محترم اساتذہ کرام :ایک پرانی نظم (آزاد نظم) کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی ہے آپ سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ!
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، عظیم ، یاسر شاہ
رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک

میں تھا مایوس جب پاس آیا ترے
ڈال کے ہار بانہوں کے میرے گلے
میرے بالوں کو بکھرایا تھا تو مجھے
گدگدانے لگی چوڑیوں کی کھنک

اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے آنے لگے
گورے گالوں پہ تیرے گلابی چمک

دیکھی مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
جب بجانے لگی نقرئی گھنٹیاں
گنگنائی تری پائلوں کی جھنک

ہلکی بارش ہے اور چل رہی ہے ہوا
تازہ پھولوں سے مہکی ہوئی ہے فضا
یہ سہانا سماں ہو مکمل گیا
جب وہاں آکے تُونے دکھائی جھلک

جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
پھر تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک

رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک
 

عظیم

محفلین
عظیم دیکھیں اسے، میں بعد میں دیکھتا ہوں
بابا میں کہاں اس قابل ہوں



رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک

۔۔۔چوتھے مصرع میں 'بھائے' دعایا ہے یا مراد ہے یہ ہے کہ مجھ کو بھاتی ہے/بھاتا ہے، یہ وضاحت طلب معلوم ہوتا ہے
مجھ کو بھاتی رہے موتیوں کی دمک
شاید ٹھیک رہے

میں تھا مایوس جب پاس آیا ترے
ڈال کے ہار بانہوں کے میرے گلے
میرے بالوں کو بکھرایا تھا تو مجھے
گدگدانے لگی چوڑیوں کی کھنک

۔۔۔ تیسرے مصرع میں، میرے بالوں کو بکھرا دیا تو نے جب، رواں ہو سکتا ہے، ورنہ 'تو' جو طویل کھنچ رہا ہے اس کی جگہ 'جب' لایا جا سکتا ہے یا 'تب'


اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے آنے لگے
گورے گالوں پہ تیرے گلابی چمک

۔۔۔ جنت سے اتری ہوئی حور، بہتر ہو گا، شتر گربہ بھی در آیا ہے آخری مصرع میں 'تیرے' کی وجہ سے

دیکھی مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
جب بجانے لگی نقرئی گھنٹیاں
گنگنائی تری پائلوں کی جھنک

۔۔۔ ٹھیک لگتا ہے عروضی اعتبار سے، مگر مفہوم کیا ہے یہ معلوم نہیں ہو رہا، خاص طور پر آخری مصرع کا پہلے تینوں سے کیا تعلق ہے یہ مجھ پر واضح نہیں ہوا

ہلکی بارش ہے اور چل رہی ہے ہوا
تازہ پھولوں سے مہکی ہوئی ہے فضا
یہ سہانا سماں ہو مکمل گیا
جب وہاں آکے تُونے دکھائی جھلک

۔۔۔ ٹھیک، تیسرا مصرع بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، ہو گیا تب مکمل سہانا سماں ، بہتر لگتا ہے


جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
پھر تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک

۔۔۔ اور پھولوں پہ اڑتی ہوں کچھ تتلیاں
اوڑھنی کی دھنک کہاں جھلملاتی ہے اس کی وضاحت نظر نہیں آ رہی


رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک
 
بابا میں کہاں اس قابل ہوں
اصلاح کرنے کا شکریہ سر! آپ اس قابل ہیں تب ہی یہ ذمہ داری آپ کو دی گئی ہے۔
رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک

۔۔۔چوتھے مصرع میں 'بھائے' دعایا ہے یا مراد ہے یہ ہے کہ مجھ کو بھاتی ہے/بھاتا ہے، یہ وضاحت طلب معلوم ہوتا ہے
مجھ کو بھاتی رہے موتیوں کی دمک
شاید ٹھیک رہے
مجھ کو بھائے یا دل کو بھائے سے مراد یہی ہے کہ مجھ کو بھاتی ہے یا دل کو بھاتی ہے۔
میں تھا مایوس جب پاس آیا ترے
ڈال کے ہار بانہوں کے میرے گلے
میرے بالوں کو بکھرایا تھا تو مجھے
گدگدانے لگی چوڑیوں کی کھنک

۔۔۔ تیسرے مصرع میں، میرے بالوں کو بکھرا دیا تو نے جب، رواں ہو سکتا ہے، ورنہ 'تو' جو طویل کھنچ رہا ہے اس کی جگہ 'جب' لایا جا سکتا ہے یا 'تب'
میرے بالوں کو بکھرادیا تو نے جب بہتر ہے
اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے آنے لگے
گورے گالوں پہ تیرے گلابی چمک

۔۔۔ جنت سے اتری ہوئی حور، بہتر ہو گا، شتر گربہ بھی در آیا ہے آخری مصرع میں 'تیرے' کی وجہ سے
یا ہو جنت سے اتری ہوئی حور تم بہتر ہے
دیکھی مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
جب بجانے لگی نقرئی گھنٹیاں
گنگنائی تری پائلوں کی جھنک

۔۔۔ ٹھیک لگتا ہے عروضی اعتبار سے، مگر مفہوم کیا ہے یہ معلوم نہیں ہو رہا، خاص طور پر آخری مصرع کا پہلے تینوں سے کیا تعلق ہے یہ مجھ پر واضح نہیں ہوا
تعلق یہ ہے کہ بیان کیے گئے ماحول میں جب گھنٹیا ں بجیں تو تری پائلوں کی جھنک یاد آنے لگی
ہلکی بارش ہے اور چل رہی ہے ہوا
تازہ پھولوں سے مہکی ہوئی ہے فضا
یہ سہانا سماں ہو مکمل گیا
جب وہاں آکے تُونے دکھائی جھلک

۔۔۔ ٹھیک، تیسرا مصرع بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، ہو گیا تب مکمل سہانا سماں ، بہتر لگتا ہے
ہوگیا تب مکمل سہانا سماں بہتر ہے
جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
پھر تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک

۔۔۔ اور پھولوں پہ اڑتی ہوں کچھ تتلیاں
اوڑھنی کی دھنک کہاں جھلملاتی ہے اس کی وضاحت نظر نہیں آ رہی
اور پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں کافی ہے اور شاید بہتر بھی ہے۔
 

عظیم

محفلین
مجھ کو بھائے یا دل کو بھائے سے مراد یہی ہے کہ مجھ کو بھاتی ہے یا دل کو بھاتی ہے۔
بھائے سے یہ کنفیوژن ہوتی ہے کہ یہ دعا کے طور پر کہا جا رہا ہے یا بتایا جا رہا ہے، حالانکہ میں سمجھ تو گیا تھا مگر بہتر ہے کہ اس کنفیوژن کو دور کر لیا جائے، جب آسانی سے ہو رہی ہے
ایک اور صورت ذہن میں آئی ہے
مجھ کو بھاتی ہے ان موتیوں کی دمک
تعلق یہ ہے کہ بیان کیے گئے ماحول میں جب گھنٹیا ں بجیں تو تری پائلوں کی جھنک یاد آنے لگی
اس لحاظ سے "میرے کانوں میں گنگنائی یا مجھے یاد آئی" وغیرہ ہونا چاہیے تھا، بہر حال
یاد آئی تری پائلوں کی جھنک
واضح رہے گا
 
بھائے سے یہ کنفیوژن ہوتی ہے کہ یہ دعا کے طور پر کہا جا رہا ہے یا بتایا جا رہا ہے، حالانکہ میں سمجھ تو گیا تھا مگر بہتر ہے کہ اس کنفیوژن کو دور کر لیا جائے، جب آسانی سے ہو رہی ہے
ایک اور صورت ذہن میں آئی ہے
مجھ کو بھاتی ہے ان موتیوں کی دمک

اس لحاظ سے "میرے کانوں میں گنگنائی یا مجھے یاد آئی" وغیرہ ہونا چاہیے تھا، بہر حال
یاد آئی تری پائلوں کی جھنک
واضح رہے گا
دونوں مشورے صائب ہیں۔ آپ کا شکریہ سر!
 

الف عین

لائبریرین
مکمل نظم میں شتر گربہ ہے۔ ہر جگہ تخاطب تم سے ہو یا تو سے۔میرے خیال میں زیادہ تر توُ سے ہی خطاب ہے، تو
.. تصویر /حورتم
کو بھی
تصویر/حور تو
کر دیا جائے
باقی عظیم کی اصلاح درست ہے
 
Top