مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک

جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے
ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے
اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم
گورے گالوں پہ آئے گلابی چمک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
چاندی کی گھنٹیاں جب بجانے لگی
گنگنائے تری پائلوں کی چھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

دیکھو بارش کی بوندوں میں ٹھندی ہوا
مہکے خوش رنگ پھول ہے معطر فضا
یہ سہانا سماں بھی ادھورا لگا
یاد آئے ترے بانکپن کی جھلک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
تو تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
 
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک

جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے
ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے
اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم
گورے گالوں پہ آئے گلابی چمک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
چاندی کی گھنٹیاں جب بجانے لگی
گنگنائے تری پائلوں کی چھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

دیکھو بارش کی بوندوں میں ٹھندی ہوا
مہکے خوش رنگ پھول ہے معطر فضا
یہ سہانا سماں بھی ادھورا لگا
یاد آئے ترے بانکپن کی جھلک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔

جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
تو تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جو آپ نے "پابندِ بحور شاعری" زمرے میں لڑی بنائی تھی اسی کا زمرہ تبدیل کرا لیتے، خیر اب آپ پہلی لڑی کے مراسلے کے نیچے دیکھیں رپورٹ کا آپشن ہے وہاں جا کر رپورٹ کر دیں تو منتظمین اسے حذف کر دیں گے
 
سر محمد احسن سمیع صاحب حوصلہ افزائی کا شکریہ
مسکرانے کا منظر ہے کوئی مسکرا رہا ہے اور اس کے سرخ ہونٹوں کے نیچے دانت موتیوں کی طرح دمک رہے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک
یہاں دیکھیے ۔دمک نہیں جگمگاتی ۔بلکہ موتی جگمگا سکتے ہیں ۔ اس کا خیال کیجیے۔
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک
کھنک کے لیے گدگدانا سے بہتر مناسبت والا لفظ آنا چاہیئے ۔
مہکے خوش رنگ پھول ہے معطر فضا
یہ مصرع وزن سے گر رہا ہے ۔
چاندی کی گھنٹیاں جب بجانے لگی
گھنٹیاں چاندی کی کیوں بھئی ؟ چاندی لفظ ذرا دبتا محسوس ہو رہا ہے ۔ گھٹیاں تو آہنی ہوسکتی ہیں ۔
دیکھو بارش کی بوندوں میں ٹھندی ہوا
دیکھو اور تیرا ۔ یہ جمع نہ کریں پوری نظم میں ایک ہی انداز اختیار کریں ۔ یا تو دیکھ تیرا یا دیکھو تمہارا ۔
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
یہاں "ہوں" کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کے بغیر مصرع مکمل ہے اور یہ زائد لگ رہا ہے ۔وزن بھی ٹھیک نہیں اسی وجہ سے۔
 

الف عین

لائبریرین
راحل سے متفق ہوں اور بھائی عاطف سے بھی
کچھ مزید....

مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک

جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے
ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے
اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
.. اس بند میں پہلے کہانی بیان کی گئی ہے، پگر ٹیپ کے مصرعے میں گدگدائے تمنائی کا صیغہ کیوں؟ اس کی معنویت سمجھ نہیں سکا

اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم
گورے گالوں پہ آئے گلابی چمک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔۔۔۔
... بند کے مصرعے آزاد نظم ہو گئے! کوئی قافیہ نہیں!

جیسے مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
چاندی کی گھنٹیاں جب بجانے لگی
گنگنائے تری پائلوں کی چھنک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
... نقرئی گھنٹیاں... کہا جا سکتا ہے

دیکھو بارش کی بوندوں میں ٹھندی ہوا
مہکے خوش رنگ پھول ہے معطر فضا
یہ سہانا سماں بھی ادھورا لگا
یاد آئے ترے بانکپن کی جھلک

مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
.. شتر گربہ کی بات ہو چکی، لیکن ٹیپ کے مصرعے میں وہی تمنائی صیغہ! جو بند کے ماضی سے میل نہیں کھاتا

جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
تو تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک
تو تصور میں تنافر ہے اگرچہ تو پورا ادا ہو رہا ہے
 
Top