امریکہ بہادر

کاشف رفیق

محفلین
تصویر کا دوسرا رخ‌دیکھئے ۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ عافیہ صاحبہ کو ایف بی آئی نے 17 جولائی کے قریب افغانستان میں گرفتار کیا تو یہی وہ وقت ہے جب کچھ پاکستانی اخبارات نے ان کے بارے میں اطلاعات چھاپنی شروع کیں۔ بلکہ کالم لکھے۔ کہ وہ کئی سالوں سے افغان جیل میں ہیں۔ بین الاقوامی پریس میں جب عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے خبر آئی تو ان کی شناخت نہیں ہوئی تھی کہ وہ عافیہ صاحبہ ہیں۔ اس دوران کچھ پاکستانی اخبارات میں جو پہلی پہلی خبر آنی شروع ہوئی تو یہ خبر عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کے بارے میں نہیں‌تھی بلکہ ان کے جیل میں قید ہونے کے بارے میں تھی۔

اگر یہ بات درست ہے تو القاعدہ ہیڈ کوارٹر کو عافیہ صاحبہ کی گرفتاری کا علم ہوتے ہیں القاعدہ نے اپنی پسند کے اخبارات کو ان کے بارے میں لکھنے کے لیے کہا۔ اس صورت میں یہ کالم نویس مشکوک ٹھیرتے ہیں۔ ان کالم نویسوں‌ سے پوچھ گچھ بھی ہونی چاہئیے کہ ان کو اس قیدی کے بارے میں کیسے پتہ چلا اور ان کا طالبان سے کیا لنک ہے؟

شاید قیدی نمبر 650 کی کہانی سب سے پہلے بی بی سی نے ہی شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن کی لاپتہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی افغانستان کے ایک امریکی فوجی مرکز میں ممکنہ موجودگی کی تحقیقات کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اسی رپورٹ میںبرطانوی صحافی وون ریڈلے [جو کہ طالبان کی قیدی بھی رہ چکی ہیں اور پھر بعد میں اسلام لے آئی تھیں] کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی برطانوی پارلیمنٹ رکن لارڈ نذیر کے حوالہ بھی موجود ہے۔ پاکستانی اخبارات تو ادھر ادھر سے ہی خبریں تلاش کرکے چھاپتے ہیں، ان کا کیا قصور۔:rolleyes:

ویسے اس تھریڈ کا آغاز بھی اسی بی بی سی کی رپورٹ سے ہوا تھا۔
 

محسن حجازی

محفلین
شاید قیدی نمبر 650 کی کہانی سب سے پہلے بی بی سی نے ہی شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن کی لاپتہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی افغانستان کے ایک امریکی فوجی مرکز میں ممکنہ موجودگی کی تحقیقات کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اسی رپورٹ میںبرطانوی صحافی وون ریڈلے [جو کہ طالبان کی قیدی بھی رہ چکی ہیں اور پھر بعد میں اسلام لے آئی تھیں] کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی برطانوی پارلیمنٹ رکن لارڈ نذیر کے حوالہ بھی موجود ہے۔ پاکستانی اخبارات تو ادھر ادھر سے ہی خبریں تلاش کرکے چھاپتے ہیں، ان کا کیا قصور۔:rolleyes:

ویسے اس تھریڈ کا آغاز بھی اسی بی بی سی کی رپورٹ سے ہوا تھا۔

حضور دھاگہ ہمیں نے شروع کیا تھا لیکن ہم ہی خاموش ہیں کہ جانتے ہیں یہ امریکی جھوٹ کی مشین گن سے اس قدر جھوٹ بولیں گے کہ سچ ماند ہی پڑ جائے گا۔ اب اسی کو لیجئے فاروق صاحب کو غلط فہمی ہو گئی کہ شاید پاکستانی اخبارات نے معاملہ اچھالا حالانکہ انہیں تو بہت بعد کو علم ہوا۔:rolleyes:
کاشف بھائی حقیقت حال واضح کرنے کا شکریہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین!
 

کاشف رفیق

محفلین
امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کردی

نیویارک .. . . . .. . . امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر القاعدہ کے رکن کی حیثیت سے دہشت گردی اور امریکی فوجیوں پر حملے کی باقاعدہ فرد جرم عائد کردی ہے۔امریکی عدالت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پر بیرون ملک امریکیوں کو قتل کی کوشش ،امریکی افسران اور ملازمین کے قتل ،امریکی افسران اور ملازمین پر مسلح حملے ،دہشت گردی اور بندوق رکھنے کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔ بیان کے مطابق اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزامات ثابت ہوگئے تو انھیں ہر قتل پر کم از کم بیس سا ل قید،مسلح حملے اوربندوق رکھنے کے الزام میں عمر قید اور دیگرالزامات میں آٹھ سال تک قید کی سزاہوسکتی ہے ۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی القاعدہ کے متعلق معلومات کا خزانہ ہیں۔ حکام کے مطابق عافیہ صدیقی کے پاس سے کمپیوٹرکی چھوٹی ڈیوائس بھی برآمد ہوئی جس میں اہم معلومات موجود تھیں ،جبکہ ان کے پاس ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس موجود تھے جن میں امریکا اور برطانیہ کے اہم مقامات پر بڑے پیمانے پر حملے کرنے کے طریقے درج تھے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا نے فرد جرم کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ تمام الزامات فرضی ہیں اور عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کرنے کے لئے گھڑے گئے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو ہزار تین میں کراچی سے لاپتہ ہو گئیں تھیں تاہم ایک برطانوی صحافی کی اس رپورٹ کے بعد کہ عافیہ صدیقی افغانستان کی بگرام جیل میں قیدہے۔افغان حکام نے عافیہ صدیقی کی گرفتاری ظاہر کر دی۔ افغان پولیس نے موقف اختیا ر کیا کہ عافیہ صدیقی کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ افغان صوبے غزنی کے گورنر پر خود کش حملے کی تیاری کررہی تھیں،اس کے بعد عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کر دیا گیا ،جہاں ان پر مقدمہ چلانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔


سورس۔ جنگ نیوز
 

کاشف رفیق

محفلین
لارڈ نذیر کو ڈاکٹر عافیہ سے ملنے کی اجازت

برطانیہ کی دارالامرا کے رکن لارڈ نذیر احمد امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملنے جانے والے ہیں۔

بی بی سی اردو کے جعفر رضوی سے بات کرتے ہوئے لارڈ نذیر نے کہا کہ چند ہفتے پہلے انہوں نے امریکی حکومت سے ڈاکٹر عافیہ کے متعلق استفسار کیا تھا اور برطانوی دارالعوام میں بھی اس کے بارے میں سوالات پوچھے تھے کہ قیدی نمبر 650 کون ہے، افغانستان میں ڈاکٹر عافیہ کی حراست کیسے ہوئی، ان کی جسمانی اور دماغی صحت کیسی ہے وغیر وغیرہ۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے امریکہ سے یہ بھی کہا تھا کہ جہاں کہیں بھی ڈاکٹر عافیہ ہیں میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘

’دو دن پہلے مجھے برطانیہ میں امریکہ کے سفیر کا خط آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پہلے تو ’قیدی نمبر 650‘ ڈاکٹر عافیہ نہیں ہیں۔ دوسرا ڈاکٹر عافیہ جولائی 2008 سے امریکی حراست میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجھے خوشی سے ڈاکٹر عافیہ سے ملنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔‘

لارڈ نذیر نے کہا کہ گوانتاناموبے اور افغانستان میں قید رہنے والے معظم بیگ نے انہیں ڈاکٹر عافیہ کے متعلق بتایا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی حراست میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتخانے اور نیو یارک میں امریکی پروسیکیوٹر نے انہیں کہا ہے کہ وہ میری ملاقات کے بارے میں ڈاکٹر عافیہ سے پوچھ کر ہی بتائیں گے۔

لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی بہن‘ ماں یا کسی اور خاتون لے کر جانا چاہتےہیں۔

’وہ مجھے نہیں جانتی اور نہ ہی ان کی دماغی یا جسمانی حالت ایسی ہے کہ وہ مجھے پہچان سکیں۔‘

لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ مجھے ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بچوں کے متعلق تشویش ہے اور ’میں جاننا چاہتا ہوں کہ پچھلے پانچ سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کہاں تھیں۔‘

کچھ دن قبل پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی اسلام آباد میں امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کر کے ڈاکٹر عافیہ کو اور ان کے بچوں کو قید میں رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
 

امکانات

محفلین
[quote=فاروق سرور خان;330677]امکانات - معلوم نہیں‌آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس طرح اشعار پڑھ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

فاروق امریکہ میں لاکھ قانون کی حکمرانی ہو ہمیں اعتراض نہیں‌ امریکہ قبائلی عالاقوں میں کیا لینے آیا ہے آپ نے خوکش حملوں کی بات کی ہے دوست بات یہ کہ جب ساری طاقت آپ کسی پر صرف کر دوگے تو مزاحمت بھی شدید ہوگئی جب مزاحمت کار آپ کی فضائی طاقت اورزمینی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیں‌گے تو مزاحمت کا سستا ذریعہ تلاش کر یں گے خودکش حملے اس وقت دنیا کا سب سے سستا اور سب سے مہلک ہتھیار ہے آپ مزاحمت کاروں سے میدان میں آکر لڑیئں تو مزاحمت کار جواب دیں گے جب آپ انہیں‌ فضا سے ماریں‌گے تو وہ اپنے غصے کا اظہار نہیں کر سکیں گے پھر وہ طریقہ اپنایا جائے گا جس سے نقصان زیادہ اور سرمایہ کاری کم ہو آج امریکہ جنگ کو فضائی قوت کی بنیاد پر سو فیصد کامیابی پر لے گیا اور جنگ کا اہم عنصر( رسک( انتہائی کم ہو گیا ہےا س کے مقابلے میں مزاحمت کاروں نے سو فیصد رسک کی بنیاد پر جنگی حکمت عملی بنا لی ہے جنگ میدان میں‌ ہوتی ہے مگر امریکہ نے اسے ویڈیو گیم بنا دیا ہے بٹن دبایا اور کام تمام امریکہ بند کمروں میں بیٹھ کر لاکھ جتن کر لے حنگی حکمت عملی کا توڑ میدان میں کیا جاتا ہے بند کمروں میں نہیں مزاحمت کاروں کی جنگی حکمت عملی کا امریکہ توڑ نہیں کر سکا گوریلا جنگ ہمیشہ انتہائی طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کمزور مزاحمت سے جنم لیتی ہے دوسری بات آپ کو خود کش حملوں کی تاریخ کا علم نہیں یہ آج سے ساڑے سات سو سال قبل حسن بن صبا کے فدائوں سے شروع ہوئے تھے اور دنیا میں‌ اس وقت سے لیے کر آج تک کہیں نہ کہیں موجود ہیں یہ القاعدہ اورطالبان کی ایجاد نہیں اگر یہ اتنے جنگی ماہر ہوتے تو امریکہ آ ج اپنا سر پیٹ رہا ہوتا اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہو یہ خادم حاضر ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
[quote=
فاروق امریکہ میں لاکھ قانون کی حکمرانی ہو ہمیں اعتراض نہیں‌ امریکہ قبائلی عالاقوں میں کیا لینے آیا ہے آپ نے خوکش حملوں کی بات کی ہے دوست بات یہ کہ جب ساری طاقت آپ کسی پر صرف کر دوگے تو مزاحمت بھی شدید ہوگئی جب مزاحمت کار آپ کی فضائی طاقت اورزمینی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیں‌گے تو مزاحمت کا سستا ذریعہ تلاش کر یں گے خودکش حملے اس وقت دنیا کا سب سے سستا اور سب سے مہلک ہتھیار ہے آپ مزاحمت کاروں سے میدان میں آکر لڑیئں تو مزاحمت کار جواب دیں گے جب آپ انہیں‌ فضا سے ماریں‌گے تو وہ اپنے غصے کا اظہار نہیں کر سکیں گے پھر وہ طریقہ اپنایا جائے گا جس سے نقصان زیادہ اور سرمایہ کاری کم ہو آج امریکہ جنگ کو فضائی قوت کی بنیاد پر سو فیصد کامیابی پر لے گیا اور جنگ کا اہم عنصر( رسک( انتہائی کم ہو گیا ہےا س کے مقابلے میں مزاحمت کاروں نے سو فیصد رسک کی بنیاد پر جنگی حکمت عملی بنا لی ہے جنگ میدان میں‌ ہوتی ہے مگر امریکہ نے اسے ویڈیو گیم بنا دیا ہے بٹن دبایا اور کام تمام امریکہ بند کمروں میں بیٹھ کر لاکھ جتن کر لے حنگی حکمت عملی کا توڑ میدان میں کیا جاتا ہے بند کمروں میں نہیں مزاحمت کاروں کی جنگی حکمت عملی کا امریکہ توڑ نہیں کر سکا گوریلا جنگ ہمیشہ انتہائی طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کمزور مزاحمت سے جنم لیتی ہے دوسری بات آپ کو خود کش حملوں کی تاریخ کا علم نہیں یہ آج سے ساڑے سات سو سال قبل حسن بن صبا کے فدائوں سے شروع ہوئے تھے اور دنیا میں‌ اس وقت سے لیے کر آج تک کہیں نہ کہیں موجود ہیں یہ القاعدہ اورطالبان کی ایجاد نہیں اگر یہ اتنے جنگی ماہر ہوتے تو امریکہ آ ج اپنا سر پیٹ رہا ہوتا اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہو یہ خادم حاضر ہے

بھائی جی،
امریکہ کو خود آپ کے مجاہدین [القاعدہ و طالبان] نے اپنی حماقتوں و جہالت سے موقع دیا ہ [یا پھر شاید مجبور کیا ہے] کہ وہ افغانستان میں آئے۔
1۔ آپ پہلے یہ سوچیں کہ طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ امریکی اسلحے اور سازش کے بھروسے اپنے ہی کئی لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے افغانستان پر قابض ہو؟

2۔ پھر القاعدہ و طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں امریکی افواج کو چھوڑ کر معصوم نہتے شہریوں پر خود کش حملے کرواتے پھریں؟ [گیارہ ستمبر سے قبل ہی یہ اپنی خصلت کئی مرتبہ ظاہر کر چکے تھے اور اس درندگی کا فتوی یہ دیتے تھے کہ یہ شہری کیونکہ امریکہ کو ٹیکس دیتے ہیں اس لیے انہیں مارنا جائز ہے۔

3۔ اور اگر آج امریکہ افغانستان میں موجود ہے تو آپ لوگ ہزار چیختے رہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی اکثریت طالبان سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ایک جمہوری حکومت کے خواب دیکھتی ہے کہ جہاں اسے طالبان اور دیگر مجاہد تنظیموں اور وار لارڈز سے نجات حاصل ہو، اور اسی لیے امریکہ کے تحت منعقد شدہ الیکشنز میں عوام کی اکثریت نے طالبانی دھمکیوں کے باوجود حصہ لیا اور اپنے پسندیدہ نمائندے مقرر کیے۔
تو اب آپ پھر ہزار چیختے رہیں، مگر دنیا کے نزدیک امریکہ کی افغانستان میں موجودگی بالکل جائز ہے۔
اور اس جواز کی دوسری اہم وجہ القاعدہ و طالبان کی دہشت گرد کاروائیاں ہیں جس میں وہ دوسرے ممالک میں معصوم نہتے شہریوں کا بھی قتل عام کرنے میں کچھ نہیں جھجھکتے۔ اور یہ وہ جواز ہے کہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا امریکہ کے ساتھ ہو گی کہ وہ اپنی افواج افغانستان میں بسائے رکھے۔

4۔ اور خود کش حملوں کے لیے آپ جتنی مرضی دلائل پیش کر دیں، مگر اس سے آپ کچھ ثابت نہیں کر پائیں گے، اور جب جوابی دلائل دیے جائیں گے تو آپ پھر ان دلائل سے فرار حاصل کریں گے۔
/۔اسلام نے اسی لیے کھل کر ان خود کش حملوں کو شروع سے ہی تاقیامت حرام قرار دے دیا ہے۔
/۔ آج جو امریکا ہم سے اتنا آگے ہے اسکا جواب ہرگز ہرگز خود کش حملے نہیں ہیں، بلکہ وہ علم کے میدان میں آگے پہنچا ہے اور جبتک ہم اس علم کے میدان میں پیچھے رہیں گے اُسوقت تک کسی صورت ممکن نہیں کہ ان خود کش حملوں سے علم کی میدان کا یہ گڑھا پاٹ سکیں۔
/۔ اور یاد رکھئیے، اسلام نے حالات کے مطابق کبھی براہ راست جہاد بالسیف پر صبر اور جہاد بالشعور کو ترجیح دی ہے۔
اسکی وجہ بالکل صاف ہے اور وہ یہ کہ آپ یہ خود کش حملے اپنی ہی معصوم نہتی عوام کو یرغمال اور ڈھال بنا کر کر رہے ہیں اور حملے کرنے کے بعد انہی کے پیچھے جا کر چھپ جاتے ہیں۔
اور عالمی انسانی ضمیر امریکا جیسی بڑی طاقتوں کو ابھی تک روکے ہوئے ہے کہ جوابا امریکہ "کھل" کر ان معصوموں کی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ان خود کش حملہ آوروں پر حملہ نہ کرے، چاہے اس سے امریکا کا زیادہ نقصان ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔
مگر یہ عالمی انسانی ضمیر آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور امریکا اور بقیہ پوری دنیا میں موجود انتہا پسند مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب یہ عالمی انسانی ضمیر ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہار جائے گا اور اس دن امریکی طیارے "کبھی کبھار" نہیں بلکہ "کھل" کر اور بغیر کسی پرواہ کے آپکی معصوم نہتی شہری آبادی پر حملہ کر رہے ہوں گے اور طالبان پہلے کی پھر ان معصوم عوام کو خاک و خون میں لت پت ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ کر خود پہاڑوں میں فرار ہوتے پھر رہے ہوں گے۔

اور اسرائیل کی مثال سامنے ہے۔ میرے دل کو یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بہت درد ہوتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ بغیر بتائے چارہ بھی نہیں کہ ادھر کچھ لوگ ہیں جو آنکھیں کھولنے کے لیے تیار ہی نہیں۔

/۔ ذرا ہمت کر کے یہ بتا دیں کہ حماس نے اسرائیل میں آخری خود کش حملہ کب کیا تھا؟
/۔ اور اگر پچھلے اتنے سارے عرصے میں خود کش حملہ نہیں کیا تو اسکی وجوہات کیا ہیں؟

دیکھئیے، ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عالمی انسانی ضمیر کمزور پڑا اور اسرائیل کو موقع مل گیا کہ وہ قوت استعمال کرتے ہوئے اور بغیر شہری آبادی کی پرواہ کیے ہوئے اپنی کاروائیاں کر سکے۔ اور اسرائیل میں سب سے پہلے انتہا پسند مضبوط ہو کر حکومت میں آئے، اور پھر انہوں نے ہر روز فلسطین پر بمباری کی اور آپکے خود کش حملہ آور کچھ نہ کر سکے۔
اور چونکہ ان اسرائیل انتہا پسند حکومت کے اقدامات سے خود کش حملے رک گئے، تو اس سے یہ انتہا پسند لوگ بمقابلہ انسان دوست قوتوں کے [جو طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتیں] اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔

امکان برادر،
یہ وہ حقیقت ہے جو بہتر ہے کہ نہ بھولی جائے۔ طالبان خود کش حملہ آور اسی روڈ میپ پر چل رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کو مزید اور مزید جواز ملتا جا رہا ہے۔ اور چونکہ حملہ آور پاکستانی سرحدوں کے اندر سے کاروائیاں کر رہے ہیں، اس لیے امریکہ کو یہ جواز بھی ملتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے اندر تک پھیلا دے۔
اور آپ لوگ اپنے تمام تر احتجاج کے باوجود دنیا میں اپنا مقام کھوتے جا رہے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک آپ کی مدد کے لیے تیار نہیں۔
ذرا سوچئیے کہ واقعی یہ خود کش حملے ہی آج کی ضرورت ہیں؟ اور یہ خود کش حملے ہمیں کہاں لے جا سکتے ہیں۔
///////////////////////////////////////////
اور طالبان ان فدائی حملے کرنے میں حسن بن صباح کی سنت کی پیروی نہیں کر رہے [میری تحقیق کے مطابق حسن بن صباح ایک تاریخی حقیقت نہیں بلکہ افسانوی کردار ہے]۔۔۔۔۔۔ بلکہ اسلامی تاریخ میں کسی مسلم گروہ کی جانب سے سب سے پہلا فدائی خود کش حملہ ابن ملجم خارجی نے خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب پر کیا تھا، اور آج طالبان اسی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں
////////////////////////////////////
نوٹ:
میدان جنگ میں جب دو افواج آپس میں برسرپیکار ہیں تو اس وقت دشمن فوج کو خود کش حملے سے نقصان پہنچانا الگ چیز ہے، اور معصوم نہتے شہریوں کو خود کش حملوں سے یہ بہانہ کرتے ہوئے قتل کرنا کہ وہ دشمن حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے۔ براہ مہربانی ان دو چیزوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کر کے عوام کو بہکایا نہ جائے۔
 

امکانات

محفلین
بھائی جی،

مہوش باجی ہم طالبان ترجمان نہیں یہ تصویر کا ایک رخ تھا دوسطروں کے جواب میں آپ نے درجن بھر سطروں کی تقریر کی دی مجھے اب معلوم ہواکہ آپ سمجنھے کی کو شش نہیں کرتیں کیونکہ آپ لوگ افغانستان میں امریکہ کے بظاہر مخالف ہیں اورعراق میں آ پ جسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے حکومت بنائی ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
بھائی جی،

مہوش باجی ہم طالبان ترجمان نہیں یہ تصویر کا ایک رخ تھا دوسطروں کے جواب میں آپ نے درجن بھر سطروں کی تقریر کی دی مجھے اب معلوم ہواکہ آپ سمجنھے کی کو شش نہیں کرتیں کیونکہ آپ لوگ افغانستان میں امریکہ کے بظاہر مخالف ہیں اورعراق میں آ پ جسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے حکومت بنائی ہے
امکانات بھائی،
آپکو پوری اجازت ہے کہ دو کیا دو سطروں میں اپنے خیالات بیان کریں، لیکن مجھے آپکی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپکو اس چیز پر اعتراض کیوں ہے کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
مزید آپ نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ: " اور صرف مجھ جیسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے عراق میں حکومت بنائی ہے۔"

بھائی جی،
میرا نہیں خیال کہ آج تک کبھی آپکے اور میرے مابین عراق کے حالات پر گفتگو ہوئی ہے۔ پتا نہیں آپ نے پھر یہ الزام پھر کیسے لگا دیا۔
بلکہ امریکہ عراق میں گھسا ہی اس وجہ سے تھا کہ سعودیہ و عرب ممالک پہلے ہمیشہ صدام حسین کو سپورٹ کرتے رہے اور اسے ایران کے خلاف لڑاتے رہے۔
اور آج بھی آپکے الزام کے برعکس امریکہ کو عراق میں فوجیں برقرار رکھنے پر سفارتی سطح پر شکست ہوئی ہے اور اسکا سہرا وہاں کی جہموری حکومت کے سر ہے، ورنہ انتہا پسند خود کش حملہ آوروں نے تو امریکہ مخالفت کا نعرہ لگا کر پہلے لاکھوں معصوم عراقی بچوں عورتوں و شہریوں کا موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر ملک کو منافرت اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اور یوں جب تک عراق میں خانہ جنگی جاری رہتی، اُس وقت تک امریکہ کو وہاں اپنی فوجیں بسائے رکھنے کا بہانہ ملا رہتا۔
اور بہتر ہو گا عراق کی صورتحال پر ہم نئے تھریڈ میں کھل کر اور تفصیلا گفتگو کریں اور ہو سکتا کہ ہم عراق کی صورتحال سے کوئی سبق سیکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔
///////////////////////////////
باقی بھائی جی، میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں خود کش حملوں کے جو نقصانات اور فتنہ بیان کیا ہے، اور اس روڈ میپ پر چلتے ہوئے انجام کیا ہو گا، اسکا جواب اُن تمام لوگوں پر ادھار ہے جو ابتک طالبانی فتنے کو فساد کی بجائے جہاد کہہ رہے ہیں۔
 

امکانات

محفلین
امکانات بھائی،
آپکو پوری اجازت ہے کہ دو کیا دو سطروں میں اپنے خیالات بیان کریں، لیکن مجھے آپکی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپکو اس چیز پر اعتراض کیوں ہے کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
مزید آپ نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ: " اور صرف مجھ جیسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے عراق میں حکومت بنائی ہے۔"

بھائی جی،
میرا نہیں خیال کہ آج تک کبھی آپکے اور میرے مابین عراق کے حالات پر گفتگو ہوئی ہے۔ پتا نہیں آپ نے پھر یہ الزام پھر کیسے لگا دیا۔
بلکہ امریکہ عراق میں گھسا ہی اس وجہ سے تھا کہ سعودیہ و عرب ممالک پہلے ہمیشہ صدام حسین کو سپورٹ کرتے رہے اور اسے ایران کے خلاف لڑاتے رہے۔
اور آج بھی آپکے الزام کے برعکس امریکہ کو عراق میں فوجیں برقرار رکھنے پر سفارتی سطح پر شکست ہوئی ہے اور اسکا سہرا وہاں کی جہموری حکومت کے سر ہے، ورنہ انتہا پسند خود کش حملہ آوروں نے تو امریکہ مخالفت کا نعرہ لگا کر پہلے لاکھوں معصوم عراقی بچوں عورتوں و شہریوں کا موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر ملک کو منافرت اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اور یوں جب تک عراق میں خانہ جنگی جاری رہتی، اُس وقت تک امریکہ کو وہاں اپنی فوجیں بسائے رکھنے کا بہانہ ملا رہتا۔
اور بہتر ہو گا عراق کی صورتحال پر ہم نئے تھریڈ میں کھل کر اور تفصیلا گفتگو کریں اور ہو سکتا کہ ہم عراق کی صورتحال سے کوئی سبق سیکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔
///////////////////////////////
باقی بھائی جی، میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں خود کش حملوں کے جو نقصانات اور فتنہ بیان کیا ہے، اور اس روڈ میپ پر چلتے ہوئے انجام کیا ہو گا، اسکا جواب اُن تمام لوگوں پر ادھار ہے جو ابتک طالبانی فتنے کو فساد کی بجائے جہاد کہہ رہے ہیں۔

میرے تجزیے سے خود کش حملوں کا صحیح ہونا کہیں ثابت نہیں ہورہا بلکہ یہ خود کش حملوں کی دفاعی اور نفسیاتی جان کاری ہے آپ نے میری کوئی تحریر نہیں پڑھی اورنہ آپ کو معلوم ہے آپ اس سیاست میں‌ خود کش حملوں کا خاتمہ کیسے ہوگا لازمی پڑہیں اور تازہ اشاعت کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہہیں لازمی پڑہیں دشمن کو بھی سمجنھنے کے لیے زہن کو دشمن کا دوست بنا نا پڑتا ہے اس سے ان کا موقف سمجنھنے میں آسانی رہتی ہے آپ کو ان مزاحمت کاروں سے اللہ واسطے کا بیر ہے وہ لوگ کالم نہیں پڑ ہتے آپ خواہ مخواہ اپنا خون کھولا رہی ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے تجزیے سے خود کش حملوں کا صحیح ہونا کہیں ثابت نہیں ہورہا بلکہ یہ خود کش حملوں کی دفاعی اور نفسیاتی جان کاری ہے آپ نے میری کوئی تحریر نہیں پڑھی اورنہ آپ کو معلوم ہے آپ اس سیاست میں‌ خود کش حملوں کا خاتمہ کیسے ہوگا لازمی پڑہیں اور تازہ اشاعت کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہہیں لازمی پڑہیں دشمن کو بھی سمجنھنے کے لیے زہن کو دشمن کا دوست بنا نا پڑتا ہے اس سے ان کا موقف سمجنھنے میں آسانی رہتی ہے آپ کو ان مزاحمت کاروں سے اللہ واسطے کا بیر ہے وہ لوگ کالم نہیں پڑ ہتے آپ خواہ مخواہ اپنا خون کھولا رہی ہیں

بھائی جی،
آپ سے ایک درخواست کرنا ہے۔ بجائے میری ذات ایسے الزامات لگانے کے میں نے آپ کی تحریریں نہیں پڑھی ہیں، یا مجھ جیسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے عراق میں حکومت قائم کی ہے [بلا بلا بلا] ۔۔۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ صرف موضوع تک محدود رہیں؟

میں دیکھ رہی ہوں کہ پچھلی کئی پوسٹوں سے ٹاپک کے حوالے سے میرے دلائل میں سے کسی کا جواب نہیں دیا جا رہا، بلکہ یہ الٹے سیدھے الزامات شروع ہو گئے ہیں۔

اور میرا کام صرف دلائل سے بات کرنا اور اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ اور یقینی طور پر میں اس غیر ضروری باتوں میں نہیں پھنسوں گی اور ان سے حتی الاممکن حد تک بچتی ہوئے اور نظر انداز کرتی ہوئی آگے بڑھ جاوءں گی۔ انشاء اللہ۔
 

کاشف رفیق

محفلین
حکومت نے ڈاکٹرعافیہ اور انکے بیٹے کی رہائی کیلئے کوششیں تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، بہن فوزیہ

اسلام آباد(ٹی وی رپورٹ) وفاقی حکومت نے ڈاکٹر فوزیہ کو انکی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اوربھانجے کی رہائی کیلئے کوششیں تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسلام آباد میں جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ان کی مشیر داخلہ رحمان ملک، سیکرٹری داخلہ کمال شاہ سمیت وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں حکام نے انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے حکومت کی کوششوں سے آگاہ کیا ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہناتھا کہ وزارت داخلہ نے ان تک صدر آصف علی زرداری کا پیغام بھی پہنچایاہے کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بیٹے کی رہائی کے لئے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے ۔

نوٹ: اس تھریڈ کا عنوان شاید یہ نہیں جس پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ خیال رکھئے، شکریہ۔
 

کاشف رفیق

محفلین
عافیہ کے اہلِ خانہ سےامریکی رابطہ

پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے امریکہ میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں کی بازیابی کے لیے پاکستان میں مقیم ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا ہے۔

کراچی میں مقیم صدیقی خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ہفتے کے روز اسلام آباد میں امریکی سفارتکاروں سے ڈاکٹر عافیہ کے بچوں کی بازیابی کے حوالے سے بات کی۔

تاہم ڈاکٹر فوزیہ نے امریکی سفارتخانے اور کسی امریکی سفارتکار کے ساتھ رابطے سے انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تعینات امریکی پولیٹیکل قونصلر کو دفتر خارجہ طلب کر کے ان سے ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بچوں کی پاکستان واپسی کے حوالے سے باضابطہ استفسار کیا گیا تھا۔

مارچ دو ہزار تین میں جب عافیہ صدیقی کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے تین بچے بھی تھے جن میں سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ایک برس اور بڑے بیٹے کی عمر آٹھ برس تھی۔ ان کی بیٹی کی عمر اس وقت تقریباً تین برس بتائی جاتی ہے۔

صدیقی خاندان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کے کچھ عرصے بعد ان کے چھوٹے بیٹے کے انتقال کی خبر سرکار کی جانب سے دے دی گئی تھی جبکہ باقی دو بچوں میں سے بڑے بیٹے کی افغانستان میں تحویل کی خبر میڈیا کے ذریعے حال ہی میں ان تک پہنچی ہے۔

اس دوران ان کی بیٹی کے بارے میں صرف اس نوعیت کی غیرمصدقہ اطلاعات آتی رہیں کہ وہ افغانستان میں غیرملکی تعاون سے چلنے والے لاوارث بچوں کے مرکز میں موجود ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے طلب کیا اور انہیں مبینہ طور پر افغانستان میں موجود امریکی شہریت کے حامل ان دونوں بچوں کو تلاش کرنے کے بارے میں کوششوں سے آگاہ کیا گیا۔

عافیہ صدیقی کی گمشدگی اور گرفتاری کے بعد سے صدیقی خاندان کے ساتھ امریکہ کی جانب سے یہ پہلا باضابطہ رابطہ ہے تاہم ڈاکٹر فوزیہ کی امریکی سفارتخانے آمد اور اس دوران ہونے والی گفتگو کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

بی بی سی کے استفسار پر امریکی سفارخانے کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس بارے میں تصدیق یا تردید نہیں کریں گے کیونکہ یہ ایک امریکی شہری کی نجی زندگی اور تحفظ کا معاملہ ہے جس کے بارے میں وہ امریکی قانون کے تحت میڈیا کو کوئی بھی اطلاع دینے سے قاصر ہیں۔ :eek:

واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے دونوں بچے امریکی شہری ہیں۔

اسلام آباد میں موجودگی کے دوران ڈاکٹر فوزیہ وزارت داخلہ بھی گئیں جہاں سیکرٹری داخلہ کمال شاہ اور دیگر افسران کے ساتھ ان کی ملاقات میں بھی انہی بچوں کی بازیابی کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ دفتر خارجہ کے ایک افسر نے بھی اسی حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ سے تبادلہ خیال کیا ہے۔

سورس

کتنے قانون پسند ہیں یہ امریکی! :confused:
 

امکانات

محفلین
بھائی جی،
آپ سے ایک درخواست کرنا ہے۔ بجائے میری ذات ایسے الزامات لگانے کے میں نے آپ کی تحریریں نہیں پڑھی ہیں، یا مجھ جیسے لوگوں کی وجہ سے امریکہ نے عراق میں حکومت قائم کی ہے [بلا بلا بلا] ۔۔۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ صرف موضوع تک محدود رہیں؟

میں دیکھ رہی ہوں کہ پچھلی کئی پوسٹوں سے ٹاپک کے حوالے سے میرے دلائل میں سے کسی کا جواب نہیں دیا جا رہا، بلکہ یہ الٹے سیدھے الزامات شروع ہو گئے ہیں۔

اور میرا کام صرف دلائل سے بات کرنا اور اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ اور یقینی طور پر میں اس غیر ضروری باتوں میں نہیں پھنسوں گی اور ان سے حتی الاممکن حد تک بچتی ہوئے اور نظر انداز کرتی ہوئی آگے بڑھ جاوءں گی۔ انشاء اللہ۔
باجی جواب دلائل کا دیا جاتا ہے لمبی چوڑی تقریروں کا نہیں
 

محسن حجازی

محفلین
بس طالبان کو جلد ہی روس اٹھائے گا پھر آپ دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔
دنیا سرد جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ سب امریکی قیادت کی حماقتوں کا نتیجہ ہے۔
اب برفانی ریچھ بھی سرمائی نیند سے جاگ رہا ہے۔
 
یہ پوسٹ شاید اس تھریڈ سے مکمل ہم آہنگی نہ رکھتی ہو تاہم اس پوسٹ کی دو وجوہات ہیں ایک تو محسن کی اوپر کی گئی پوسٹ میں جس خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے اس سے اس پوسٹ کا ایک رشتہ بنتا ہے اور دوسرے اس کالم کے لکھاری خورشید ندیم صاحب کی ذات ہے۔ خورشید احمد ندیم بنیادی طور پر طالبان کے مخالف ہیں امریکا کی طر ف ایک گونہ سا جھکاو رکھتے ہیں معاشرتی روشن خیالی کے حامی ہیں اور غامدی صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے منطقی طرز اسلوب کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں ان کا یہ کالم پڑھیئے اور دیکھئے کہ کبھی کبھی انسان کو اپنے فرقے مسلک کے تعصب سے بلند ہوکر اور تنگنائے ذہن سے نکل کر سوچنا چاہیے یا نہیں (میں کبھی بھی خورشید ندیم کی باتوں سے مکمل طور پر متفق نہیں رہا تاہم ان کا یہ کالم اپنے اندر ایک فکری کشش ضرور رکھتا ہے۔)
امریکی اور پاکستانی قیادت کاذہنی افلاس,,,,تکبیر مسلسل…خورشید ندیم
امریکا اور پا کستان کی سیاسی،عسکری اور فکری قیادت نے جس ذہنی افلاس کا مظاہرہ، بطور ِ خاص پچھلے تیس سال میں کیا ہے،آج ہم اس کے منطقی نتائج کی گرفت میں ہیں۔
9/11کمیشن رپورٹ سے لے کر مو جو دہ انتخابی مہم تک، امریکا کے سیاسی اور علمی حلقوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جس زاویہ ء نظر سے دیکھا ہے،اس میں ایک بنیادی نقص رہا ہے۔جن افراد نے اس نقص کو نما یاں کیا ہے،ان کے نقطہ ٴ نظر کو امریکا کے حکو متی اور رائے سازی کے اداروں میں مر کزی جگہ نہ مل سکی۔اس نقص کا تعلق اس بنیا دی سوال سے ہے کہ امریکا جس دہشت گر دی کو آج اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہا ہے ،اس کے پھیلنے میں خود اس کی اپنی حکمت ِ عملی اور سامراجی عزائم کا کتنا ہا تھ ہے۔
قوت کا فطری مطا لبہ ہے کہ وہ بقا چا ہتی ہے اور افزائش بھی۔جمود قوت کی فطرت میں نہیں۔امریکا اگر واحد عالمی طاقت بنا ہے تو یہ قوت کی اسی نفسیات کا اظہار ہے اور اگر آج وہ اس حیثیت کے دفاع اور اس میں اضا فے کے لیے سر گرم ہے تو اسے بھی خلاف ِ فطرت نہیں سمجھنا چا ئیے۔تا ہم اس مطا لبے کو پورا کر نے کے لیے امریکی قیا دت نے جو حکمت ِ عملی اپنا ئی ہے،اس میں دوباتوں کا لحا ظ نہیں رکھا گیا۔ایک یہ کہ کو ئی قوت تا ریخ میں کبھی اس پر قا در نہیں رہی کہ وہ کا ئنات میں مو جود ترقی و ارتقا کے تمام امکا نات پر قا بض ہو جا ئے۔یہ امکا نات ہمیشہ سب کے لیے ایک جیسے مو جو د رہتے ہیں۔جب یہ مو جو دہیں تو لا زما ًبرو ئے کا ربھی آ ئیں گے اور ان سے استفا دے کا راستہ سب کے لیے یکساں طو ر پر کھلا رہے گا۔اسی اصول کے تحت جرمنی اور بر طا نیہ جیسی قو توں کے ہو تے ہو ئے امریکا اور روس نے اپنی جگہ بنا ئی اور اسی کے اطلاق سے امریکا وا حد عا لمی قوت بنا۔تا ریخ کا سفر یہاں پر تما م نہیں ہوا۔اس نے آگے بڑ ھنا ہے اور وہ بڑ ھ رہا ہے۔9/11 کو گا رڈین میں ٹمو تھی گا رٹن ایش(Timothy Garton Ash)نے 8/8/08 کو بھی تا ریخ کا ایک اہم دن قرا ر دیا ہے۔یہ وہ دن ہے جب روس نے جا رجیا کے دو صوبوں پر قبضہ کیا اور چین میں بیجنگ اولمپکس کا افتتاح ہوا۔ایش کا کہنا ہے کہ روس نے ٹینکوں اور چین نے (Acrobates)کے ذریعے تاریخ کے نئے منظر نا مے میں اپنی مو جو دگی کا احساس دلا یا ہے۔اس کے الفا ظ میں دونوں کا اعلان ہے کہ دنیا والو!ہم واپس آگئے ہیں۔world! we are back. ۔فارن افیئرزکے تازہ شما رے(جون 2008 ) میں کو نسل برا ئے تعلقات ِخا رجہ کے صدررچرڈہارس نے اس مو قف کے حق میں دلائل دیے ہیں کہ اکیسویں صدی میں بین الاقوامی تعلقات کی اصولی خصوصیت(principal characteristic) ایک ایسی دنیا کا تصور ہے جس میں طا قت کے ایک نہیں کئی مرا کز ہوں گے۔ کو ئی اقتصادی قوت کا مر کز ہو گا اور کو ئی عسکری قوت کا۔حا لات میں آنے والی یہ تبدیلی فطری ہے اور اس کو رو کنا کسی کے بس میں نہیں۔اگر امریکی قیا دت اس کا ادراک کر سکتی تو ایک ابھر تی ہو ئی بے قطبی (nonpolar) دنیا میں اپنی محدودبر تر ی کو بر قرار رکھنے کی کو شش کر تی۔ دوسری بات جس کا لحاظ نہیں رکھا گیا وہ تا ریخ کا یہ سبق ہے کہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری ہی سے ایک قوت اپنی طبعی عمر میں اضا فہ کر سکتی ہے۔
امریکی قیا دت نے نہ تو اخلاقی پیما نے کو کو ئی اہمیت دی اور نہ ہی یہ سو چا کہ اس تبد یلی کوکچھ عر صے کے لیے ٹا لا تو جا سکتا ہے لیکن اس سے فرا ر ممکن نہیں۔اس کی فکر ی قیا دت نے ا ختتام ِ تاریخ کا تصور دیا اورسیا سی و عسکری قیا دت نے قوت کے غیرضروری اور غیر اخلا قی استعمال سے اپنی عا لمی حیثیت کو دا ئمی بنا نے کی کو شش کی۔ سو ویت یو نین کے زوا ل کے بعد انہوں نے غا لباً اس امکان کو ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا کہ روس کے تن ِ مر دہ میں پھر سے زند گی نمو دار ہو سکتی ہے۔اس لیے انہوں نے پو لیٹیکل اسلام کوایک ممکنہ خطرہ (potential threat)سمجھتے ہو ئے،ا سے ہدف بنا نے کا فیصلہ کیا جس کا انتہا ئی مظہر القاعدہ کی صورت میں سا منے آیا ۔ ان کا خیا ل تھا کہ خو د مسلما نوں میں ایک محدود حلقہ اثر رکھنے والی اس سوچ کو وہ قوت کے غیر اخلا قی استعما ل سے ختم کر دیں گے۔ا ن کا یہ تجزیہ تو درست تھا کہ اس سوچ کو عالم ِ اسلام میں محدود پزیرا ئی حا صل ہے لیکن وہ یہ نہ جا ن سکے کہ طا قت کا غیر اخلا قی استعما ل جس نفرت کو جنم دے گا ،وہ القا عدہ کی با لوا سطہ قوت بن جا ئے گی۔میرے نزدیک روس اور چین کا عا لمی منظر پر ابھر نا طاقت کی اس فطرت کا ظہو ر ہے جس کی گوا ہی انسا ن کی پو ری تاریخ دے رہی ہے اور القا عدہ کا ظہو ر امریکا کی طرف سے طاقت کے غیر اخلا قی استعمال کا رد ِ عمل ہے۔امریکا نے دو نوں باتو ں کا ادراک نہیں کیاا ورآج اسے پا ک افغان سر حد پر دونوں غلطیوں کے نتا ئج کا ایک ساتھ سامنا ہے۔
پا کستا ن کا معا ملہ یہ ہے کہ9/11 کے بعد اس کی سیا سی وعسکری قیا دت نے بنیا دی فیصلہ بر وقت اور صحیح کیا۔افغا نستا ن پر امر یکی حملے کے بعد جب القا عدہ کے ذ مہ دا ران نے پا کستا نی علا قوں کو اپنی سر گر میوں کا مر کز بنا لیا تواس کے بعد یہ جنگ پاکستان کی جنگ تھی۔یہ پا کستان کا انتخاب نہیں ،حالات کا جبر تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ جو لوگ افغانستا ن میں امریکاکی جنگ کو پا کستا ن کی جنگ سمجھتے ہیں ،انہیں آج اس پر اعتراض ہے کہ دہشت گر دی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ کیوں کہا جا تا ہے۔
ہما ری قیا دت نے اس باب میں تین غلطیاں کیں۔ایک تو یہ کہ جن جنگجوؤں نے پاکستان کو میدان ِ جنگ بنا کر اسے عا لمی قو توں کی چرا ہ گا ہ بنا دیا ،ہما ری مذ ہبی و صحا فتی قیا دت اوراسٹیبلیشمنٹ کے ایک مو ثر حصے نے ان کی حما یت کی اور اس کے نتیجے میں آج یہ قوم قاتل سے محبت کے نفسیا تی عا رضے میں مبتلا ہو چکی ہے۔ جس طرح امریکی قیادت یہ سمجھنے سے معذور ثابت ہو ئی کہ دہشت گر دی اس کی طرف سے طا قت کے غیراخلاقی استعمال کا رد ِعمل ہے ،اسی طرح ہما ری سیا سی، مذ ہبی اور علمی قیا دت یہ جا ننے سے قا صر رہی کہ پا کستان کے مسا ئل کی بنیادی وجہ وہ عا لمی جنگجو ہیں جنہوں نے امریکا کے خلاف جنگ کے لیے پا کستا ن کو اپنا مر کز بنا یا ہے۔ہما ری قیا دت کی دوسری غلطی یہ تھی کہ وہ طالبان کے کا رڈ کو صحیح طو ر پر استعمال نہیں کر سکی۔اس میں اب کو ئی ابہا م نہیں کہ طا لبا ن افغان ہونے کے با وجود پا کستان کی پیدا وارتھے۔جنرل پر ویز مشرف امریکا کو یہ با ور کر انے کی کو شش کر تے رہے کہ وہ طا لبان اور القا عدہ میں فرق کرے لیکن ہما ری قیا دت طا لبان کو یہ سمجھانے میں کامیا ب نہ ہو سکی کہ وہ القا عدہ اور اپنی جدو جہد ِ آ زادی میں فرق کرے۔ اسی طرح وہ طا لبان سے یہ بھی نہ منوا سکی کہ وہ پاکستان کی مجبو ریوں اور اس کے مفا دات کا لحا ظ رکھیں۔اس نا کامی کا آ غاز اس دن ہو گیا تھا جب طالبان نے پا کستان کے کہنے پراسامہ بن لا دن کو امریکا کے حوالے کر نے سے انکا ر کر دیا تھا۔ اگر وہ اس پراصولی طو رپر آما دہ ہو تے تواسامہ پر بین الاقوا می عدالت میں مقد مہ چلا نے کا مطا لبہ منو ایاجا سکتا تھا ۔ میرا تا ثر ہے کہ اس کے نتیجے میں اسا مہ محفوظ ہو تے اور افغانستان، عراق اور پا کستان کے ہزاروں بے گناہ موت کی وادی میں اتر نے سے بچ جا تے۔تیسری غلطی ہما ری سیاسی و عسکری قیا دت نے یہ کی کہ سٹریٹیجک گہرائی(strategic depth) کے فرسووہ تصور کوبدستور اختیا ر کیے رکھا حالانکہ حالات اب اس کے لیے کسی طرح ساز گا ر نہیں رہے تھے۔ یہ خیال اس دور کی پیدا وار ہے جب سوویت فو جوں کے خلاف پاکستان افغانستان میں لڑ رہا تھا اور حالات پر اس کی گرفت تھی ۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ صورت حال بدل چکی۔
اس تبدیلی کے بعد افغانستان میں صرف طالبان واحد قوت ہیں جنہیں پاکستان کا حامی کہا جا سکتا تھا۔اس کی قیا دت کا مسئلہ یہ ہوا کہ وہ القاعدہ کے زیر ِ اثرتھی اور اس کی آ ئیڈیا لو جی کو قبول کر چکی تھی۔عا لمی حالا ت ایسے ہو چکے تھے کہ پا کستان کھل کے طالبان کی حما یت نہیں کر سکتا تھا۔بایں ہمہ طالبان بھی کئی گروہوں میں بٹ چکے تھے اوران کے اپنے اپنے مرا کز ِ قوت تھے۔ان تبدیلیوں کا ادراک نہ کیا گیا اورسٹریٹیجگ گہرائی کے تصور ہی کو را ہنما اصول ما نا گیا ۔اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ امریکا اور اس کے اتحا دیوں میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے با رے میں بداعتما دی پیدا ہو نے لگی۔اس کا اظہا ر امریکی اور مغربی میڈ یا ایک عرصے سے کر رہا تھا۔ امریکی انتظا میہ نے بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں اسے مو ضوع بنا یا۔اس سب کچھ کے باوجود ان تبدیلیوں کا ادراک نہ کیا گیا اور قدیم پا لیسی کا تسلسل بر قرار رہا۔اس کا آ خری نتیجہ وہ امریکی حملے ہیں جنہوں نے صورت حال کو گھمبیر بنا دیا ہے۔
آج اگر امریکی اور پا کستانی قیا دتیں اپنی بنیا دی غلطیوں کا ادراک نہیں کر تیں تو امریکی حملے جلتی پر تیل کا کام کر یں گے۔امریکا کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور پا کستان پہلے ہی میدان ِ جنگ بنا ہوا ہے۔ ان حملوں سے امریکا کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اب اس سے مستفید ہو نے والی قوت صرف القاعدہ نہیں، روس اور ایران بھی ہوں گے۔پا کستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت اس صورت ِحال سے فائدہ اٹھا نے کے لیے پو ری طرح متحرک ہے۔فاٹا میں اس کی موجودگی کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ ان حالات میں یہ ممکنات میں سے ہے کہ تاریخ اسی میدان ِ جنگ میں امریکا کے لیے وہ منظر دہرادے جو سوویت یونین کی تا ریخ کا سب سے المناک باب ہے۔رہا پا کستان تو اس کے با رے میں میرا قلم کوئی پیش گو ئی کر نے پر آما دہ نہیں۔کیا ہما رے نئے صدر امریکا اور بر طانیہ کے ساتھ پاکستان کے مقتدر اور رائے ساز حلقوں کوہوش کے ناخن لینے پر آمادہ کر سکیں گے؟اس سوال کے جواب پر بہت سے لو گوں کے اقتدار اور زندگیوں کا انحصار ہے۔اللہ پاکستان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=304474
 

محسن حجازی

محفلین
قوت کا فطری مطا لبہ ہے کہ وہ بقا چا ہتی ہے اور افزائش بھی۔جمود قوت کی فطرت میں نہیں۔امریکا اگر واحد عالمی طاقت بنا ہے تو یہ قوت کی اسی نفسیات کا اظہار ہے اور اگر آج وہ اس حیثیت کے دفاع اور اس میں اضا فے کے لیے سر گرم ہے تو اسے بھی خلاف ِ فطرت نہیں سمجھنا چا ئیے۔تا ہم اس مطا لبے کو پورا کر نے کے لیے امریکی قیا دت نے جو حکمت ِ عملی اپنا ئی ہے،اس میں دوباتوں کا لحا ظ نہیں رکھا گیا۔ایک یہ کہ کو ئی قوت تا ریخ میں کبھی اس پر قا در نہیں رہی کہ وہ کا ئنات میں مو جود ترقی و ارتقا کے تمام امکا نات پر قا بض ہو جا ئے۔یہ امکا نات ہمیشہ سب کے لیے ایک جیسے مو جو د رہتے ہیں۔جب یہ مو جو دہیں تو لا زما ًبرو ئے کا ربھی آ ئیں گے اور ان سے استفا دے کا راستہ سب کے لیے یکساں طو ر پر کھلا رہے گا۔اسی اصول کے تحت جرمنی اور بر طا نیہ جیسی قو توں کے ہو تے ہو ئے امریکا اور روس نے اپنی جگہ بنا ئی اور اسی کے اطلاق سے امریکا وا حد عا لمی قوت بنا۔تا ریخ کا سفر یہاں پر تما م نہیں ہوا۔اس نے آگے بڑ ھنا ہے اور وہ بڑ ھ رہا ہے

بیشتر مراسلوں میں اسی نفس مضمون کو قدرے مختلف الفاظ میں بیان کر چکا ہوں کہ فقط ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ وہ سادہ سی حقیقت ہے جسے امریکی قیادت سمجھنے سے قاصر رہی اور بدلتے حالات کا ادارک کرتے ہوئے نئی راہوں کا تعین کرنے کے بجائے ہر مسئلے کو کیل اور ہتھوڑی کو حل سمجھتے ہوئے سست روی سے خودکشی کی جانب گامزن رہی۔ جنگوں میں تو بڑے بڑے قارون بھی خزانے خالی کر بیٹھتے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ آج کی سب سے بڑی خبر ایک امریکی بینک کے دیوالیہ ہونے کی ہے۔
امریکہ کو انیس سو بیس کے بعد بد ترین بحران کا سامنا ہے۔
امریکہ کا ایک اور بڑا بینک بیٹھ گیا

اس جنگ نے صرف امریکی اخلاقیات کا ہی نہیں بلکہ اقتصادیات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ ظاہر ہے جب امریکی حکمران طاقت کے نشے میں چور دوسری سلطنتوں پر نہ صرف فوج کشی کریں گے بلکہ بعد میں پوری کی پوری ریاست کا خرچ بھی امریکی عوام کے پیسے سے اٹھائيں گے تو یہ نوبت تو آئے گی۔
افغانستان میں امریکی فوج 'بھوت ملازمین' پر انگشت بدنداں رہ گئی جو کہ محض کاغذوں پر تھے اصل میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔
 

امکانات

محفلین
[QUOTE=ابن حسن;337303]ی۔
پا کستا ن کا معا ملہ یہ ہے کہ9/11 کے بعد اس کی سیا سی وعسکری قیا دت نے بنیا دی فیصلہ بر وقت اور صحیح کیا۔افغا نستا ن پر امر یکی حملے کے بعد جب القا عدہ کے ذ مہ دا ران نے پا کستا نی علا قوں کو اپنی سر گر میوں کا مر الاقوا می عدالت میں مقد مہ چلا نے کا مطا لبہ منو ایاجا سکتا تھا ۔ میرا تا ثر ہے کہ اس کے نتیجے میں اسا مہ محفوظ ہو تے اور افغانستان، عراق اور پا کستان کے ہزاروں بے گناہ موت کی وادی میں اتر نے سے بچ جا تے۔تیسری غلطی ہما ری سیاسی و عسکری قیا دت نے یہ کی کہ سٹریٹیجک گہرائی(strategic depth) کے فرسووہ تصور کوبدستور اختیا ر کیے رکھا حالانکہ حالات اب اس کے لیے کسی طرح ساز گا ر نہیں رہے تھے۔ یہ خیال اس دور کی پیدا وار ہے جب سوویت فو جوں کے خلاف پاکستان افغانستان میں لڑ رہا تھا اور حالات پر اس کی گرفت تھی ۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ صورت حال بدل چکی
۔
خورشید ندیم صاحب کا یہ تجزیہ نا قابل فہم ہے کہ اگر اسامہ پر طالبان بین لاقوامی عدالت میں مقدمہ چلواتے تو افغانستان اور عراق تباہی سے بچ سکتے تھے عراق اور افغانستان کی تباہی ایک ٹھوس حقیقت ہے اسے عالمی عدالت انصاف کے اسامہ کی حوالگی سے بچایا جانا ایک خیال ہے اور خیال کو حقیقت پر غالب نہیں‌ کیا جاسکتا اگر امیریکی نظر میں اسامہ کی گرفتاری عراق اورافغانستان پر قبضے سے زیادہ اہم ہوتی تو امریکی پہلے اسامہ کو گرفتار کر تے جتنے وسائل امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کر نے پرصرف کیے ہیں ان سے ہزاروں اسامہ پکڑے جا سکتے تھے لہذا اسامہ کی گرفتاری کے مفروضے سے عراق اور افغانستان کو تباہی سے بچایا نہیں جا سکتا تھا اسامہ ایک بھانہ تھا امریکہ طالبان سے پہلے ہی تنگ تھا ہے اور رہے گا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے بہت سے سوال ايسے ہیں جس کا جواب اس ليے نہيں ديا جا سکتا کيونکہ يہ کيس عدالت ميں ہے اور اس حوالے سے قانونی طور پر کچھ حقائق ظاہر نہيں کيے جا سکتے۔ يہاں پر ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ قانونی پابندی اس کيس سے وابسطہ تمام فريقين پر ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈاکٹر عافيہ کے بيٹے کی پاکستان آمد اور اس کے بعد ان کی بہن کی ميڈيا سے گفتگو کی ويڈيو ديکھيں تو آپ پر واضح ہو گا کہ انھوں نے بھی دانستہ بہت سے سوالوں کا براہراست جواب دينے سے گريز کيا۔

http://pkpolitics.com/2008/09/15/dr-afia-siddiquis-son-release/

بدقسمتی سے ميڈيا پر کچھ عناصر اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر دانستہ بے بنياد افواہيں پھيلا کر جذبات بھڑکا رہے ہیں۔

ابھی تک جو تصديق شدہ حقائق ہم جانتے ہيں اس کے مطابق ڈاکٹر عافيہ قيدی نمبر 650 نہيں تھيں اور کسی بھی موقع پر ان کے بچے امريکی تحويل ميں نہيں تھے۔ کچھ ايسی خبريں بھی ميڈيا پر آئ ہيں جس کے مطابق کچھ پاکستانی حکام نے ڈاکٹر عافيہ کی گرفتاری کے عوض بھاری معاوضہ وصول کيا تھا۔ اس حوالے سے بھی يہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کی گرفتاری کے عوض کوئ معاوضہ کسی بھی اہلکار کو نہيں ديا گيا۔ ايف – بی – آئ کی ويب سائٹ پر ان کے متعلق جو اشتہار دیاگيا تھا اس ميں ان پر کوئ چارج نہيں لگايا گيا تھا بلکہ يہی درج تھا کہ ايف – بی – آئ ان سے بعض معاملات پر پوچھ کچھ کرنا چاہتی ہے۔

اس کيس کے حوالے سے بار بار يہ الزام لگايا جا رہا ہے کہ امريکی حکومت جان بوجھ کر حقائق چھپا رہی ہے۔ يہ بات حقيقت کے بالکل منافی ہے۔ يہ ايک قانونی مقدمہ ہے جس کی تمام تر کاروائ اور نتائج عوام کے سامنے آئيں گے۔ يہ سوال غور طلب ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے اس کيس کے حوالے سے دانستہ غلط خبريں کيوں رپورٹ کی جا رہی ہيں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مورخہ 30 اکتوبر کو جيو ٹی وی کے پروگرام کيپيٹل ٹاک ميں برطانوی صحافی ايوان رڈلی کے ڈاکٹر عافيہ صديقی کے ضمن ميں دی جانے والی تازہ معلومات اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی ايشو کے بارے ميں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے يہ ضروری ہے کہ عمومی تاثر اور مخصوص سوچ اور سياسی ايجنڈے سے ہٹ کر حقائق کی تحقيق کرنی چاہيے۔

http://www.friendskorner.com/forum/f137/capital-talk-30th-october-2008-a-76508/

ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے سلسلے ميں مختلف اردو فورمز،ميڈيا ٹاک شوز اور اخباری کالمز میں جن شديد جذبات کا اظہار کيا جاتا رہا ہے اس کی بنياد يہ مفروضہ اور يقين تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی ہی قيدی نمبر 650 ہيں اور وہ سال 2003 سے افغانستان کے بگرام ائربيس ميں امريکی مظالم کا شکار ہیں۔ اب يہی برطانوی صحافی ايوان ريڈلی جنھوں نے اس ميڈيا مہم کا آغاز کيا تھا يہ تسليم کر چکی ہيں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ يہاں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھوں نے اپنے ابتدائ کلمات ميں خود يہ کہا ہے کہ ان کے بيان کو بنياد بنا کر ميڈيا نے ازخود يہ نتيجہ اخذ کيا تھا کہ وہ قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں۔ دوسرے لفظوں ميں اس بات کا کوئ ثبوت يا دستاویزی شہادت موجود نہيں تھی جس کی بنياد پر يہ دعوی کيا جا سکتا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی بگرام ائربيس ميں قيد تھيں ليکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کی تصوير کے اوپر قيدی نمبر 650 کا ليبل لگا کر کتابيں اور طويل جذباتی نظميں تک لکھ ڈاليں۔ يہ بات تسليم کرنے کے باوجود کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں، پروگرام کے شرکا نے بغير ثبوت کے مزيد بے بنياد الزامات کی ايک لسٹ پيش کر دی۔

اس کيس کے حوالے سے ميرا شروع سے يہ موقف رہا ہے کہ محض ميڈيا پر بغير ثبوت اور شہادتوں کے زير بحث افواہوں اور قياس آرائيوں کی بنياد پر رائے زنی دانشمندی نہيں ہے۔ اس واقعے کے ميڈيا پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کر کے يہ تصديق کی تھی کہ نہ تو ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 تھيں اور نہ ہی وہ سال 2003 سے امريکی حراست ميں تھيں۔

اسی تھريڈ پر ميں نے 13 اگست کو اپنی پوسٹ (پوسٹ نمبر 91) ميں لکھا تھا کہ

"ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ميڈیا پر مختلف رپورٹوں کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں"۔

ڈاکٹر عافيہ صديقی کا کيس اس وقت امريکی عدالت ميں زير سماعت ہے اور انھيں اپنی کہانی سنانے کا پورا موقع ملے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
Top