کاشفی

محفلین
غزل
(مصحفی)
خاموش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے
دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بہ شدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے
لاتا نہیں خاطر میں سُخن بیہودہ گو کا
اعجاز میسحا بھی ہے افسوں مرے آگے
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں مرے آگے
سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے
قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر
طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے
اُستاد ہوں میں مصحفی حکمت کے بھی فن میں
ہے کودک نودرس فلاطوں مرے آگے
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔ اسی زمین میں انشاءاللہ خان انشاء کی بھی ایک غزل ہے، وہ بھی اگر پوسٹ کر سکیں تو نوازش۔
 

کاشفی

محفلین
بہت شکریہ محمد وارث صاحب! خوش رہیں۔

پس منظر
ہندوستان کی تباہی کے زمانہ میں انشاء اللہ خان انشاء مُرشید آباد سے دلّی آئے۔ اس وقت شاہ عالم بادشاہ تھے۔ انہوں نے انشاء کو اپنے دربار میں رکھ لیا۔ یہاں یہ بہت ہنسی خوشی رہے۔ یہاں کےبڑے بڑے مشاعروں میں شریک ہوئے۔ اور اس زمانہ کے شاعروں سے خوب نوک جھوک رہی۔
مشاعرہ میں بادشاہ بھی اپنی غزل بھیجا کرتے تھے۔ لوگ ان کی غزل کا مذاق اُڑایا کرتے ہوں گے۔ انشاء نے جا کر حضور کی خدمت میں عرض کی۔کہ فلاں فلاں شخص حضور کی غزل پر مذاق اُڑاتے ہیں۔ بادشاہ کو بُرا معلوم ہوا۔ اور انہوں نے صرف اتنا کیا کہ اپنی غزل بھیجنا بند کر دی۔ لوگوں کو خبر لگ گئی۔ ان کو بہت رنج ہوا۔ چنانچہ اس کےبعد جب مشاعرہ ہوا تو ایک صاحب نے جن کا نام ولی اللہ محب تھا۔ یہ قطعہ پڑھا۔

مجلس میں چپکے چاہئے جھگڑا شعرا کا
ایسے ہی کسی صاحب توقیر کے آگے
یہ بھی کوئی دانش ہے کہ پہنچے یہ قضایا
اکبر تئیں بادشاہ جہانگیر کے آگے
ایک صاحب مرزا عظیم بیگ تھے انہوں نے اپنے حسب حال اپنے استاد کے شعر پر تضمیں کی تھی۔ وہ پڑھی۔
عظیم اب گو ہمیشہ سے ہے یہ شعر کہنا شعار اپنا
طرف ہر ایک سے یہ بحث کرنا نہیں ہے کچھ افتخار اپنا
کئی سکھن باز کھنڈگویوں میں ہو نہ ہو اعتبار اپنا
جنہوں کی نظروں میں ہم سبک ہیں دیا انہیں کو وقار اپنا
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
اب کیا تھا۔ دریا میں طوفان آگیا۔ سید انشاء اللہ خان انشاء فخریہ غزل کہہ کر لائے تھے۔ وہ پڑھی ۔ جس کا ہر شعر بم کے گولے کا کام کرتا تھا۔
غزل
(انشاء اللہ خان انشاء)
ایک طفل دبستاں ہے فلاطوں مرے آگے
کیا منہ ہے ارسطو جو کرے چوں مرے آگے
کیا مال بھلا قصر خریدوں مرے آگے
کانپے ہے پڑا گنبد گردوں مرے آگے
مرغاں اولی اجنحہ مانند کبوتر
کرتے ہیں سدا عجز سے غوں غوں مرے آگے
منہ دیکھو جو نقارچیء پیر فلک بھی
نقارہ بجا کر کہے دُوں دُوں مرے آگے
ہوں وہ جبروتی کہ گروہ حکما سب
چڑیوں کی طرح کرتے ہیں چوں چوں مرے آگے
بولے ہے یہی خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں
بادل سے چلے آتے ہیں مضموں مرے آگے
مجرے کو مرے خسرو پرویز ہو حاضر
شیریں بھی کہے آکے بُلا لوں مرے آگے
کیا آکے ڈرا دے مجھے زلف شب یلدا
ہے دیو سفید سحری جوں مرے آگے
وہ مار فلک کاہکشاں نام ہے جس کا
کیا دخل جو بل کھا کے کرے فُوں مرے آگے
ان کے پڑھ چکنے کے بعد حکیم میر قدرت اللہ خاں قاسم کے سامنے شمع آئی۔ انہوں نے اتنا کہا کہ سید صاحب ذرا اس الفیل ماالفیل کو (یعنی بے معنی باتیں) بھی سننا اور ایسا خیال کرکے کہیں ایسا نہ ہو۔ شریفوں میں بے لطفی بڑھ جائے ۔ اُٹھے ۔ اور ان دونوں کو گلے ملوا دیا اور یوں صلح ہوگئی۔
 

کاشفی

محفلین
محمد وارث صاحب، فرحت کیانی صاحبہ اور فرخ منظور صاحب۔ آپ سب کا بیحد شکریہ۔خوش رہیں۔
 
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں مرے آگے
کاشفی صاحب مصرعہ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟؟؟
میرے ناقص علم کے مطابق تو اگر ادھی میں ایک عدد واو کا اضافہ اس طرح ہوجائے تو مطلب واضح ہوجائے گا اودھی (یعنی سابقہ ریاست اَوَدھ جس کا دارالخلافہ لکھنو تھا)
 

کاشفی

محفلین
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں مرے آگے
کاشفی صاحب مصرعہ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟؟؟
میرے ناقص علم کے مطابق تو اگر ادھی میں ایک عدد واو کا اضافہ اس طرح ہوجائے تو مطلب واضح ہوجائے گا اودھی (یعنی سابقہ ریاست اَوَدھ جس کا دارالخلافہ لکھنو تھا)
دُرست۔۔
تھینکس۔۔
 
Top