شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں
تُو مجھے بھول گیا ہو جیسے
(احسان دانش)
 

شمشاد

لائبریرین
عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کا ساتھ
مجھ پے احسان کیا ہو جیسے
(احسان دانش)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ زندگی
آج جو تمہارے
بدن کی چھوٹی بڑی نسوں میں
مچل رہی ہے
تمہارے پیروں سے چل رہی ہے
تمہاری آواز میں گلے سے نکل رہی ہے
تمہارے لفظوں میں ڈھل رہی ہے

یہ زندگی
جانے کتنی صدیوں سے
یوں ہی شکلیں بدل رہی ہے

بدلتی شکلوں
بدلتے جسموں میں
چلتے پھرتے یہ اک سہارا
جو اس گھڑی
نام ہے تمہارا
اسی سے ساری چہل پہل ہے
اسی سے روشن ہے ہر نظارہ

ستارے توڑو یا گھر بساؤ
قلم اٹھاؤ یا سر جھکاؤ
تمہاری آنکھوں کی روشنی تک
ہے کھیل سارا

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

(ندا فاضلی)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ حسنِ رازِ محبت چھپا رہا ہے کوئی
ہے اشک آنکھوں میں اور مسکرا رہا ہے کوئی

نظر نظر میں تجلی دکھا رہا ہے کوئی
نفس نفس پے مجھے یاد آ رہا ہے کوئی
(قدیر)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ حسن و عشق کی تصویر کے ہیں دو منظر
کہ رو رہا ہے کوئی مسکرا رہا ہے کوئی

‘قدیر‘ حشر میں پہنچے تو ہم نے کیا دیکھا
کسی کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہے کوئی
(قدیر)
 

تیشہ

محفلین
میرا فن، میری کاوش، مرا ریاض
اک نا تمام گیت کے مصرے ہیں جنکے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل ،
انجام جسکا طے نہ ہوا ہو ،اک ایسا کھیل!

مری متاع بس یہی جادو ہے عشق کا ۔۔۔
سیکھا ہے جسکو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھھ

لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نیہں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ !
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ !

کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اسکا بوجھھ
سینے سے اک پہاڑ سا ، ہٹتتا نیہں ہے یہ

لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اسقدر
تجھھ پر اگر چلاوں تو چلتا نیہں ہے یہ !!!!
 

تیلے شاہ

محفلین
جب تصور مرا چپکے سے تجھے چھو آئے
اپنی ہر سانس سے مجھ کو تری خوشبو آئے

مشغلہ اب ہے مرا چاند کو تکتے رہنا
رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے

جب کبھی گردشِ دوراں نے ستایا مجھ کو
مری جانب ترے پھیلے ہوئے بازو آئے

جب بھی سوچا کہ شبِ ہجر نہ ہوگی روشن
مجھ کو سجانے تری یاد کے جگنو آئے

کتنا حساس مری آس کا سناٹا ہے
کہ خموشی بھی جہاں باندھ کے گھنگرو آئے

مجھ سے ملنے کو سرِ شام کوئی سایا سا
تیرے آنگن سے چلے اور لبِ جو آئے

اس کے لہجے کا اثر تو ہے بڑی بات قتیل
وہ تو آنکھوں سی بھی کرتا ہوا جادو آئے
 

شمشاد

لائبریرین
جو دل کو دے گئی اک درد عمر بھر کے لیئے
تڑپ رہا ہوں ابھی تک میں اس نظر کے لیئے

علاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لیئے
بس اک نظر تیری کافی ہے عمر بھر کے لیئے
(منور بدایونی)
 
سُرمے کی دھار تیغ سا اپنی پھبا کے آنکھ
میرے قتل کو آتے ہیں کیا کیا سجاکے آنکھ
حد سے بڑھی ہوئی ہے اُن کی بے تکلفی
ہر شب کو بعد سوتے ہیں وہ چم چما کے آنکھ

استاد امام دین
 

تیشہ

محفلین
ترے نام کی تھی جو روشنی اسے خود ہی تونے بھجھا دیا
نہ جلاسکی جسے دھوپ بھی اَسے چاندنی نے جلادیا

میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا مجھے آپ اپنی خبر نیہں
وہ شخص تھا میرا رہنما اُسے راستوں میں گنوادیا

جسے تو نے سمجھا رقیب تھا وہی شخص تیرا نصیب تھا
ترے ہاتھھ کی وہ لکیر تھا اسے ہاتھھ سے ہی مٹادیا

مجھے عشق ہے کہ جنون ہے ابھی فیصلہ ہی نہ ہوسکا
مرا نام زینت ِدشت تھا مجھے آندھیوں نے مٹا دیا

یہ اداسیوں کا جمال ہے کہ ہمارا اوجِ ِکمال ہے
کبھی ذات سے چھپا لئیا کبھی شہر بھر کو بتا دیا

مری عمر کا ابھی گلستان تو کھلا ہوا ضرور پر
وہ پھول تھے تیری چاہ کے انھیں موسموں نے گرا دیا ،
 

شمشاد

لائبریرین
بس اک جھجھک ہے حالِ دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں

برس پڑی تھی جو رُخ سے نقاب اٹھانے میں
وہ چاندنی ہے ابھی تک میرے غریب خانے میں
(کیفی اعظمی)
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں عشق کی قسمت بدل سکتی ہے
جو وقت بیت گیا مجھ کو آزمانے میں

کہ کہہ کے ٹوٹ پڑا شاخِ گل سے آخری پھول
اب اور دیر ہے کتنی بہار آنے میں
(کیفی اعظمی)
 
بے وفا عاشق

ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا

دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا
اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا

یہ غزل دین اسی غزال کی ہے
جس میں ہم سے وفا زیادہ تھی

اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کے تجھے بھول جائیں ہم (احمدفراز)

کمال اس نے کیا اور میں نے حد کر دی
کہ خود بدل گیا اس کی نظر بدلنے تک (جمال احسانی)
 

شمشاد

لائبریرین
بس اک نگاہِ کرم ہے کافی اگر انہیں پس و پیش نہیں ہے
زہے تمنا کہ میری فطرت اسیرِ حرص و ہوس نہیں ہے

نظر سے صیاد دور ہو جا یہاں تیرا مجھ پہ بس نہیں ہے
چمن کو برباد کرنے والے یہ آشیاں ہے قفس نہیں ہے
(شکیل بدایونی)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ کر مجھے شرمسار نشے میں دل سے مجبور ہوں کہ جسکا
ہے یوں تو کون و مکاں پہ قابو مگر محبت پہ بس نہیں ہے

کہاں وہ اُمید آمد آمد کہاں یہ ایفائے عہدِ فردا
جب اعتبارِ نظر نہ تھا کچھ اب اعتبارِ نفس نہیں ہے
(شکیل بدایونی)
 

شمشاد

لائبریرین
گلوں ميں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھي آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے يارو صبا سے کچھ تو کہو
کہيں تو بہر خدا آج ذکر يار چلے

کبھي تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھي تو شب سرکا کل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ ،يہ دل غريب سہي
تمہارے نام پہ آئيں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزري سو گزري مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تري عاقبت سنوار چلے

حضور يار ہوئي دفتر جنوں کي طلب
گرہ ميں لے کر گريبان کا تار تار چلے
(فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
مجھ سے پہلي سي محبت مري محبوب نہ مانگ

ميں نہ سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حيات
تيرا غم ہےتو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تيري صورت سے ہے عالم ميں بہاروں کو ثبات
تيري آنکھوں کے سوا دنيا ميں رکھا کيا ہے

تو جو مل جائے تو تقدير نگوں ہو جائے
يوں نہ تھا ميں نے فقط چاہا تھا يوں ہو جائے

اور بھي دکھ ہيں زمانے ميں محبت کے سوا
راحتيں اور بھي ہيں وصل کي راحت کے سوا

ان گنت صديوں کی تاريخ بيہمانہ طلسم
ريشم و اطلس و کمخواب ميں بنوائے ہوئے

لوٹ جاتي ہے ادھر کو بھي نظر کيا کيجئے
اب بھي دلکش ہے ترا حسن مگر کيا کيجئے

مجھ سے پہلي سي محبت مري محبوب نہ مانگ
 

شمشاد

لائبریرین
دونوں جہاں تيري محبت ميں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئي شب غم گزار کے

ويراں ہے ميکدہ، خم و ساغر اداس ہيں
تم کيا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

اک فرصت گناہ ملی، وہ بھي چار دن
ديکھے ہيں ہم نے حوصلے پروردگار کے

دنيا نے تيري ياد سے بيگانہ کرديا
تجھ سے بھي دلفريب ہيں غم روزگار کے

بھولے سے مسکرا تو ديے تھے وہ آج فيض
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
 

شمشاد

لائبریرین
تيرا مکھڑا سلونا کيا کروں ميں
يہ مٹي کا کھلونا کيا کروں ميں

ميرے بالوں ميں چاندي آ گئي ھے
تيري زلفوں کا سونا کيا کروں ميں
(غالباً عطاء الحق قاسمي)
 

ثناءاللہ

محفلین
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

تم سے بے جاہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

قید میں ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں کچھ اک رنج گرانباری زنجیر بھی تھا

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی
گربگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا

دیکھ کر غیرکو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
نالہ کرتا تھا، ولے طالب تاثیر بھی تھا

پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جو انمیر بھی تھا

ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی
آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کو ہمارا دم تحریر بھی تھا

ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہی اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top