کاشفی

محفلین
غزل
(محسن نقوی)
وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے ، اعتبار کرنا ہے

یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسووں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہ گزار کرنا ہے

مثالِ شاخِ برہنہ ، خزاں کی رت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے

خدا خبر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
حق مغفرت کرے۔ ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے ان کا تعلق تھا۔ بہت نفیس شاعر تھے، فرقہ پرستی واریت کی بھینٹ چڑھ گئے :(
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
خدا خبر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے
-------
عامل شیرازی
خدا خیر این شوق بود که ضد محسن
که محبت زه دشمن جان خود کنیم ممکن
 
Top