امریکہ بہادر

محسن حجازی

محفلین
اسلام و علیکم!
میرا فواد صاحب سے سوال ہے کہ یہ کیا ہے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml

دوسرا سوال یہ ہے کہ بی بی سی بھی پروپیگنڈا کرنے والوں میں شامل ہو گيا ہے؟

رپورٹ میں ایک برطانوی صحافی وون ریڈلے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس نے اس خاتون کو ’جیل میں قید ایک بھوت‘ سے تشبیہ دی ہے جس کی کوئی شناخت نہیں ہے لیکن اسکی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں جو انہیں ایک بار سننے کا تجربہ کر چکے ہوں۔

میں کافی عرصے سے خاموش ہوں لیکن اس خبر نے میرا پارہ چڑھا دیا ہے۔

اگر میں اس ملک کا حکمران ہوتا تو اس خبر کے بعد یا تو ڈاکٹر عافیہ طلب کرتا یا تمام امریکیوں کو دس دن میں نکال باہر پھینکتا بمعہ کاروبار۔
اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی غیرت مند قوم یہی کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس میں القاعدہ کے ساتھ ہونے نہ ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں نہ یہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔

چینیوں نے تو ایک جاسوسی طیارہ پکڑ لیا تھا بعد میں پرزے پرزے کر کے واپس کیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
محسن بھائی یہ تو وہ قیدی ہے جس کا معلوم ہو گیا، جن کے متعلق کچھ علم ہی نہیں، اُسے کیا کہیں گے؟
 

سعود الحسن

محفلین
اسلام و علیکم!

اگر میں اس ملک کا حکمران ہوتا تو اس خبر کے بعد یا تو ڈاکٹر عافیہ طلب کرتا یا تمام امریکیوں کو دس دن میں نکال باہر پھینکتا بمعہ کاروبار۔
اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی غیرت مند قوم یہی کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس میں القاعدہ کے ساتھ ہونے نہ ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں نہ یہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔

محسن صاحب ایسا کرنے کی ہمت رکھنے والا ہمارا حکمران بننے ہی نیہں دیا جاے گا۔ آخر انھوں نے ہمارے ملک میں اتنے پٹھو اویں تو نہیں پال رکھے-

جہاں تک معاملہ رہ گیا غیرت مند قوم کا تو اس کے لیے پہلے ہمیں ایک قوم بننا ہوگا۔ ورنہ تو

ابتداے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سعود بھائی اور ملکوں میں تو ایک ہی قوم ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو ماشاء چار پانچ قومیں آباد ہیں، پنجابی ہے، پٹھان ہے، بلوچی ہے، سندھی ہے، ابھی مزید بھی بننے کو تیار ہیں۔ آپ ایک کی بات کر رہے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
محسن بھائی نا جانے کتنے پاکستانی قیدی گوانتانامو بے جیسی تشدد زدہ جیلوں میں قید ہیں، انکا کیا کریں؟
 

شمشاد

لائبریرین
جو پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں ان کا تو کچھ کر نہیں سکتے، وہاں کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
 

باسم

محفلین
زیک کے دیے گئے ربط پر اپیل ضرور کرسکتے ہیں
شکریہ زیک
aafia Siddiqui Is One Of The War On Terror’s “disappeared.” I Have Spent Six Months Reading About Her, And Trying To Write A Poem. It Is Difficult Not To Sound Shrill, Or Obsessed. My Unwieldy Poem, Like The Articles And Letters I Read, Is Less About Her, Than It Is About The Writer's Fascinations. Primary Among These Fascinations Is The Underlying Question – How Can Someone Just Disappear?

My Shortest And Simplest Answer, All I Know Really, Is That It Is Easy To Be Disappeared. It Is Easy For A State To Disappear A Person, Easy For The Us State In Its All-encompassing War. Membership In A Social Elite, An Economically Privileged Life, A Prestigious Education, These Have Not Proven To Be Protection. Neither Has Us Citizenship.

I Read About Torture Too Much. I Reread My Files And Aafia Siddiqui’s Dissertation Abstract. I Wonder About What I Am Not Reading. Where, For Example, Are The Letters To Us Papers, Asking About The Disappeared? Where Is Our Public Outrage? I Did Not Find One Letter To A Us Paper, In My Admittedly Limited Internet Research, Inquiring As To The Whereabouts Of Our Fellow Citizen Aafia Siddiqui​
.

aafia Siddiqui: Another Person Disappeared In The War On Terror​


By Cullen Goldblatt

Published On: January 01, 2007​
 
اسلام و علیکم!
میرا فواد صاحب سے سوال ہے کہ یہ کیا ہے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml

دوسرا سوال یہ ہے کہ بی بی سی بھی پروپیگنڈا کرنے والوں میں شامل ہو گيا ہے؟



میں کافی عرصے سے خاموش ہوں لیکن اس خبر نے میرا پارہ چڑھا دیا ہے۔

اگر میں اس ملک کا حکمران ہوتا تو اس خبر کے بعد یا تو ڈاکٹر عافیہ طلب کرتا یا تمام امریکیوں کو دس دن میں نکال باہر پھینکتا بمعہ کاروبار۔
اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی غیرت مند قوم یہی کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس میں القاعدہ کے ساتھ ہونے نہ ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں نہ یہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔

چینیوں نے تو ایک جاسوسی طیارہ پکڑ لیا تھا بعد میں پرزے پرزے کر کے واپس کیا تھا۔



ہمارے سروں پر بیٹھے بے غیرت اور نامرادوں سے کچھ توقع مت ركهو

معذرت ميں ايسی زبان استعمال كر رہا ہوں

:(
 

خاور بلال

محفلین
صاحبو! امریکہ کو کیوں برا کہتے ہیں۔ اپنے آپ کو برا کہیے، اپنے والدین کو برا کہیے کہ کیوں ایسی قوم میں پیدا ہوگئے۔ بلکہ ایک کام کریں 1948 سے لیکر 1950 کی پاکستانی تاریخ کھنگالیے، اسکے پرنٹ آؤٹ لے کر دیواروں پر ٹانگیے صبح شام آتے جاتے اس پر نظر ڈال کر اپنے آپ کو اور اپنی تاریخ کو کوسیے، زیادہ جنون چڑھے تو اپنا سر دیوار سے پٹک پٹک کر زندگی کا ہی خاتمہ کر ڈالیے آخر ایک فالتو کم ہوجائے گا تو کیا فرق پڑجائیگا، انسان تو امریکی ہوتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
1948 - 1950 میں پاکستان کے امریکی سے ''ناجائز'' تعلقات شروع ہو گئے تھے۔ جسکا ثمر ہم 2008 میں بھی کھا رہے ہیں۔
 
کیا وہ عافیہ صدیقی ہے؟,,,,نقش خیال…عرفان صدیقی جنگ 27۔7۔2008
برطانوی خاتون صحافی، ریڈلی نے جب ہفتہ بھر پہلے خبر دی کہ امریکیوں کے زیر کمان، افغانستان میں بگرام کے ہوائی اڈے پرقائم، عقوبت خانے میں ایک پاکستانی خاتون گزشتہ چار سال سے بند ہے تو میرے دل پہ ایک خنجر سا چلا۔اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا…بگرام کے بندی خانے میں وہ تنہا خاتون ہے۔ اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رات کے پچھلے پہر جب اس کی درد ناک چیخیں بلند ہوتی ہیں تو قیدیوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ وہ بگرام کے عقوبت خانے کا بھوت بن چکی ہے۔ ایسا کبھی کسی مغربی خاتون کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ وہ یقیناً کوئی پاکستانی خاتون ہے۔ پاکستان کو اس کا پتہ چلانا چاہئے۔
مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرا دل چیر کر ایک دہکتا انگارہ اس کے اندر رکھ دیا ہو۔ میرا ذھن کوئی پندرہ سال پیچھے پلٹ گیا جب پریوں جیسے چہرے والی ایک خوبرو لڑکی، جس کی شکل میری بیٹی سے بہت ملتی تھی، سر پہ اسکارف لپیٹے ادب و احترام کی تصویر بنی میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ پاکیزگی کے نور میں گندھا تھا اور اس کی آنکھیں مشرقی حیا کے تقدس سے جھلک رہی تھیں۔ تب وہ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی اور غالباً مذاہب کے تقابلی جائزے پر ایک مقالہ لکھ رہی تھی۔ اس کی ماں عصمت صدیقی نے ایک دوست کے توسط سے اسے راہنمائی کے لئے میرے پاس بھیجا تھا۔ وہ بلا کی ذہین، علم کی طلب اور جستجو کی تڑپ رکھنے والی لڑکی تھی۔ اس عمر میں بھی وہ آزادانہ تجزیئے اور جانچ پرکھ کا قرینہ سیکھ چکی تھی۔ میری اس سے تین چار ملاقاتیں ہوئی اور پر وہ اپنی یونیورسٹی لوٹ گئی۔ اس کی والدہ کراچی میں تھیں جن کے ذریعے اس کی خیر خبر ملتی رہتی تھی۔ بوسٹن یونیورسٹی اور میسی چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (mit) کے برمرحلہ تعلیم میں اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ امتیازی اعزاز کے ساتھ نیورولوجی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ اس کی ہرکامیابی پر اس کی والدہ مجھے فون کرتیں اور ہربار ایک جملہ ضرور کہتیں، عافیہ آپ کو سلام کہہ رہی تھی۔“
پھر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر امجد خان سے اس کی شادی ہوگئی۔ وہ وہی کہیں ملازمت کرنے لگی۔ بچے ہوئے اور پھر امریکہ کی مصروف زندگی نے اسے نگل لیا۔ نائن الیون کے بعد وہ پاکستان آئی۔ پھر امریکہ چلی گئی۔ 2003ء میں پھر آئی۔ اس دوران کوئی روک ٹوک نہ ہوئی۔ پھر یکایک ایف بی آئی پر انکشاف ہوا کہ عافیہ تو القاعدہ کی بہت بڑی آپریٹر ہے۔ الزامات کا طومار باندھا گیا۔ اسے باضابطہ ”مطلوب دہشت گرد“ قرار دے دیا گیا۔ اس کی تصویر مبینہ دہشت گردوں کی البم میں سجا دی گئی۔ اس تصویر کے چہرے پر بھی فرشتوں کے پروں جیسا اجلا پن کھلا ہے اور اس کی آنکھوں میں عفت مآب بیٹی جیسی پاکیزگی کے دیے جل رہے ہیں۔ اس نے اسی طرح سفید رنگ اسکارف لپیٹ رکھا ہے جیسا وہ نو عمری میں لیا کرتی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے اتنے ڈھیر سارے مردوں کے ہجوم میں اس کی تصویر بھی حیا کی حدت سے سلگ رہی ہے۔ تفصیل کے خانے میں لکھا ہے۔
نام
ڈاکٹر عافیہ صدیقی
تاریخ پیدائش
2/مارچ 1972
مقام
کراچی (پاکستان)
قد
پانچ فٹ چار انچ
وزن
110 پاؤنڈ
بال
براؤن
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے سرکی کتنی قیمت لگائی گئی تھی۔ یقیناً بہت بھاری ہوگی کہ فرعونوں کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے سر بڑے قیمتی ہوتے ہیں۔ کوڑیوں کے مول تو وہ کھوپڑیاں ملتی ہیں جو جابروں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتی ہیں۔
عافیہ 2003 میں پاکستان آئی۔ 30/مارچ ، کو جب پھول کھلنے کی رت جوبن پر تھی، وہ اپنے پھول سے بچوں کے ہمراہ اپنی ماں کے گھر سے ایک ٹیکسی پر سوار ہوئی۔ اسے اپنے چچا سے ملنے اسلام آباد آنا تھا اور وہ کراچی ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پکڑنا چاہتی تھی۔ گھر سے اسٹیشن تک کے سفر کے دوران وہ لاپتہ ہوگئی۔ چند دن بعد ایک پر اسرار شخص چمڑے کی جیکٹ پہنے، سر پر سرخ ہیلمٹ رکھے، موٹر سائیکل پر سوار آیا۔ اس نے عافیہ کی غمزدہ ماں سے کہا۔ ”گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عافیہ بچوں سمیت محفوظ ہے۔ اگر آپ اپنی بیٹی اور نواسوں کی صورت دیکھنا چاہتی ہیں تو اپنی زبان بند رکھیں اور اس بات کو مسئلہ نہ بنائیں۔ ”ماں نے زبان تو بند رکھی لیکن وہ اس بے کلی کا کیا کرتی جس نے اسے دہکتے الاؤ میں جھونک دیا تھا۔ وہ بیٹی کو ڈھونڈنے امریکہ جاپہنچی اور تیس کروڑ انسانوں کے سمندر میں اپنے جگر کا ننھا منا سا ٹکڑا تلاش کرنے لگی۔ عافیہ کو ملنا تھا نہ ملی۔ ماں گھر لوٹ آئی اور انتظار کا دیاجلا کر دہلیز پر بیٹھ گئی۔ میں نے جب کبھی فون کیا، وہ بولی ”تمہیں کیا بتاؤں؟… کچھ پتہ نہیں چل رہا… جانے وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے۔ اس کے بچے کہاں ہیں…؟“ پھر اس کی آواز گہرے پانیوں میں ڈوب جاتی اور کافی دیر بعد ابھرتی ہے۔ اب کے اس کی گفتگو میں لفظ کم اور سسکیاں زیادہ ہوتی ہیں اور جب وہ اپنے ناتواں جسم کی ساری توانائیاں سمیٹ کر تقریباً چیختے ہوئے کہتی ہے…“ پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہے یا نہیں…“ تو میراہاتھ کپکپانے لگتا ہے اور میں ریسیور کریڈل پر رکھ دیتا ہوں۔
جس دن عافیہ اسلام آباد آنے کے لئے گھر سے نکلی، تینوں بیٹے اس کے ساتھ تھے۔ ایک کی عمر سات سال، ایک کی پانچ سال اور ایک کی صرف چھ ماہ تھی۔معلوم نہیں یہ بچے اب کہاں اور کس کے پاس ہیں۔ کیا خبر وہ بھی گلابی گالوں شہابی آنکھوں اور سنہری بالوں والی افغان بچیوں کی طرح امریکی بازاروں میں نیلام ہوچکے ہوں؟ 2003ء میں ہی عافیہ کی بہن فوزیہ کو وزیر داخلہ فیصلہ صالح حیات نے بتایا تھا کہ آپ کی بہن ٹھیک ٹھاک ہے اور بہت جلد گھر پہنچ جائے گی۔ اب کوئی کچھ بتانے والا نہیں۔ 2005ء میں بگرام جیل سے فرار ہونے والے چار قیدیوں نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا تھا کہ ہم اکثر کسی عورت کی اندوہناک چیخیں سنتے تھے جیسے اسے سخت اذیت دی جا رہی ہو لیکن ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ ”حقوق انسانی کی معروف تنظیم ایشین ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بگرام عقوبت خانے کی قیدی نمبر650، ممکنہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے پناہ اذیتوں کے باعث خاتون ذہنی توازن کھو چکی ہے اور بیشتر وقت چیخ و پکار کرتی رہتی ہے۔“ ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ اسے مسلسل جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔میں نے ابھی ابھی عافیہ کی ماں کو فون کرنے کی کوشش کی۔ کئی گھنٹیوں بعد کسی نے فون اٹھایا لیکن کسی بات سے پہلے ہی بند ہوگیا۔ میں نے دوبارہ کوشش کرنا چاہی تو خود میرا فون خاموش ہوچکا تھا۔ میں نے پرانی ڈائری سے عافی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کا موبائل نمبر نکالا اور فون کیا… سیل پر نعت رسول کے استار چل رہے تھے:
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں، بے سہارا نہیں
کسی نے فون نہ سنا۔ کسی سے میری بات نہ ہوسکی۔ اچھا ہی ہوا ورنہ میں کیا پوچھتا اور کیا بتاتا؟ اگر قیدی نمبر 650 عافیہ ہی ہے تو یہ بھی اچھا ہوا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ ورنہ وہ ابوغریب والی فاطمہ کی طرح ہمیں خط لکھ بھیجتی تو ہم کیا کرتے؟ اسے کیسے سمجھاتے کہ بیٹی! ہم تو خود ”وار آن ٹیرر“ کے دست و بازو ہیں؟ اسے کیونکر بتاتے کہ ہم نے خود، ماؤں کے لخت جگر کئی کئی سالوں سے غائب کر رکھے ہیں؟ اسے کیسے بتاتے کہ ہم نے تو ڈالروں کے عوض بردہ فروشی کی ہے اور گوانتانامو کاچڑیا گھر بسایا ہے؟ اسے کس طرح سمجھاتے کہ جس دیو کے خلاف وہ ہماری مدد چاہتی ہے، ہم تو خود اس کے غلام ہیں؟ اسے کیونکر باور کراتے کہ ہمارے وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کی کامیابی کے لئے اس ایشو پر مٹی ڈالنا وسیع تر قومی مفاد میں ہے؟ اسے کیونکر یقین دلاتے کہ ہم سوا کروڑ، راکھ کا ڈھیر ہیں اور وہ کسی چنگاری کی آرزو میں اس راکھ کو نہ کریدے؟
بگرام جیل میں عافیہ کی موجودگی کی خبر دینے والی برطانوی صحافی ریڈلی بھی ایک بار طالبان کی قید میں چلی گئی تھی۔ اپنی کتاب میں گیارہ روزہ قید کی روداد لکھتے ہوئے وہ بتاتی ہے کہ ”طالبان اسے بہن سمجھتے تھے اسے پہلے کھانا کھلانے کے بعد خود کھاتے تھے۔ ان کی خواتین اس کے کپڑے دھوتی تھیں…“ ریڈلی طالبان کے سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہوچکی ہے۔ امریکیوں کی قید میں پڑی عافیہ اور طالبان کی قیدی بننے والی ریڈلی کی کہانیاں بتا رہی ہیں کہ دراصل دہشت گرد، اجڈ گنوار، بے ڈھب، انتہا پسند، خونخوار اور آدم خور کون ہے۔
اگر عافیہ واقعی ذہنی توازن کھو چکی ہے تو ہم سوا کروڑ پاکستانیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسے کچھ یاد نہیں ہوگا۔ وہ محمد بن قاسم والی کہانی بھی بھول چکی ہوگی لیکن عافیہ کا شجرہ نسب تو محمد عربی کے رفیق خاص سید نا ابو بکر صدیق سے جاملتا ہے۔ اگر روز محشر اس نے نبی کریم اور صدیق اکبر کے روبرو ہماری شکایت کردی تو ہمارا کیا بنے گا؟
 
اوریا مقبول جان ....روزنامہ ایکسپریس..... 27.7.2008
1100452535-2.gif
 

arifkarim

معطل
زیک ایف بی آئی سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہے۔ آخر ہم امیریکن پراپیگینڈا دیکھنا ترک کیوں نہیں‌ کر دیتے؟
 

محسن حجازی

محفلین
ہمارے سروں پر بیٹھے بے غیرت اور نامرادوں سے کچھ توقع مت ركهو

معذرت ميں ايسی زبان استعمال كر رہا ہوں

:(

ایسی ہی زبان استعمال کرنی چاہئے۔۔۔۔
آخر پھر ایسی زبان کا مصرف ہی کیا ہے۔۔۔
میں بس ذرا انتظار کر رہا ہوں کہ جواب تو آئے۔۔۔۔
 

کاشف رفیق

محفلین
گمنام قبریں۔۔۔۔۔قلم کمان …حامد میر

معظم بیگ کو افغانستان کی بگرام جیل سے نکلے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں لیکن اس جیل میں راتوں کو گونجنے والی چیخوں نے ابھی تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ معظم بیگ نے بگرام جیل میں تقریباً ایک سال گزارا جس کے بعد اسے گوانتا ناموبے جیل بھجوادیا گیا۔ گوانتا ناموبے جیل میں وہ اکثر ان چیخوں کے بارے میں سوچتا تھا جو اسے بگرام جیل میں سنائی دیتی تھیں۔ یہ درد ناک چیخیں کسی عورت کی ہوتی تھیں جس پر تشدد کیا جاتا تو وہ اپنے اللہ کو پکارتی تھی اور جب تشدد حد سے بڑھتا تو اس کی چیخوں میں موجود کرب اور اذیت معظم بیگ کو اندر سے ہلا دیتی۔ صرف ایک معظم بیگ نہیں بلکہ کچھ دیگر افراد نے بھی تصدیق کی ہے کہ 2003ء سے 2006ء کے دوران بگرام جیل میں وہ رات کو کسی عورت کی چیخیں سنا کرتے تھے۔ اس جیل سے رہائی پانے والے قیدیوں کا کہنا ہے کہ اس عورت کو قیدی نمبر 650 کہا جاتا تھا اور اسے مردوں کے باتھ روم استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ گزشتہ دنوں بعض اخبارات نے دعویٰ کیا کہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 دراصل ایک پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی 30مارچ 2003ء کو کراچی سے اپنے تین بچوں سمیت اغواء ہوگئی تھیں۔ تیس سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ایک بہن فوزیہ صدیقی نے اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے ملاقات کی تھی اور اپنی بہن کی بازیابی کے لئے فریاد کی۔ وزیر داخلہ نے متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد فوزیہ صدیقی کو بتایا کہ آپ کی بہن بہت جلد آپ کے پاس ہوگی لیکن پانچ سال گزرچکے ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت غائب ہیں۔ 23 جون 2003 کو امریکی جریدے نیوز ویک نے لکھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق القاعدہ سے تھا اور اسے پاکستانی اداروں نے حراست میں لیکر امریکا کے حوالے کیا لیکن آج تک پاکستان یا امریکا کی حکومتوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی، کابل میں ایک افغان تاجر کاکہنا ہے کہ ان کا ایک دوست کافی عرصہ تک بگرام جیل میں قیدیوں کے کھانے پینے کا سامان سپلائی کرتا رہا، کبھی کبھی اسے جیل کے عملے سے بات چیت کے دوران ایسی خبر ملتیں جنہیں سن کر وہ غمزدہ ہوجاتا، اس نے بھی تصدیق کی کہ جیل میں ایک پاگل عورت موجود ہے ۔ وہ بتایا کرتا تھا کہ جیل میں قیدیوں پر بہت اذیت ناک تشدد کیا جاتا اور جب کبھی کوئی قیدی تشدد کی تاب نہ لاکر زندگی کی بازی ہار دیتا تو جیل کا عملہ رات کی تاریکی میں بگرام کے قریب ایک قبرستان میں خاموشی کے ساتھ مردہ قیدی کو دفن کردیتا۔ اس قبرستان میں گمنام قبروں کی تعداد میں اضافہ ہونے پر مقامی آبادی میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو جیل کے عملے نے ایک قریبی پہاڑی کے دامن میں نیا قبرستان تلاش کرلیا۔ بگرام جیل میں کھانے پینے کی اشیاء سپلائی کرنے والے اس افغان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تک قیدی عورت زندہ تھی لیکن کافی دنوں سے اس کی کوئی خبر نہیں۔ بگرام جیل میں اس عورت کی چیخوں کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔

معلوم نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ ہے یا کسی گمنام قبر میں دفن ہوچکی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اگر وہ معظم بیگ کی طرح برطانوی شہری ہوتی تو اب تک برطانوی پارلیمنٹ زمین و آسمان ایک کرچکی ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کسی برطانوی عدالت میں پیش کیا جاچکا ہوتا اور اب تک وہ معظم بیگ کی طرح رہا بھی ہوچکی ہوتی۔ افسوس کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں کسی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی پاکستانی اخبارات میں خبریں شائع ہورہی ہیں کہ بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آبروریزی کی جارہی ہے۔ نیٹو کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ نیٹو پچھلے پانچ سال کے دوران بگرام جیل میں وقت گزارنے والے ہر قیدی نمبر 650 کی تفصیل سامنے لائے۔ اس سے بھی زیادہ اہم ذمہ داری فیصل صالح حیات کی ہے جو اب قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔

وہ قومی اسمبلی کو بتائیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کس نے غائب کیا تھا اور پھر کس کے حوالے کیا گیا۔ اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک گمنام قیدی بن چکی ہے اوراب اسے یاد کرنے والا کوئی نہیں تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گمنام قیدیوں کو گمنام قبروں میں اتار کر وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لیں گے تو وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ”رٹ آف دی اسٹیٹ“ قائم کرنے کے لئے ایک ملٹری ایکشن کیا گیا، ہزاروں بنگالیوں کو گمنام اجتماعی قبروں میں دفن کرکے سمجھ لیا گیا کہ ” رٹ آف دی اسٹیٹ“ قائم ہوگئی لیکن کچھ عرصے میں اسٹیٹ ٹوٹ گئی۔ اب ایک دفعہ پھر کچھ لبرل فاشسٹ ”رٹ آف دی اسٹیٹ“ قائم کرنے کے لئے پختونوں کے علاقوں میں ملٹری ایکشن کا مطالبہ کررہے ہیں ان لبرل فاشسٹوں کا خیال ہے کہ چند سو انتہا پسند مذہبی جنونیوں کو گمنام قبروں میں اتار کر ایک روشن خیال پاکستان قائم ہوجائے گا۔ یہ لبرل فاشسٹ بھول گئے کہ پچھلے سال جولائی 2007 میں بھی انہوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لئے اسلام آباد کی لال مسجد میں ایک ملٹری ایکشن کیا تھا اس ملٹری ایکشن کے بعد اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں ساٹھ سے زائد گمنام قبروں نے جنم لیا ان گمنام قبروں سے درجنوں گمنام خودکش بمبار پیدا ہوئے، اکثر خودکش بمباروں نے بھی لبرل فاشسٹوں کی طرح بڑی تعداد میں بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ عام مسلمانوں کی بڑی تعداد ان دنوں لبرل فاشسٹوں اور مذہبی انتہا پسندوں میں جاری جنگ کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔

لبرل فاشسٹ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی عورتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیاکیونکہ یہ حجاب لیتی ہیں اور نمازیں پڑھتی ہیں ہم جیسے گناہ گار مسلمان جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ظلم پر آواز بلند کرتے ہیں تو لبرل فاشسٹ ہمیں القاعدہ اور طالبان کے ایجنٹ کہتے ہیں، جب کچھ انتہا پسند اپنی کارروائیوں میں بے گناہ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ہم اس نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں تو ہمیں ان کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی دراصل لبرل فاشسٹوں کے ظلم و ستم کارد عمل ہے، لبرل فاشسٹوں نے گمنام قبریں پیدا کرکے بند نہ کیں تو مذہبی انتہا پسند گمنام خودکش بمبار پیدا کرنے سے بازنہ آئیں گے اگر ہم واقعی ایک آزاد اور خود مختار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طورپر امریکا سے دفاعی امداد کے نام پر اربوں ڈالر کی رقم لینے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے کیونکہ یہی وہ رقم ہے جس کی وجہ سے امریکا ہمیں اپنے ہی لوگوں پر بمباری کے لئے مجبور کرتا ہے اور جب ہم اپنے لوگوں پر بمباری کرتے ہیں تو پھر گمنام قبریں جنم لیتی ہیں جب گمنام قبریں جنم لیتی ہیں تو گمنام خودکش بمبار پیدا ہوتے ہیں غیر کو خوش کرنے کے لئے اپنوں کی گمنام قبریں بنانے کا سلسلہ بند ہوجائے تو پاکستان میں امن قائم کرنا مشکل نہیں۔

روزنامہ جنگ، مورخہ 28 جولائی 2008
 
Top