تخلیق یا ارتقاء

La Alma

لائبریرین
ملاحظہ کیجیے۔
وَّ خَلَقۡنٰکُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ﴿۸﴾ سورة النبأ 7۔ آیات
اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ۔

ارتقا کے جھوٹ ہونے پر قرآنی آیات میں قطعیت کے مہر کے بعد بھی اگر آپ اس بات پر مُصر ہے کہ نہیں ارتقا ہی ہوا ہوگا تو میرے خیال میں آپ سے مزید بات کرنا بے سود ہے۔ کیوں کہ آپ قرآن کے قطعی نصوص کو اپنے مرضی کے مطابق لانا چاہتے ہیں اور یہ ممکن نہیں۔
حسنِ ظن سے کام لیجئے۔ یہاں بات ارتقاء کے امکانی پہلوؤں پر ہو رہی ہے۔ قرآن فہمی کا دعوٰی نہ آپ کر سکتے ہیں نہ میں اور نہ ہی کوئی اور ۔۔۔ اس لئے قطعیت کی مہر مت لگائیے۔ یہاں کسی کی بھی رائے حتمی نہیں۔
 

آصف اثر

معطل
جہاں تک ارتقاء کے سمجھنے، پڑھے جانے اور اس پر ریسرچ کے فوائد کا تعلق ہے تو یہ دو آرٹیکلز کسی حد تک سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ genetics کی فیلڈ میں genetic diseases کے علاج دریافت کرنے کے لئے اس کا کیا کردار ہے۔
The Use of Animal Models in Studying Genetic Disease | Learn Science at Scitable
2004 Release: Scientists Compare Rat Genome
اس کا کردار صرف جنیٹکس کی فیلڈ میں ہی ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ اس کا دائرہ کار بے انتہا وسیع ہو چکا ہے۔
اور مراسلہ # 34
اگرچہ اس کے جواب کا تعلق ”اسپیشئز“ کی تعریف سے ہے لیکن فرض کرتے ہیں:

میں نے مائیکروبائیولوجی، ٹیکسانومی، جینیٹکس، ایناٹومی اور ایکالوجی پڑھ بھی لیے اور تحقیق میں جتھ بھی گیا لیکن ارتقا کے مفروضے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تو کیا میں نے بائیولوجی نہیں سیکھی۔ کیا ارتقا کے بغیر یہ سب برانچز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟
اس طرح کی باتیں صرف اور صرف ارتقا کے مفروضے کی اہمیت دِلانا، ایک مفروضے کو زبردستی سائنسی تھیوری منوانا اور نفسیاتی حربہ ہے۔

کیا کوئی ملحد صرف اس بات سے خدا پر ایمان لے آتاہے کہ حیاتیات کی پیچیدہ دنیا، خدا کو مانے بغیر سمجھی ہی نہیں جاسکتی!
 

فرقان احمد

محفلین
اگر کوئی بندر اس موضوع پر ایک آدھ کتاب لکھ مارے تو شاید بہتوں کا بھلا ہو جائے۔ :)

امر واقعہ یہ ہے کہ انسان ہی کرہء ارض کی (یا پھر شاید اس کائنات میں بھی) ذہین ترین مخلوق ہے۔ ارتقاء تو زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے تاہم ایک نوع دوسری نوع میں بدل گئی؛ دل اس طرف مائل نہیں ہوتا۔ سائنس دانوں کا احترام اپنی جگہ کہ ہمیں ان سے اختلاف کی جرات نہیں؛ کم علمی آڑے آتی ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
آثار قدیمہ سے اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اور نہ ہی کسی اور سیارہ سے آئی مخلوق کا زمین کی آب و ہوا میں زندہ رہنا ممکن ہے۔
میری مراد مریخ، زھرا یا عطارد وغیرہ نہیں ۔ اب تو متوازی دنیاؤں کا تصور بھی موجود ہے۔ لہٰذا یہ بات بعید از قیاس نہیں۔

قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ ( سوره اعراف)
فرمایا یہاں سے (زمین پر ) اترو تم میں سے بعض ایک دوسرے کے دشمن ہونگے ، اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے
فرمایا تم اسی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے
 

آصف اثر

معطل
حسنِ ظن سے کام لیجئے۔ یہاں بات ارتقاء کے امکانی پہلوؤں پر ہو رہی ہے۔ قرآن فہمی کا دعوٰی نہ آپ کر سکتے ہیں نہ میں اور نہ ہی کوئی اور ۔۔۔ اس لئے قطعیت کی مہر مت لگائیے۔ یہاں کسی کی بھی رائے حتمی نہیں۔
بہت اچھا نکتہ اُٹھایا آپ نے۔ میرا ایک سادہ سا سوال ہے:
کیا آپ (معاذ اللہ) حضرت آدم علیہ السلام کو گریٹ ایپس کی اولاد میں سے سمجھتے ہیں؟
 

La Alma

لائبریرین
بہت اچھا نکتہ اُٹھایا آپ نے۔ میرا ایک سادہ سا سوال ہے:
کیا آپ (معاذ اللہ) حضرت آدم علیہ السلام کو گریٹ ایپس کی اولاد میں سے سمجھتے ہیں؟
میں ڈارون کی Evolutionary Theory سے بالکل متفق نہیں۔ لگتا ہے آپ نے میرے مراسلے غور سے نہیں پڑھے ورنہ یہ سوال نہ کرتے۔
 

آصف اثر

معطل
میرے خیال میں بعض دفعہ ”ارتقا“ کا لفظ صحیح مفہوم میں ادا نہیں کیا جاتا۔ ”ارتقا“ کا رائج لفظ جو ”مفروضۂ ارتقا“ کا لاحقہ ہے، تعریف کی رُو سے ”ایسا عمل جس کے ذریعے ایک نوع دوسرے نوع میں تبدیل ہوجائے ارتقا کہلاتاہے“۔
جب کہ انسان کے جسم میں ماں کے پیٹ کی زندگی سے لے کر، بچپن سے بڑھاپے تک جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، چاہے وہ گزرتے عمر سے متعلقہ ہوں یا بیماریوں کا سبب ہو، انہیں نمو، یا جسمانی ترقی کہاجاتاہے۔ انگریزی میں اسے Growth یا Development کہا جاتاہے۔ لہذا یہ فرق ملحوظ رہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
میں ڈارون کی Evolutionary Theory سے بالکل متفق نہیں۔ لگتا ہے آپ نے میرے مراسلے غور سے نہیں پڑھے ورنہ یہ سوال نہ کرتے۔
میں بھی اسی جواب کی توقع رکھ رہا تھا۔
عرض ہے کہ آدم علیہ السلام کو مٹی سے وجود کے مرحلے کے دوران سے روح پھونکنے تک جو کچھ ہوا یا جتنا عرصہ گزرا 1۔ نہ تو شریعت آدم علیہ السلام کی تخلیق کو اس طرح کے ارتقا سے جوڑنے کی دعوت دیتی ہے 2۔ اور نہ ہی ارتقا کے مفروضے کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ اسی بِنا پر مجھے کچھ تعجب ہورہا تھا کہ آپ اس کا ذکر کیوں کررہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
نکتہ نمبر ایک دوبارہ پڑھیے، امید ہے اپنا مافی الضمیر اب بہتر سمجھا پاؤں گا۔ تخلیق کے عمل کو جہاں تک قرآن اور حدیث میں ذکر کیا گیاہے،آپ کی بات اس حد تک بالکل درست ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں واضح الفاظ میں کیا گیا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ الحجر
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ طِيْنٍ (12) المؤمنون
اور اس طرح کی دیگر آیات۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ارتقاء تو زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے تاہم ایک نوع دوسری نوع میں بدل گئی؛ دل اس طرف مائل نہیں ہوتا۔
انواع کی ارتقائی تبدیلی پر یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ اکثر حیوانات جن سےہمیں روز تعلق واسطہ پڑتا ہے کو لیبارٹری میں تجربات کے لئے طویل عرصہ رکھنا ممکن نہیں۔ البتہ ماہرین حیاتیات نے کچھ انواع جن کی کل حیات چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی پر تجربات کر کے نوع کی تبدیلی ثابت کر دی ہے:
1200px-Drosophila_speciation_experiment.svg.png
 

سین خے

محفلین
اگرچہ اس کے جواب کا تعلق ”اسپیشئز“ کی تعریف سے ہے لیکن فرض کرتے ہیں:

میں نے مائیکروبائیولوجی، ٹیکسانومی، جینیٹکس، ایناٹومی اور ایکالوجی پڑھ بھی لیے اور تحقیق میں جتھ بھی گیا لیکن ارتقا کے مفروضے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تو کیا میں نے بائیولوجی نہیں سیکھی۔ کیا ارتقا کے بغیر یہ سب برانچز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟
اس طرح کی باتیں صرف اور صرف ارتقا کے مفروضے کی اہمیت دِلانا، ایک مفروضے کو زبردستی سائنسی تھیوری منوانا اور نفسیاتی حربہ ہے۔

کیا کوئی ملحد صرف اس بات سے خدا پر ایمان لے آتاہے کہ حیاتیات کی پیچیدہ دنیا، خدا کو مانے بغیر سمجھی ہی نہیں جاسکتی!

میں خود بائیولوجسٹ نہیں ہوں۔ میں اس معاملے میں معلومات کے لئے اپنے گھر اور سوشل سرکل میں موجود بائیولوجسٹس اور ڈاکٹرز پر انحصار کرتی ہوں۔ البتہ میں اتنا کہہ بتا سکتی ہوں کہ پوری پوری کتابیں اس مفروضے پر موجود ہیں۔ آپ میری بات سے متفق ہونے یا نہ ہونے یا یقین کرنے یا نہ یقین کرنےکا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

جہاں تک آپ کے آخری سوال کا تعلق ہے تو جس کو خدا کو ماننا ہوگا وہ مانے گا اور جس کو نہیں ماننا ہوگا وہ نہیں مانے گا۔ میرے نزدیک اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 

آصف اثر

معطل
انواع کی ارتقائی تبدیلی پر یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ اکثر حیوانات جن سےہمیں روز تعلق واسطہ پڑتا ہے کو لیبارٹری میں تجربات کے لئے طویل عرصہ رکھنا ممکن نہیں۔ البتہ ماہرین حیاتیات نے کچھ انواع جن کی کل حیات چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی پر تجربات کر کے نوع کی تبدیلی ثابت کر دی ہے:
فی الحال آپ صرف اتنا بتادیں کہ اس تجربےکے بعد ”اسپیشئز“ کی تعریف کیا ہوگی؟
 

آصف اثر

معطل
میں خود بائیولوجسٹ نہیں ہوں۔ میں اس معاملے میں معلومات کے لئے اپنے گھر اور سوشل سرکل میں موجود بائیولوجسٹس اور ڈاکٹرز پر انحصار کرتی ہوں۔
ہمارے ہاں موجود بائیولوجسٹ اور ڈاکٹر صرف اور صرف نصابی کتابوں اور مارکیٹ میں امپورٹڈ موجودات تک محدود ہیں۔
البتہ میں اتنا کہہ بتا سکتی ہوں کہ پوری پوری کتابیں اس مفروضے پر موجود ہیں۔
اس مفروضے کے زبردست رد میں بھی۔
جہاں تک آپ کے آخری سوال کا تعلق ہے تو جس کو خدا کو ماننا ہوگا وہ مانے گا اور جس کو نہیں ماننا ہوگا وہ نہیں مانے گا۔ میرے نزدیک اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کا زیادہ تعلق مراسلہ #34 سے ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
After these discussions, most students are willing to accept evolution as a mechanism for the emergence of all species except humans
ہٹ دھرمی اور ضد کی انتہا دیکھئے۔ ٹیچر کے سمجھانے پر طلبا یہاں تک مان گئے کہ تمام انواع ارتقا کا نتیجہ ہیں سوائے انسان کے۔ یعنی اپنے ایمان کو بچانے کی خاطر انسان کو انواع کی ڈومین سے ہی خارج کر دیا۔ سبحان اللہ
 

ہادیہ

محفلین
اففف اتنی علمی بحث۔۔
ویسے سارے بندے کے پتر ہی بن جاؤ۔۔ :p
سمجھ نہیں آتی اس موئی تھیوری پہ ہی اتنی بحث کیوں کرتے ہیں۔۔بھئی آپ پہلے کیا تھے۔۔ اس کا اگر نہیں ابھی تک ہوسکا کنفرم۔۔ تو اب یہ سوچ کے تسلی دے دو کہ آپ اب انسان ہیں ۔۔
 

ہادیہ

محفلین
اگر کوئی بندر اس موضوع پر ایک آدھ کتاب لکھ مارے تو شاید بہتوں کا بھلا ہو جائے۔
اوہو۔۔ فرقان بھائی اگر بندروں کو پتہ چل گیا کہ ان کی کیسی عزت افزائی کی جاتی۔۔ انہوں نے نظریہ ارتقا والے تمام افراد کو ہی اٹھا کر لے جانا۔۔ پھر پاس بٹھا کر کہیں گے بیٹا اب کرو تحقیق۔۔ :p
 
Top