امریکہ بہادر

کاشف رفیق

محفلین
یہ پروگرام نہ دیکھ سکا۔ کیا اس کا کوئی وڈیو لنک مل سکتا ہے
main10.gif

جنگ

کل مجھے اس پروگرام کی ریکارڈنگ سی ڈی پر مل گئی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں‌ آرہا کہ اسے کیسے اور کہاں اپ لوڈ‌ کروں۔ ویڈیو عام سی ڈی فارمیٹ میں ہے اور اس کا سائز 631 ایم بی ہے۔
 
یہ لنک ہے
[ame="http://vidpk.com/view_video.php?vid=15066"]http://vidpk.com/view_video.php?vid=15066[/ame]

[ame="http://vidpk.com/view_video.php?vid=15068"]دوسرا حصہ[/ame]


[ame="http://vidpk.com/view_video.php?vid=15080"]http://vidpk.com/view_video.php?vid=150[/ame]80
 

خاور بلال

محفلین
ڈاکٹر عافیہ کی بہن بہت غلط کررہی ہیں انہیں امریکہ پر عدم اعتماد اور اس پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ کیا وہ امریکی ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرتیں، کیا وہ بوئینگ میں سفر نہیں کرتیں۔ کیا میکڈونلڈ نہیں کھاتیں، کوک نہیں پیتیں؟ انہیں چاہیے کہ نئے سرے سے پیدا ہوں، ایک ایک امریکی چیز سے اجتناب کریں، اپنی ٹیکنالوجی خود پیدا کریں تب وہ اس قابل ہوں گی کہ امریکہ پر انگلی اٹھا سکیں۔
 
درست ہے۔ امریکہ ہی میں‌پڑھا وہیں کمایا کھایا۔ ٹیکنالوجی بھی ان کی اور بول بھی ان کے خلاف رہی ہین۔ کوئی تک نہیں بنتی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے ايک نقطہ جسے پاکستانی ميڈيا پر نظرانداز کيا جا رہا ہے وہ يہ ہے کہ
ڈاکٹر عافيہ صديقی کو امريکی فوجيوں يا ايف – بی – آئ ايجنٹس نے نہيں گرفتار کيا تھا۔

جولائ 17 کو انکی گرفتاری افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہوئ تھی۔ اس واقعے کے صرف ايک دن بعد ايک پريس کانفرنس بھی ہوئ تھی جس ميں صحافيوں کو ان کی گرفتاری کے بارے ميں تفصيلات سے آگاہ کيا گيا تھا۔ اس واقعے کو ميڈيا ميں رپورٹ بھی کيا گيا تھا۔ ليکن چونکہ اس وقت ڈاکٹر عافيہ کی شناخت نہيں ہو سکی تھی اس ليے يہ خبر شہ سرخيوں ميں جگہ حاصل نہ کر سکی۔

يہاں ميں جولائ 18 کو مختلف ميڈيا پر اس خبر کی رپورٹنگ کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں

http://www.khaleejtimes.com/Display...subcontinent_July573.xml&section=subcontinent
http://www.lankabusinessonline.com/fullstory.php?nid=1558516363
http://www.taipeitimes.com/News/world/archives/2008/07/19/2003417865
http://www.dailystar.com.lb/article.asp?edition_id=10&categ_id=2&article_id=94279

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

خاور بلال

محفلین
افغان اہلکاروں‌ نے انہیں‌کراچی سے کیسے گرفتار کرلیا؟ بہت عرصہ قبل ان کی کراچی سے گمشدگی کی خبر پاکستانی اخبارات میں آئ تھی۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ انہوں‌ نے پاکستانی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہی ظاہر کیا کہ وہ کچھ دنوں‌ میں آجائے گی اس کا کیا مطلب ہے؟ پاکستان سے کوئ بھی اچانک غائب ہوجائے تو اس کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے وہ یہ کہ اسے پاکستانی ایجنسیوں‌ نے اٹھایا ہے، اور ایجنسیاں‌ ان افراد کو کسے بیچتی ہیں‌یہ سب کو معلوم ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگ اسی طرح غائب ہوچکے ہیں بعض‌ اہل خانہ اب بھی سڑکوں‌ پر ان کی تصاویر اٹھائے حسرت و یاس کی تصاویر بنے نظر آتے ہیں۔ میں‌ نے ڈاکٹر ارشد وحید اور اکمل وحید کا بھی حوالہ دیا تھا کہ انہیں‌کس طرح اچانک دہشت گردی کے الزام میں‌اغوا کیا اور پھر گھر پر چھاپہ مار کے ظاہر یہ کیا کہ ہم تو انہیں گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن یہ گھر پر نہ تھے، کچھ ہی عرصہ بعد انہیں‌ مجبورا گرفتاری ظاہر کرنا پڑی۔ اور یہ افغان اہلکار ہیں کس کی پیداوار؟ یہ امریکہ کے ہی طفیلی نہیں‌ہیں؟ امریکہ اور ان کے مفادات مختلف ہیں؟

امریکہ کے دو روپ ہیں۔ ایک روپ میں‌وہ میلاد النبی کے موقع پر وہائٹ ہاؤس کے گنبد پر ہری لائٹنگ کرتا ہے، وہائٹ ہاؤس میں دعوتِ افطار رکھتا ہے اور مسلمانوں سے خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے دوسرے روپ میں‌ وہ وحشی ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نسل کشی کرتا ہے اور اس کے جواز کے لیے نائن الیون جیسے اسٹیج سجاتا ہے۔ گوانتا نامو، ابو غرائب اور باگرام وغیرہ میں جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ درگور کرنے کی انڈسٹری لگارکھی ہے۔ حیف
 

ساجداقبال

محفلین
ان میں سے کسی بھی خبر میں نام یا تصویر موجود نہیں پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر عافیہ ہی ہیں؟ اور اگر یہی ڈاکٹر عافیہ ہیں تو کل تک ایف بی آئی کیوں نہیں مان رہی تھی کہ انکا 13 سالہ بیٹا بھی انکی حراست میں ہے؟
 

امکانات

محفلین
صاحبو! امریکہ کو کیوں برا کہتے ہیں۔ اپنے آپ کو برا کہیے، اپنے والدین کو برا کہیے کہ کیوں ایسی قوم میں پیدا ہوگئے۔ بلکہ ایک کام کریں 1948 سے لیکر 1950 کی پاکستانی تاریخ کھنگالیے، اسکے پرنٹ آؤٹ لے کر دیواروں پر ٹانگیے صبح شام آتے جاتے اس پر نظر ڈال کر اپنے آپ کو اور اپنی تاریخ کو کوسیے، زیادہ جنون چڑھے تو اپنا سر دیوار سے پٹک پٹک کر زندگی کا ہی خاتمہ کر ڈالیے آخر ایک فالتو کم ہوجائے گا تو کیا فرق پڑجائیگا، انسان تو امریکی ہوتے ہیں۔

اسی بارے میں کچھ پرانی خبریں:

سورس


سورس

action Alert


سورس

حضور حل یہی ہے کہ اپنی استطاعت میں کام ٹھیک کیا جائے وہ کیا ہے کہ انہیں سٹھیائے ہوئے امریکیوں میں ایک عظیم انسان بھی ہوا تھا اسی کا قول ہے کہ:
Whatever You Are, Be A Good One

تو بس ہم جو ہیں اسی میں بہتری کی کوشش بھی جہاد میں داخل ہے۔

مزید پیش رفت یہ رہی:
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080805_aafiya_arrest_fz.shtml

یہ شاید غلط ہے۔ وکی‌پیڈیا کے مطابق ماجد امریکہ میں Asylum رکھتا تھا۔ لہذا اسے امریکہ آنے کے لئے مدد کی ضرورت نہ تھی۔ جو بات میں نے پڑھی تھی وہ یہ تھی کہ عافیہ پر الزام تھا کہ اس نے ماجد خان کے لئے ایک پوسٹ‌باکس لیا تھا۔

ساری مصیبت اس پوسٹ بکس سے شروع ہوئی ہے یہ پہلے ہی انڈرآبزرویشن تھا انجانے میں ڈاکڑ عافیہ نے بک کروالیا اور یہاں سے ہی ایف بی ائی پیچھے پڑ گی پر جوں جوں یہ معلومات حاصل کرتے گے انہیں شک پڑتا گیا عافیہ مذھبی تھیں اورنیروساینسدان تھیں اس لیے یہ شک یقین میں ڈھل گیا پھر ایف بی آئی نے آو دیکھا نہ تاو اور گرفتار کر لیا
 
ساری مصیبت اس پوسٹ بکس سے شروع ہوئی ہے یہ پہلے ہی انڈرآبزرویشن تھا انجانے میں ڈاکڑ عافیہ نے بک کروالیا اور یہاں سے ہی ایف بی ائی پیچھے پڑ گی پر جوں جوں یہ معلومات حاصل کرتے گے انہیں شک پڑتا گیا عافیہ مذھبی تھیں اورنیروساینسدان تھیں اس لیے یہ شک یقین میں ڈھل گیا پھر ایف بی آئی نے آو دیکھا نہ تاو اور گرفتار کر لیا
ماشاللہ ساری مصیبت بے چارے پوسٹ بکس سے شروع ہوئ تھی:eek:
ذرا نظراور سوچ کے گھوڑے دوڑایے ساری مصیبت شیطان کے شر سے شروع ہوئی تھی جو بش کے سرمیں‌کاناپوسیاں کررہا تھا۔ پوسٹ بکس تو خوامخوا بدنام ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ اردو فورمز پر ڈاکٹر عافيہ کيس کے پس منظر ميں يہ سوال کيا جا رہا ہے کہ امریکی حکومت کس قانون کے تحت شہريوں کو گرفتار کر کے ان سے تفتيش کا اختيار رکھتی ہے؟

اس سوال کا جواب دينے سے پہلے ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی پر اس وقت اقدام قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر اس وقت "اينمی کمبيٹنٹ" کی اصطلاح نافذ نہيں ہوتی اور نہ ہی انھيں ضمن ميں گرفتار کيا گيا تھا۔

جہاں تک اينمی کمبيٹنٹ کے حوالے سے قوانين کے بارے ميں سوال ہے اس کی تشريح 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے تناظر ميں کی جانی چاہيے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ 11 ستمبر 2001 کے حملے امريکہ کے خلاف اقدام جنگ کے مترادف تھے۔ ان کی نوعيت اور شدت ايک جنگ کے مساوی تھی۔ ان حملوں ميں کم از کم ايک ہدف پينٹاگان خالص عسکری نوعيت کا تھا۔ يہ بھی ياد رہے کہ 11 ستمبر کے حملے القائدہ کی جانب سے امريکی تنصيبات پر پہلے حملے نہيں تھے بلکہ اس سے پہلے قريب دس سالہ عرصے ميں امريکی شہريوں اور امريکی تنصيبات پر لاتعداد حملے کيے گئے۔

ستمبر 18 2001 کو کانگريس نے امريکی صدر کو يہ اختيار ديا تھا کہ وہ ان حملوں کے جواب ميں طاقت کا استعمال کر سکتے ہيں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ اور نيٹو نے بھی اس بات کی توثيق کی تھی کہ امريکی کی جانب سے جوابی جارحانہ کاروائ اقوام متحدہ کے چارٹر اور نيٹو ٹريٹی کے عين مطابق ہو گی۔ 11 ستمبر 2001 (بلکہ اس سے بھی کچھ سال پہلے) سےامريکہ قانونی طور پر بھی اور حقائق کی روشنی میں حالت جنگ ميں ہے۔ اس ضمن ميں آپ کو يہ بھی ياد رکھنا چاہيے کہ اسامہ بن لادن نے قريب ايک دہائ پہلے عوامی سطح پر امريکہ کے خلاف "اعلان جنگ" کيا تھا۔ حالت جنگ کی صورت ميں کچھ ايسے قوانين اور ضوابط کا اطلاق حکومت کی صوابديد پر ہوتا ہے جن کا استعمال امن کی حالت ميں ممکن نہيں ہوتا۔ انھی قوانين ميں امريکی صدر کو يہ اختيار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک اينمی کمبيٹنٹ کو زير حراست رکھ سکتےہيں جب تک حملے رک نہيں جاتے۔ اينمی کمبيٹنٹ کو جنگ کے قوانين اور ضابطوں کے عين مطابق دوران جنگ حراست ميں رکھا جا سکتا ہے۔

يہاں ميں يہ وضاحت بھی کر دوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ايک روايتی جنگ نہيں ہے جس ميں دو ممالک کی افواج اپنی مخصوض يونيفارمز اور جھنڈوں کے ساتھ اپنے ملک کی نمايندگی کرتے ہوئے ميدان جنگ ميں ايک دوسرے کے سامنے واضح اعلان اور ارادے کے ساتھ موجود ہوتی ہيں اور اس ضمن ميں جنگ سے متعلق بين الاقوامی قوانين بھی لاگو ہوتے ہيں ۔ اس کے برعکس دہشت گرد عام عوام ميں گھل مل کر بغير اعلان اور اپنے "شکار" ميں فوجی اور غير فوجی کی تفريق کے بغير حملہ کرتے ہيں اسی ليے القائدہ کے ضمن ميں جنگ اور قيديوں کے حقوق کے حوالے سے جينيوا کينويشن کی شقوں کا مکمل اطلاق نہيں ہوتا۔

"اينمی کمبيٹنٹ" کون ہيں؟

القائدہ اور طالبان کے خلاف جاری جنگ ميں "اينمی کمبيٹنٹ" کی اصطلاح القائدہ اور طالبان سے وابسطہ ممبران اور ايجنٹس پر صادق آتی ہے۔ اس اصطلاح کی تشريح کے ليے امريکی حکومت نے 1942 ميں امريکی سپريم کورٹ کے اس فيصلے سے استفادہ کيا تھا جو ايکس پارٹ کوئرن نامی مشہور زمانہ کيس ميں ديا گيا تھا اس فيصلے سے ايک اقتتباس

ايکس پارٹ کوئرن 317 یو ايس 1، 37-38

"وہ شہری جو خود کو دشمن حکومت کی عسکری شاخ سے منسلک کريں گے اور اس کی مدد، رہنمائ اور اشارے سے جارحانہ عزائم کے ارادے کے ساتھ ملک ميں داخل ہوں گے انھيں ہيگ کنويشن اور جنگی قانون کی روشنی ميں دشمن تصور کيا جائے گا۔"

اس حوالے سے مزيد تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Ex_parte_Quirin

"اينمی کمبيٹنٹ" ايک عمومی اصطلاح ہے جس کی دو ذيلی کيٹيگريز ہيں۔ قانونی اور غير قانونی کمبيٹنٹ۔ قانونی کمبيٹنٹ کی کيٹيگری کے زمرے ميں آنے والے قيديوں کو پی –او – ڈبليو کا سٹيٹس ديا جاتا ہے اور انھيں تيسری جينيوا کنوينشن کے تحت تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

امريکی صدر کے فيصلے کے مطابق القائدہ تنظيم کے رکن غير قانونی کمبيٹنٹ کی کيٹيگری ميں آتے ہيں کيونکہ دوسری وجوہات کے علاوہ وہ ايک ايسے گروپ کی نمايندگی کرتے ہيں جو کسی مملکت يا رياست کی نمايندگی نہيں کرتا لہذا تيسری جينيوا کينوينشن ميں ديے جانے والے تحفظات کا اطلاق اس صورت ميں نہيں ہوتا۔ اسی طرح طالبان کے گرفتار شدہ ارکان پر پی – او – ڈبليو سٹيٹس کا اطلاق نہيں ہوتا کيونکہ وہ ان شرائط کو پورا نہيں کرتے جو تيسری جينيوا کنويشن کے آرٹيکل 4 ميں وضع کی گئ ہيں۔

قانون کے اعتبار سے اس ضمن ميں امريکی صدر کا فيصلہ حتمی ہے ليکن عدالتوں نے بھی ان کے اس فيصلے کی باقاعدہ توثيق کی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

خرم

محفلین
فواد کیا آپ کے علم میں ہے کہ عافیہ صدیقی کا امیگریشن سٹیٹس کیا تھا امریکہ میں؟
 

زیک

مسافر
خرم میں نے کسی آن‌لائن خبر میں عافیہ صدیقی کی بہن کا بیان پڑھا تھا کہ عافیہ نہ امریکی شہری ہے اور نہ گرین کارڈ ہولڈر۔ لنک ڈھونڈ کر بتاتا ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

روزنامہ خبريں نے مورخہ اگست 24 کو يہ دعوی کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی فيملی کو امريکی ڈپٹی اٹارنی جرنل مائيکل جے گارسيا کی جانب سے ايک خط موصول ہوا ہے جس ميں پہلی مرتبہ امريکی حکومت نے يہ "تسليم" کيا ہے ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا 2005 سے امريکی تحويل ميں ہے۔

اخبار کی يہ خبر ايک تازہ مثال ہے کہ کيسے ميڈيا کے کچھ عناصر حقائق کو توڑ مروڑ کر کہانی کو ايک خاص انداز سے پيش کرتے ہيں۔

اخبار کا يہ "انکشاف" آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=770822&da=y

کچھ اردو فورمز نے بغير تحقيق کے اسی خبر کو بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر ديا ہے۔

امريکی ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ کی فيملی کو جو خط بيجھا گيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=772838&da=y

(اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے)

اس خط کے متن کا اخبار کی خبر سے موازنہ کريں تو يہ واضح ہے کہ خط ميں يہ کہا گيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا اس وقت افغان پوليس کی تحويل ميں ہے اور اسے ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ جولائ 17 کو گرفتار کيا گيا تھا۔ خط ميں يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ بچے کے اپنے بيان کے مطابق اس کے والدين 2005 کے زلزلے ميں ہلاک ہو چکے ہيں اور اس نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خاتون کا نام صالحہ بتايا تھا۔ ليکن اس کے ابتدائ بيان کے برعکس ڈی –اين – اے ٹيست سے يہ ثابت ہوا کہ وہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا ہے۔

اس خط کو بنياد بنا کر خبريں اخبار کا دعوی حقائق کی واضح نفی ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ اس کيس کے حوالے سے سارے حقائق عدالتی کاروائ کے دوران سامنے آئيں گے۔ محض قياس پر مبنی خبروں کو بغير تحقيق کے بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا دانشمندی نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
امکانات - معلوم نہیں‌آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس طرح اشعار پڑھ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں قانون کی بہت ہی بہترین حکمرانی ہے۔ اس بات کے گواہ وہ تمام موجودہ اور سابقہ پاکستانی ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔
قوانیں شعروں سے نہیں بنتے بلکہ حقیقتوں سے بنتے ہیں۔

اگر آپ دہشت گرد خود کش حملہ کرنے والوں کے اتنے ہی مداح ہیں تو آج سے آپ ہر نماز کے بعد دعا کیجئے کہ آپ کا کوئی پیارا اور سگا، باپ ، بھائی ، بیٹا یا ماں ، بہن یا بیٹی ۔ گھر بیٹھے یا بازار میں کام کاج کے دوران کسی دہشت گرد خود کش حملہ کا شکار ہو تاکہ آپ کے ساتھ اس حادثے کے بعد آپ قوانین کی اہمیت کو اسی طرح نظر انداز کرسکیں اور اسی طرح دل سے خوبصورت اشعار دہشت گرد خودکش حملے کرنے والوں کے لئے پڑھ سکیں۔
 
تصویر کا دوسرا رخ‌دیکھئے ۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ عافیہ صاحبہ کو ایف بی آئی نے 17 جولائی کے قریب افغانستان میں گرفتار کیا تو یہی وہ وقت ہے جب کچھ پاکستانی اخبارات نے ان کے بارے میں اطلاعات چھاپنی شروع کیں۔ بلکہ کالم لکھے۔ کہ وہ کئی سالوں سے افغان جیل میں ہیں۔ بین الاقوامی پریس میں جب عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے خبر آئی تو ان کی شناخت نہیں ہوئی تھی کہ وہ عافیہ صاحبہ ہیں۔ اس دوران کچھ پاکستانی اخبارات میں جو پہلی پہلی خبر آنی شروع ہوئی تو یہ خبر عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے بارے میں نہیں‌تھی بلکہ ان کے جیل میں قید ہونے کے بارے میں تھی۔

اگر یہ بات درست ہے تو القاعدہ ہیڈ کوارٹر کو عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کا علم ہوتے ہیں القاعدہ نے اپنی پسند کے اخبارات کو ان کے بارے میں لکھنے کے لیے کہا۔ اس صورت میں یہ کالم نویس مشکوک ٹھیرتے ہیں۔ ان کالم نویسوں‌ سے پوچھ گچھ بھی ہونی چاہئیے کہ ان کو اس قیدی کے بارے میں کیسے پتہ چلا اور ان کا طالبان سے کیا لنک ہے؟
 
تصویر کا دوسرا رخ‌دیکھئے ۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ عافیہ صاحبہ کو ایف بی آئی نے 17 جولائی کے قریب افغانستان میں گرفتار کیا تو یہی وہ وقت ہے جب کچھ پاکستانی اخبارات نے ان کے بارے میں اطلاعات چھاپنی شروع کیں۔ بلکہ کالم لکھے۔ کہ وہ کئی سالوں سے افغان جیل میں ہیں۔ بین الاقوامی پریس میں جب عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے خبر آئی تو ان کی شناخت نہیں ہوئی تھی کہ وہ عافیہ صاحبہ ہیں۔ اس دوران کچھ پاکستانی اخبارات میں جو پہلی پہلی خبر آنی شروع ہوئی تو یہ خبر عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے بارے میں نہیں‌تھی بلکہ ان کے جیل میں قید ہونے کے بارے میں تھی۔

اگر یہ بات درست ہے تو القاعدہ ہیڈ کوارٹر کو عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کا علم ہوتے ہیں القاعدہ نے اپنی پسند کے اخبارات کو ان کے بارے میں لکھنے کے لیے کہا۔ اس صورت میں یہ کالم نویس مشکوک ٹھیرتے ہیں۔ ان کالم نویسوں‌ سے پوچھ گچھ بھی ہونی چاہئیے کہ ان کو اس قیدی کے بارے میں کیسے پتہ چلا اور ان کا طالبان سے کیا لنک ہے؟
درست ہی تو کہہ رہے ہیں‌فاروق۔ کیسے پتہ چلا کالم نگار کو۔ پھر کیسے چھاپ دیا۔ ان کالم نگاروں کو تو پکڑ کر گوانتانامو بے بھجوانا چاہیے مشکوک کہیں‌کے۔ اسی شک کی بنیاد پر ہی لٹکادینا چاہیے۔ ہر عمل کی بنیاد اب شک ہی تو ہے۔ ورنہ اگر اور نہیں تو ابوغریب ہی بجھواکر شک دور کیا جائے۔ درست ہی تو ہے۔
پھر القاعدہ "ہیڈکوارٹر" سے جو اڈرز جاری ہوتے ہیں‌اسکا درست علم فاروق جیسے لوگوں‌کو چل ہی جاتا ہے۔;)
 

وجی

لائبریرین
بھائی اگر القاعدہ کا کوئی ہیڈ کوارٹر موجود ہے تو پھر اس پھر حملہ یا گرفتاری کیوں نہیں ہوتی
کیوں یہ امریکہ بہادر ڈرتا ہے کیا
 
Top