غزل ۔۔۔ ہر نفس مضطرب گزرتی ہے ۔۔۔نوید صادق

نوید صادق

محفلین
نوید صادق


غزل

ہر نفس مضطرب گزرتی ہے
زندگی کس کے بین کرتی ہے

دھیرے دھیرے، نفس نفس، شب بھر
ایک آہٹ مجھے کترتی ہے

زندگی! دیکھ میں بھی زندہ ہوں
تیرے قبضے میں کتنی دھرتی ہے؟

ایک خوشبو کہ پرکشش بھی ہے
دشتِ بے خواب میں اترتی ہے

میں ہوں اپنی طلب میں گم تو وہاں
بے خودی غم پہ نام دھرتی ہے

دوستو! بھائیو! خداحافظ!
نبض امّید، اب ٹھہرتی ہے

کون جانے نوید صادق کے
دل پہ دن رات کیا گزرتی ہے


(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! خوبصورت غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔
حاصلِ غزل شعر ہے:
میں ہوں اپنی طلب میں گم تو وہاں
بے خودی غم پہ نام دھرتی ہے
 
زندگی! دیکھ میں بھی زندہ ہوں
تیرے قبضے میں کتنی دھرتی ہے؟


واہ بہت خوب جناب

لیکن، اتنی نا امیدی کیوں ؟؟؟!!!!

دوستو! بھائیو! خداحافظ!
نبض امّید، اب ٹھہرتی ہے

بہت خوب جناب، جزاک اللہ
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے نوید صاحب۔

دھیرے دھیرے، نفس نفس، شب بھر
ایک آہٹ مجھے کترتی ہے

میں ہوں اپنی طلب میں گم تو وہاں
بے خودی غم پہ نام دھرتی ہے

واہ واہ، لاجواب، کیا کہنے جناب۔
 

مغزل

محفلین
معافی چاہتا ہوں یہ نوید صادق کوئی او ر ہے ۔غزل نے متاثر نہیں کیا ۔ میں جس نوید صادق کو جانتا ہوں وہ ایسی اکہری غزل کا آدمی نہیں ہے ۔
( اختلاف بہر حال میرا حق ہے )
 

الف عین

لائبریرین
ہاں محمود، اس نوید صادق سے میں بھی واقف نہیں، ویسے غزل اچھی ہے، لیکن جتنی اچھی کی توقع نوید سے رہتی ہے، اس پر پوری نہیں اترتی۔ در اصل یہ غزل سہل ممتنع میں ہے نا، اس لئے ویسی ترکیبوں کا محل بھی نہیں ہے جن کے لئے بھائی نوید صادق ہم سب کو پسند ہیں۔
 
Top