اور میرا غم میری امت کے لئے

وَشَوْقِی اِلٰی رَبِّی عَزَّوَجَلَّ اور میرا شوق اپنے رب عزوجل کی طرف ہے

(الشفاء لقاضی عیاض بن موسیٰ صفحہ 81)
 

محمد امین

لائبریرین
لوگوں نے بیہودگی اور بے حیائی کا نام عشق رکھ لیا جس میں میڈیا اور فلموں کا بھی بہت دخل ہے۔ حالانکہ اس بیہودگی اور بے حیائی کو محبت بھی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ہن یہاں اصل عشق پر بات کر رہے ہیں۔ آپ پورے مراسلے پڑھ لیں تو میری بھی خلاف توقع یہاں احباب نے بہت علمی اور خوبصورت باتیں بھی کی ہیں۔

دیکھیں ہم مجاز سے دنیا مراد لیتے ہیں اور حقیقت سے دین۔ دنیاوی عشق جو کہ زیرِ بحث ہے وہ غیر لڑکیوں ہی سے عشق ہے در اصل۔ اور میرا نہیں خیال ہے کسی غیر سے عشق دیکھے بغیر یا تعلق رکھے بغیر ہوسکتا ہے۔ اگر ہم اسلام کی رو سے بات کریں تو یہ سب غیر اخلاقی، غیر اسلامی، بیہودگی اور بے حیائی ہی ہے۔ عشقِ مجازی میں جتنی بھی احتیاط کی جائے شیطان کے وار سے انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جو خود کو عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کے سفر کے دوران شیطان کے وار سے محفوظ سمجھتا ہے وہ سراسر غلطی پر ہے کیوں کہ شیطان کے وار سے تو بعض اوقات عالمِ دین بھی نہیں بچ پاتے۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اگر آپ عشقِ حقیقی کی بات کریں تو یہ ساری باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں۔
 
دیکھیں ہم مجاز سے دنیا مراد لیتے ہیں اور حقیقت سے دین۔ دنیاوی عشق جو کہ زیرِ بحث ہے وہ غیر لڑکیوں ہی سے عشق ہے در اصل۔ اور میرا نہیں خیال ہے کسی غیر سے عشق دیکھے بغیر یا تعلق رکھے بغیر ہوسکتا ہے۔ اگر ہم اسلام کی رو سے بات کریں تو یہ سب غیر اخلاقی، غیر اسلامی، بیہودگی اور بے حیائی ہی ہے۔ عشقِ مجازی میں جتنی بھی احتیاط کی جائے شیطان کے وار سے انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جو خود کو عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کے سفر کے دوران شیطان کے وار سے محفوظ سمجھتا ہے وہ سراسر غلطی پر ہے کیوں کہ شیطان کے وار سے تو بعض اوقات عالمِ دین بھی نہیں بچ پاتے۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اگر آپ عشقِ حقیقی کی بات کریں تو یہ ساری باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں۔
میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں اور آپ کے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔
موجودہ معاشرتی حالات کو دیکھتے ہوئے!
میں کسی کو عشق مجازی کو ترغیب نہیں دے رہا۔
عشق ایسی چیز نہیں کہ انسان اپنی مرضی سے کرنا شروع کر دے، یہ خوبخود پیدا ہوتا ہے اور بر وقت شروع میں اس پر قابو نا پایا جائے تو بس سے باہر ہوجا تا ہے۔ !
میرے مندرجہ ذیل مراسلے پر غور فرمائیے،
میرے ذاتی غور و فکر اور کچھ ذاتی تجربے کا حاصل مندرجہ ذیل ہے۔
اگر ہم عربی مقولہ "عشق آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے (یعنی بھسم کر دیتی ہے) " کو ہی عشق سمجھ لیں تو ہمارے لئے آسان ہو جائے گا یہ سمجھنا کہ عشق مجازی ، عشق حقیقی کا راستہ کیسے بنتا ہے۔

جب کوئی انسان عشق میں مبتلا ہوجائے تو اسکا مقصود صرف معشوق ہوتا ہے۔ اور معشوق کے علاوہ ساری خواہشات اسکے اندر سے آہستہ ختم ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ نا روزگار کی فکر، نا کھانے پینے کا ہوش نا اپنے فرائض کا احساس اور نا اپنے حقوق کا احساس۔ یعنی معشوق کو پانے کی شدید خواہش انسان کو ہر چیز سے بے راغب کر دیتی ہے اور غافل کر دیتی ہے۔
انسان کی صحت بھی گرنے لگتی ہے۔ عاشق سوکھ کر کانٹا ہوجائے ، اس کی رنگت پیلی ہوجائے تو یہ ایک معمول کی بات ہے۔

اب ذرا اس پر غور کیا جائے کہ روحانی ترقی کیسے ہوتی ہے؟
روحانی ترقی کے لئے نفسانی خواہشات کو دبانا اور ترک کرنا پڑتا ہے۔ کھانے کی خواہش کم سے کم کی جائے۔ نا کسی کی غیبت، نا چغلی نا فالتو بات، نا بے حیائی کے کام الغرض ساری نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کی جائے۔

اب ذرا عاشق اور روحانی ترقی کے خواہش مند کا تقابل کریں تو صرف معشوق کا ہی فرق رہ جاتا ہے!
جب ایک عاشق صادق عشق میں کافی عرصے تک مبتلا رہے اور آہستہ آہستہ تمام نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لے تو اسکی روح بہت طاقت ور ہوجائے گی اور قرب الہی کا مزا چکھنے لگے گی۔ اور ایک وقت آئے گا جب عاشق صادق قرب الہی کی لذت معشوق مجازی کے شوق سے بہت زیادہ پانے لگے گا تو معشوق مجازی اسکا مقصود نہیں رہے گا اور عشق حقیقی اسکی منزل پا لے گا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کوئی بھی جذبہ بذات خود گناہ نہیں ہوتا لیکن اس جذبے کے نتیجے انسان کے کرنے والے غلط کام گناہ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کوکسی خلاف مزاج بات پر غصہ آیا، مگر آپ نے اس غصے کی وجہ سے کسی پر ظلم نہیں کیا تو آپ کو گناہ نہیں، لیکن اگر کسی بے گناہ پر ظلم کرتے ہوئے اسکو پیٹ دیا تو یہ گناہ ہے۔
ایسے ہی کسی کیلئے دل میں محبت یا عشق کا جذبہ پیدا ہوا، آپ نے دل میں دبا کر رکھا تو گناہ نہیں لیکن اسکے نتیجے میں کوئی بے حیائی کا کام کیا تو گناہ ہے۔
البتہ آجکل زیادہ تر محبت کے نام پر بے حیائی اور گناہ زیادہ ہو رہے ہیں ، یہ بات درست اور آپ کا کہنا بجا۔
اللہ آپ کو جزا دے اور خوش رکھے :)
 

عثمان

محفلین

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجازی ہو یا حقیقی، عشق بہرحال ایک جذبے کا نام ہے جو اپنی شدت اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف قسموں کا ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ مجازی عشق، عشق حقیقی کی طرف لے جاسکتا ہے تو یہ عشق کرنے والے پر منحصر ہے۔ ہاتھیوں کا بوجھ چیونٹیوں پر نہیں لاداجاتا۔ بعینہٍ خدااپنا عشق اسی کو عطا کرتا ہے جو اس کے قابل ہوتا ہے۔ چاہے وہ بندہ مجازی عشق میں ہی کیوں نہ مبتلا ہو، بالآخر اس کی منزل عشق حقیقی ہی ٹھہرتی ہے اور بد نصیب عشق حقیقی کہتے کہتے بھی عشق مجاز ہی میں مبتلا ہوتا ہے۔ یعنی وہ سمجھتا ہے کہ اسے خدا سے محبت ہے لیکن اصل میں خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اچھا کہیں۔ نفس سے محبت ہوجاتی ہے اور نفس ہی اسے لے ڈوبتا ہے۔ مجازی عشق درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ مثلا مسلمان ہونے کے ناطے میری یہ رائے ہے کہ درست عشق وہ ہے جو شریعت کی حد میں رہ کر کیا جائے، جبکہ حد میں رہنا عشق کو آتا ہی نہیں، عشق عموما حد سے ماورا ہوتا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض احمقانہ رائے ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اگر محبت کے لیے اد ب پہلا قرینہ ہے تو سوچئے کہ عشق میں تو تقدس بہ درجہ اولیٰ ضروری ہوا۔ محبت سے بھی زیادہ ادب عشق میں کرنا چاہئے۔ ادب ہو، اچھے برے کی تمیز ہو، بھلائی کا خیال ہو اور خوف خدا ملحوظ خاطر رکھا جائے تو عشق مجازی بھی عشق حقیقی بن جاتا ہے۔ یعنی بیوی سے محبت بھی اس لیے کی جائے کہ یہ خدا کا حکم ہے تو یہ عشق حقیقی کی ایک قسم ہوئی۔ آپ کتنے بڑے عاشق ہیں، یہ آپ کے خلوص اور نیت پر منحصر ہے۔ عاشق اور محبوب و محبوبہ کے الفاظ غلط یا معیوب نہیں ہیں۔ ان کے استعمال نے انہیں خراب کردیا ہے۔ ۔ نیت درست ہو، اور لفظوں کا استعمال ادب سے کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی ان کا مطلب غلط لے۔ ایک اور بات حلقہ احباب کی بھی ہے ۔ یعنی عامیانہ او ر بازاری ماحول میں آپ سادہ سی بات کہیں یا پیچیدہ، وہ اسے گھٹیا اور منفی سمت میں لے جائیں گے اور خدا کے ولی کو دنیاوی گانا سنایاجائے گا تو وہ اس کے الفاظ سے بھی حقیقی عشق کے مطالب مراد لے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محبت نفع پہنچانے کا نام ہے جبکہ آجکل اسے الٹ سمجھ لیا گیا ہے۔ مجھے کسی لڑکی سے محبت ہوجائے تو میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ جلد از جلد اسے حاصل کرلوں یا میری اس سے شادی ہوجائے ۔ نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ محبت ناکام ہو گئی۔ محبت کامیا ب یا ناکام نہیں ہو ا کرتی۔ ہاں، خواہش کی تکمیل ہوسکتی ہے یا پھر وہ تشنہ رہ جاتی ہے ۔ محبت ہوئی ہے تو ہمیشہ رہے گی تاوقتیکہ جسے پسند کیاجارہا ہے، وہ نہ بدل جائے یا آپ کی ترجیحات اور ارادے نہ تبدیل ہوجائیں۔ اب آپ یہ سوچیں کہ چونکہ آپ نے محبت کی ہے لہٰذا آپ فوق الانسان ہیں اور پورا معاشرہ آپ کا پابند ہے کہ جسے آپ نے چاہا ہے، آپ کو اس کے حصول میں یا تو مدد کرے یا پھر آپ کے راستے سے ہٹ جائے تو ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ ہر پسندیدہ شے ہر ایک کو نہیں مل سکتی۔ کوئی کوئی مل بھی جاتی ہے۔ اب مل گئی تو آپ سوچیں کہ ہاں اب محبت کی تکمیل ہو گئی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ محبت کی تکمیل بھی نہیں ہوتی۔ یہ ایک جذبہ ہے جو آپ کے دل میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک آپ زندہ رہیں یا پھر آپ کی شخصیت میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا ہوجائے۔ کچھ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر محبت کی جاتی ہے، یہ الگ بات کہ محبت کرنے والا اس سے بے خبر ہو ۔ اگر وہ خوبیاں نہ رہیں تب بھی محبت ختم ہوسکتی ہے۔ کم ظرف لوگوں کی محبت بھی انہی کی طرح کم ظرف ہوتی ہے۔ وہ ظاہری خوبیاں دیکھتے ہیں۔ مثلا کسی کو ظاہری حسن سے محبت ہوگئی تو وہ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جس بیوی سے محبت کرتے تھے، اب وہ بوڑھی اور بد صورت ہو گئی ہے تو اسے چھوڑ دیں گے؟ ایسے میں وفا کا سہارا لیاجاتا ہے۔ خدا سے محبت بھی ہوتی ہے، اس کا خوف بھی ہوتا ہے اور وفا تو چاہو یا نہ چاہو، اسی سے کرنی ہے۔ اس دنیا میں تو نہیں ہوسکتی، آخرت میں تو کرنی ہی پڑے گی۔ اب خدا نے یہ وعدہ کیا کہ اچھے کام کرو گے تو تمہیں جنت دوں گا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جنت نہ دیتا تو آپ نیک کام کرنے والے کبھی نہ بنتے؟ یہ بس مومنوں کے لیے ایک ترغیب ہے۔ ورنہ جنت نہ ملنے پر جو لوگ نیکی نہیں کرتے، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جسے گھاس نہ ملے تو وہ بوجھ نہیں اٹھاتا۔ محبت اس سے بہت اعلیٰ و ارفع چیز ہے۔ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کا واقعہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی لے کر کہیں دوڑی جارہی تھیں۔ کسی نے پوچھا تو کہا کہ جنت کو آگ لگا دوں گی اور جہنم کو بجھا دوں گی تاکہ لوگ جہنم کے ڈر سے برائی نہ چھوڑیں اور جنت کے لالچ میں نیکیاں نہ کریں۔ یہ بات خلافِ شریعت لگتی ہے کیونکہ جنت اور دوزخ کا ذکر قرآن میں ہے۔ کوئی اللہ کا جتنا بڑا ولی ہو، انہیں ختم نہیں کرسکتا۔ تاہم یہ عشق والوں کے سمجھنے کی چیز ہے۔
حرم اور دیر کے کتبے وہ دیکھیں جن کو فرصت ہے
یہاں حدِنظر تک صرف عنوانِ محبت ہے
پرستارِ محبت کی محبت ہی شریعت ہے
کسی کو یاد کرکے آہ بھرلینا عبادت ہے
مری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں
مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے
 

ساقی۔

محفلین
آپکو کوئی چیز اچھی لگی ،آپ اسے پسند کرنے لگے ۔ آپ نے کہا مجھے اس سے محبت ہے اس ضرور حاصل کرنا ہے ، اسے ضرور پانا ہے ۔بس اس کو اپنا بنانا ہے یا اس کا ہو جانا ہے ۔ گھر والے آپ کے خلاف ہو گئے ، دوست بھی طعنے دینے لگے، رشتے داروں نے برا بھلا کہا۔زمانے نے آپکی طرف انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں ۔ آپ کو عقل آ گئ ۔ ابے یہ میں کیا کر رہا ہوں ،پاگل ہو گیا ہوں کیا؟سب لوگ کہتے ہیں کہ میں ٹھیک نہیں کر رہا ۔ واقعی مجھے لگ رہا ہے کہ یہ چیز میرے لیے کچھ اتنی ضروری بھی نہیں ۔ میں کیوں گھر والوں کو ناراض کروں ، کیوں دوستوں کو چھوڑوں ، کیوں رشتے داروں کی نظروں میں حقارت اپنے لیے دیکھوں، کیوں زمانہ مجھے خراب کہے۔ ابے یہ چیز اتنی بھی ضروری نہیں کہ اس کے بغیر رہا ہی نہ جا سکے ۔ یہ نہیں تو اور سہی۔

پھر پتا چلتا ہے جسے ہم محبت ، عشق، جنون،چاہت پتا نہیں کیا کیا نام دیتے ہیں یہ تو صرف اٹریکشن تھی۔ایک چیز دل کو اچھی معلوم ہوئی ہم نے کہا ارے مجھے تو محبت ہو گئی ، عشق ہو گیا میں نہیں رہ سکتا اس کے بغیر ، مر جاوں گا اگر یہ چیز نہ ملی تو۔جونہی دیکھا سارا زمانہ مخالف ہو گیا ، رستے کانٹوں سے بھرنے لگے،زمانے نے ٹھوکروں پر رکھا تو اتر گیا عشق ، محبت کا جنون سر سے۔ یعنی جن کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جب بچھڑے ،موت تو کیا آنی تھی ایک دن بخار بھی نہ ہوا۔


مسئلہ یہ ہے کہ ہم اٹریکشن کو محبت اور عشق کا نام دے دیتے ہیں ،جونہی دل بھرا، زمانہ مخالف ہوا، یا نظریات و خیالات میں تبدیلی پیدا ہوئی تو عقل آئی ابے چھوڑ یار ، کیا کر رہا ہے، اور محبت و عشق دھرے کے دھرے رہ گئے ۔


محبت تو یہ ہے کہ خون میں بھی اگر ڈبو دے تو ڈوب جاو۔دو کوڑی کا مطالبہ کرے تو اپنا سر پیش کر دو۔زمانہ آگ میں ڈال دے تو سمجھو صحرا سے نکل کر نخلستان میں آ گئے ہو۔محبوب نفرت بھی کرے تو سمجھو کامیاب ہو تم پر توجہ ہے اس کی ۔تمہارے خیالات بدلیں ، نظریات بدلیں ، حالات بدلیں، زمانہ بدلے ،پر تم نہ بدلو۔ محبت ہے تو ہے بس۔کوئی مارتا ہے تو مر جاو، کاٹتا ہے تو کٹ جاو، جلاتا ہے تو جل جاو،کوئی چھوڑتا ہے تو کہو سو بسم اللہ ۔ پر محبوب کو نہ چھوڑو۔ کہو۔انا الحق۔
 
نتیجہ کیا نکلا؟ عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا درست ہے یا نہیں؟

السلام علیکم
جب کوئی لفظ میں لفظ کسی زبان یا بولی میں کثرت سے استعمال ہونے لگے اور عوام کی اکثریت اُسے قبول کر چکی ہو تو پھر اُس لفظ کو غلط قرار دینا مناسب نہیں ، البتہ اس لفظ کے متبادل مناسب اور بہتر لفظ کی تلاش اور اُسے عام کرنا ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے میں لفظ "عشق " کے استعمال کو غلط نہیں کہتا ، میرا کہنا صرف یہ ہے کہ لفظ کے معنی اور اپنے اسلاف کی روایات کو مدنظر رکھیں تو اس لفظ سے بہتر لفظ " محبت " موجود ہے اور جو ہمارے اسلاف کے استعمال میں رہا ہے ، اس لیے میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہوں ، میں اپنے لیے " عاشق رسول " صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے " محب رسول " صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ تعالی مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو یہ جذبہ عطا فرمائے ) کا لفظ استعمال کرنا پسند کرتا ہوں ۔
 
السلام علیکم
جب کوئی لفظ میں لفظ کسی زبان یا بولی میں کثرت سے استعمال ہونے لگے اور عوام کی اکثریت اُسے قبول کر چکی ہو تو پھر اُس لفظ کو غلط قرار دینا مناسب نہیں ، البتہ اس لفظ کے متبادل مناسب اور بہتر لفظ کی تلاش اور اُسے عام کرنا ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے میں لفظ "عشق " کے استعمال کو غلط نہیں کہتا ، میرا کہنا صرف یہ ہے کہ لفظ کے معنی اور اپنے اسلاف کی روایات کو مدنظر رکھیں تو اس لفظ سے بہتر لفظ " محبت " موجود ہے اور جو ہمارے اسلاف کے استعمال میں رہا ہے ، اس لیے میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہوں ، میں اپنے لیے " عاشق رسول " صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے " محب رسول " صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ تعالی مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو یہ جذبہ عطا فرمائے ) کا لفظ استعمال کرنا پسند کرتا ہوں ۔
آپ کا جذبہ اور احتیاط قابل قدر ہے، لیکن علماء کثرت سے اپنے لئے اور عام امتیوں کے لئے عاشق رسول اور عاشقان رسول کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تو اس لفظ کا استعمال بھی درست ہوا۔
 
آپ کا جذبہ اور احتیاط قابل قدر ہے، لیکن علماء کثرت سے اپنے لئے اور عام امتیوں کے لئے عاشق رسول اور عاشقان رسول کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تو اس لفظ کا استعمال بھی درست ہوا۔


میں اپنے پچھلے سے پچھلے تبصرے میں کہہ چکا ہوں کہ
السلام علیکم
ہر زبان اور ہر بولی کے اپنے اپنے معنی ہوتے ہیں جو کہ اکثر اوقات علاقائی تمدن اور ثقافت کے گہرے اثر کے سبب تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، ہم لوگ فارسی اور اردو میں لفظ ذلیل استعمال کرتے ہیں ، جو کہ بعد میں پنجابی سندھی اور دیگر زبانوں اور بولیوں میں بھی مستعمل ہوا اور ان تمام زبانوں اور بولیوں میں لفظ " ذلیل " کے معنی " کمینہ " لیا جاتا ہے ۔ مگر یہی لفظ جب عربی زبان میں لیا جائے گا تو اس کے معنی ہونگے " کمزور ، کم ہمت "
پنجاب اور عرب کی ثقافتوں اور تمدن میں بڑا فرق ہے ، آپ دونوں جگہوں پر مستعمل ایک ہی لفظ کے ایک ہی معنی نہیں لے سکتے ، علم القرآن و علم الحدیث یا پرانے عربی ادب کے علماء سے پوچھ سکتے ہیں ، آپ کو یہ لفظ عشق کہیں نہیں ملے گا ، آپ کو ہر جگہ " حُب " کا لفظ ملے گا ، عربوں میں پہلے پہلے یہ لفظ ایران کی فتح کے بعد مستعمل ہوا ، ایرانی چونکہ بہت متمدن سمجھے جاتے تھے ، بلکہ زمانہ قدیم میں فلسفہ کے تین ہی مراکز تھے ، ہندوستان ، یونان ، اور ایران ، سو ایرانی فلاسفہ اور علم الکلام کے ماہرین نے عرب معاشرے اور ادب پراپنا اثر چھوڑا ، یہی سبب ہے کہ بعد کے ادب میں یہ لفظ استعمال ہوتا رہا اور پھر ایرانی اور عربی ادب کے زیر اثر ہم لوگ بھی اس لفظ کو استعمال کرنے لگے ، خیر میں اس لفظ کے استعمال کو برا نہین جانتا مگر میں سمجھتا ہون کہ جب آپ کو ایک اچھی " شے " کے مقابلے میں " زیادہ بہتر شے " مل جائے تو زیادہ بہتر شے کو ہی اپنا لینا چاہیے ۔
آصف احمد بھٹی
اس لیے جب آپ عاشق رسول کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو میں اُسے غلط نہیں کہتا ۔
 

باباجی

محفلین
سب کی خدمت میں السلام و علیکم

یہ دھاگہ نظر سے گزرا تو رہ نہ سکا اور تمام تبصرہ جات پڑھ ڈالے ۔۔ بھئی لطف آگیا ہر کسی نے بہت خوبصورت باتیں کیں اور سوائے ایک کے میں سب سے متفق ہوں کیونکہ جس نے جیسا چاہا ویسا پایا عشق و محبت کو ۔۔۔ اس حوالے سے کئی اقوال اور کئی لطائف بھی ہیں ۔۔ کسی کو لگتا ہے کہ عشق دنیا سے کنارہ کشی کا نام ہے تو کوئ دنیا سے عشق کو سہی سمجھتا ہے ۔۔ کوئی کہتا ہے عشق میں وصل ہو نہیں سکتا تو کوئی جسمانی یا جنسی ملاپ کو عشق سمجھ لیتا ہے ۔۔ کوئی عشق میں آنکھ سرخ بال بڑھائے نمائش کرتا ہے تو کوئی دل میں درد کو چھپا کر اس سے لذت حاصل کرتا ہے ۔۔ جس طرح دنیا میں ابھی تک لوگ مختلف چیزوں کو دریافت کر رہے ہیں اسی طرح عشق ایک کثیر المعانی شے بھی ہے اور کبھی ایک نقطے میں سما جاتا ہے ۔۔ عاشق بدنام بھی ہوتا ہے عاشق کا نام بھی ہوجاتا ہے ۔۔ کبھی عاشق محبوب کو بدنام کردیتا ہے ، تو کبھی محبوب کو اوج کمال تک پہنچادیتا ہے ۔۔ زیادہ تر عاشق ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں مگر کچھ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔۔
عشق کا کوئی خاص رنگ نہیں یہ تو سب رنگ ہے بھائی ۔۔۔ اور عشق کا کمال یہ ہے کہ یہ کسی خاص کے لیئے مخصوص نہیں ، سب کے لیئے ہے اچھے کے لئے بھی ہے اور بہت برے کے لئے بھی ہے ۔ کوئی پابندی نہیں ۔
مجھ ایسے بدکار شرابی کبابی کاذب و بدنیتے کو بھی عشق ہوجاتا ہے بھئی ہم بھی عاشق کہلا جاتے ہیں کبھی تو ۔۔۔ کوئی زاہد کسی زہد شکن کا شکار ہوکر عاشق ہوجاتا ہے ۔۔۔ عشق لا محدود ہے لیکن سب عشاق نے اس کا کوئی پیمانہ بنا رکھا ہوتا ہے کہ یہ ہوگیا تو بس عشق کی معراج مل جائے گا ۔۔۔ ارے معراج ایک ہی بار ہوئی تھی جہاں حقیقی عاشق ہو محبوب کی ملاقات ہوئی ۔۔۔

لیکن ایک بات مجازی کے بغیر حقیقی کو سمجھا اور پہنچا نہیں جا سکتا ۔۔ ہمیں پیدا مجاز میں کیا گیا ہے حقیقت کی طرف جانے کو ۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جہاں تک بات ہے عشق حقیقی براستہ عشق مجازی کی تواس کے لیے سب سے پہلے تو مجاز کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا پھر حقیقت کی حقیقت کو اور پھر حقیقت عشق کو ۔
حقیقت و مجاز کی حقیقت :
اگر مجاز کی فلسفیانہ تعبیر پیش کی جائے تو مجاز کہتے ہی ایسے اعتبارکو ہیں کہ جو اپنے نفس میں وجود کہ اعتبار سے غیر حقیقی ہو اسی لیے ظاہریت اور مادیت پر مجاز کا اطلاق کیا جاتا ہے کہ جو چیز نظر آرہی ہوتی ہے اس کی اصل حقیقت اوجھل ہوتی ہے لہذا فقط اس کے ظاہری وجود پر مجاز کا اطلاق کردیا جاتا ہے اور حقیقت کہتے ہیں کسی بھی شئے کے " جوہراصل " کو جو کہ عناصر میں اسکی ترکیب کہ اعتبار سے اسکی اصل روح اور ماہیت کو ظاہر کرتا ہو یعنی ایسا نفس الامر جو واقعی میں موجود ہو اور فرض نہ کیا گیا ہو۔
یہ تو تھی حقیقت و مجاز کی حقیقت اب آتے ہیں حقیقت عشق کی طرف تو عرض ہے کہ عشق کہ کہتے ہیں انسانی وجود میں ودیعت کیئے گئے جذبہ محبت کی اس آخری حد کو کہ جہاں پر جاکر وہ جذبہ خود انسانی وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے یعنی محبت کی انتہائی حد یعنی عشق جو ہے وہ محبت کہ شعور کہ زیادہ گہرے زیادہ بامعنی اور زیادہ مستقل حیثیت کا نام ہے اور محبت کیا ہے ؟؟؟
محبت ایسے جذبہ کو کہتے ہیں جو کہ اپنی خلقت کہ اعتبار سے ایسی خو یا خصلت کا مرقع ہوتا ہے جوکہ حسن و خوبی ہی کی طرف منتج ہوتا ہو یعنی وجود محبت ودیعت کے اعتبار سے خود اپنے اندر شعوری اور لاشعوری ہر سطح پر فقط حسن و خوبی ہی کا محتاج ہوتا ہے ۔
اب رہ گئی بات عشق مجازی کی تو عرض ہے کہ فکری سطح پر انسان کا جو شعور محبت ہے وہ چونکہ خود انسان ہی کی طرح خلقی ہے لہذا یہ خلقی شعور (یعنی محبت) معنویت کہ اعتبار سے اپنی زیادہ برتر فنکشنگ میں یا اپنے بہترین اجزاء میں یا یوں کہہ لیں کہ اپنی استعداد کہ زیادہ بامعنٰی حصوں میں یہ چند خلقی مطالبات یا چند خلقی تصورات یا پھر چند فطری معیارات اپنے اندر رکھتا ہے لہذا وہ یہ سب کسی خارجی زریعہ سے نہیں سیکھتا کیونکہ وہ یہ سب دیکر پیدا کیا گیا ہے لہذا ثابت یہ ہوا کہ انسان کا جزبہ محبت جو کہ خلقی اعتبار سے ہی چند معیارات و مطالبات کا حامل ہوا کرتا ہے تو پھر مجاز جو کہ ایک فطری قرینہ ہے وہ اس جذبہ کی تکمیل میں کسی حد تک اثر انداز تو ہوسکتا ہے مگر لازم نہیں کہ وہ عشق حقیقت کی سیڑھی کے بطور استعمال کیا جائے یا پہچانا جائے ۔ ۔
دیکھیئے جذبہ نام ہے انسان کے اندر ودیعت کردہ ایسی قوت کا کہ جو انسان کے اندر ایسی ترغیب پیدا کرتی ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کسی بھی شئے کی طرف فطری طور پر کھنچا چلا جاتا ہے لہزا یہ کھچاؤ یا کشش انسان کے فطری و طبعی میلانات کا ہی نتیجہ ہوا کرتی ہے ۔
جہاں تک تعلق ہے جذبہ محبت کا تو یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہماری آجکل کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ جذبہ محبت کو فقط جنس (اصناف) کے تناظر میں دیکھنے کی عادی ہوگئی ہے لہذا محبت کے فقط اسی اعتبار سے اسکی شناسائی باقی رہ گئی ہے جبکہ محبت کے کئی اعتبارات ہیں اور ہر اعتبار اپنے اندر جدا جدا تقاضے بھی رکھتا ہے اس لیے ہمارے نزدیک محبت کو محض جنسی (اصنافی) تناظر میں نہیں تولا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی جذبہ محبت کو محض اسی اعتبار کہ حوالہ سے محصور کیا جاسکتا ہے ۔
اور اوپر سے مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں کے لیے محبت کا سب سے بڑا قرینہ ہی مجاز بن کر رہ گیا ہے۔ مجاز جو کہ اپنے اعتبار کی حیثیت سے یا پھر عناصر میں اپنی ترکیب کہ اعتبار سے فقط آثار پر انحصار کرتا ہے سو یہی وجہ ہے کہ آجکل کے دور میں محبت محض آثاری ہوکر رہ گئی ہے لہذا آج کے دور میں محبت کا سفر فقط انہی آثار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جو کہ قرینہ مجاز میں بطور عناصر ترکیبی کہ شامل ہیں ۔
کاپی پیسٹ ملفوظات آبیہ از افادات حجرت آبی ٹوکول مدظلہ العالی
 
Top