کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

عیش بھی اندوہ فزا ہوگیا
ہائے طبیعت تجھے کیا ہوگیا

دشمنِ ارباب وفا ہوگیا
دوست بھلا ہوکے بُرا ہوگیا

یاد ہے کہنا وہ کسی وقت کا
ہوش میں آؤ تمہیں کیا ہوگیا

داغ وہ بہتر ہے جو مرہم بنا
درد وہ اچھا جو دوا ہوگیا

آپ سے اقرار کے سچے کہاں
وعدہ کیا اور وفا ہوگیا

یہ تو نہ تھی کوئی مکرنے کی بات
حرف خوشامد بھی گلا ہوگیا

سامنے تم میرے چُراتے ہو آنکھ
آئینہ کیا آج نیا ہوگیا

اے دلِ بیتاب خدا کی قسم
عشق میں جی تجھ سے بُرا ہوگیا

دم مرے سینے میں جو رُکتا ہے آج
کون خدا جانے خفا ہوگیا

حال مرا دیکھ کے کہتے ہیں وہ
کوئی حسین اس سے جدا ہوگیا

نالہ نے تاثیر نہ کی روزِ حشر
وہ بھی شب غم کی دعا ہوگیا

سب مجھے دیوانہ بنانے لگے
لو وہ تمہارا ہی کہا ہوگیا

داغ قیامت میں یہ مژدہ سُنے
جا تجھے فردوس عطا ہوگیا
 
Top