کاشفی

محفلین
غزل
(شفق ہاشمی)
ہم وہی، جادہ وہی، رہبر وہی، منزل وہی
ہر قدم پر امتحان شوق کا حاصل وہی

نو بہ نو کٹتی ہوئی، بڑھتی ہوئی فصلِ حیات
سر، سرِ مقتل وہی، اور بازوئے قاتل وہی

کاخِ پرویزی میں شیریں کا وہی روئے جمال
کوہکن تیشہ بکف، مدمقابل سل وہی

ان کا اندازِ نظر اور اپنا اندازِ وفا
حشر سامانی وہی، وارفتگیء دل وہی

جلوہ خورشید سے آویزشِ ہنگام شب
حق کی تابانی وہی اور ظلمتِ باطل وہی

ہیں خس و خاشاکِ ماضی رہ گئے پیچھے جو لوگ
ہم جسے بڑھ کر بنالیں اپنا مستقل وہی

جس پہ دل بے اختیار آجائے وہ عارض شفق
بخش دیں جس پر ثمرقند و بخارا تل وہی
 
Top