امریکہ بہادر

تیلے شاہ

محفلین
اسلام و علیکم!
میرا فواد صاحب سے سوال ہے کہ یہ کیا ہے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml

دوسرا سوال یہ ہے کہ بی بی سی بھی پروپیگنڈا کرنے والوں میں شامل ہو گيا ہے؟



میں کافی عرصے سے خاموش ہوں لیکن اس خبر نے میرا پارہ چڑھا دیا ہے۔

اگر میں اس ملک کا حکمران ہوتا تو اس خبر کے بعد یا تو ڈاکٹر عافیہ طلب کرتا یا تمام امریکیوں کو دس دن میں نکال باہر پھینکتا بمعہ کاروبار۔
اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی غیرت مند قوم یہی کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس میں القاعدہ کے ساتھ ہونے نہ ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں نہ یہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔

چینیوں نے تو ایک جاسوسی طیارہ پکڑ لیا تھا بعد میں پرزے پرزے کر کے واپس کیا تھا۔

بھائی صاب اسی لیے تو ہماری طرف ان کو ذبح کرنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
سعود بھائی اور ملکوں میں تو ایک ہی قوم ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو ماشاء چار پانچ قومیں آباد ہیں، پنجابی ہے، پٹھان ہے، بلوچی ہے، سندھی ہے، ابھی مزید بھی بننے کو تیار ہیں۔ آپ ایک کی بات کر رہے ہیں۔
صرف چار پانچ ؟ شمشاد بھائی آپ یقینا کسر نفسی سے کام لے رہیں وگرنہ ہمارے ہاں تو ہر محلے میں کئی کئی قومیں آباد ہیں ۔ ۔ ۔ :grin:
 

کاشف رفیق

محفلین
قیدی نمبر 650 عافیہ صدیقی۔۔۔۔۔۔آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

دردناک چیخوں کی آواز سے وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا پہلے تو وہ ان چیخوں کو محض ایک خواب سمجھا پھر اسے احساس ہوا کہ ان چیخوں کی صدا ایک حقیقت ہے یہ چیخیں کسی خاتون کی تھیں۔ اُسے ان چیخوں میں نہایت کرب اور اذیت کا احساس ہوا۔ ان چیخوں میں نہ جانے ایسی کیا خاص بات تھی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و تشدد کو بھول گیا اور ان چیخوں کے متعلق سوچتے ہوئے اس نے رات گزار دی ۔ دوسرے دن جیل میں دوسرے قیدیوں نے بھی ان چیخوں کے سننے کی تصدیق کی۔ شروع شروع میں وہ یہ سمجھا کہ امریکی فوجی اس کے اعصاب کو کمزور کرنے کے لئے شاید اس کی بیوی پر تشدد کررہے ہیں لیکن بعد میں اسے یہ علم ہوا کہ وہ کوئی اور بد نصیب خاتون ہے جس پر امریکی ظلم ڈھارہے تھے۔

معظم بیگ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ کے زیرِ کمان افغانستان میں بگرام ایئربیس میں قائم جیل میں قید امریکیوں کے تشدد کا شکار تھا اس کو فروری 2002میں اسلام آباد سے گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا ۔ وہاں اپنی ایک سالہ قید کے دوران اس مظلوم خاتون کی چیخ و پکار روز کا معمول بن گئی تھی ۔ جیل میں مامور امریکی سیکورٹی اہلکار اس مردانہ جیل میں کسی عورت کی جیل میں موجودگی سے انکار کرتے رہے۔ ایک سال بعد اسے یہاں سے بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل منتقل کردیا گیا مگر یہاں بھی اس مظلوم عورت کی چیخیں اس کا تعاقب کرتی رہیں معظم بیگ کو جرم ثابت نہ ہونے پر 2005ء میں رہا کردیا گیا۔امریکیوں کے انسانیت سوز مظالم جو اس نے دوران قید بگرام اور گوانتا ناموبے جیل میں جھیلے ، دیکھے اور محسوس کئے ان تجربات پر رہائی کے بعد اس نے ایک کتاب"Enemy Combatant"کے نام سے لکھی ۔ اس کتاب میں امریکی فوجیوں کے سفاکانہ ، ظالمانہ، بے رحمانہ اور وحشیانہ چہرے کو بے نقاب کیا ۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ گوانتا ناموبے اور بگرام ایئربیس میں قید مسلمان قیدیوں پر ہونے والے مظالم کاپتہ چلا ۔ اس کتاب میں اس نے بگرام کے عقوبت خانے میں موجود اس تنہا خاتون اور اس کی درناک چیخوں کا بھی ذکر کیا ۔ اس کتاب کی اشاعت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

معروف برطانوی نو مسلم خاتون صحافی ایوان رڈلی جو سنڈے ایکسپریس کی چیف رپورٹر بھی رہ چکی تھی نے اس کتاب میں اس خاتون کے متعلق پڑھا اور اپنے صحافیانہ تجسس سے مجبور ہوکر اس عورت کے متعلق تفتیش شروع کی ۔جس کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ بگرام ایئربیس میں مردوں کی جیل میں قیدی نمبر 650دراصل پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے اور اُن کے نام کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر انہیں قیدی نمبر 650 پکارا جاتاہے۔ بعد میں ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر قید خانے میں ڈاکٹر عافیہ کے شب و روز کی ہولناک تصویر کشی کی ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بگرام ایئربیس میں ڈاکٹر عافیہ پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل ذہنی،جسمانی اور جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا رہا ہے اور اسے نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں۔ایک پردے دار خاتون جو اسکارف اُوڑھتی تھی اس کی شرم و حیا کو مذاق کا نشانہ بنانے کے لئے یہ حیا سوز حرکت کی گئی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق اس انکشاف نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔مجھے احساس ہوا کہ جیسے عافیہ صدیقی نہیں میری اپنی بہن چیخ چیخ کر مجھ سے کہہ رہی ہو کہ بھائی اگر تم نے اپنے قلم کے ذریعے مجھ پر ہونے والے ظلم و ستم کو دنیا پر آشکار نہیں کیا تو قیامت کے دن میں تمہارا گریباں پکڑوں گی کیونکہ میری والدہ کی وفات کے بعد اب اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ۔کیا دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں میں کوئی محمد بن قاسم نہیں جو مجھ مظلوم کی آہ وبکا کو سن سکے۔کیا مسلمانوں میں کوئی معتصم باللہ نہیں جو ایک مظلوم مسلمان بیٹی کو ظالموں کے چنگل سے چھڑا سکے اور میں نے تہیہ کیا کہ میں اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف آوازاٹھاؤں گا ۔

تیس سالہ عافیہ صدیقی نے امریکہ کے معروف تعلیمی ادارے سے امتیازی اعزاز کے ساتھ تعلیم حاصل کی انہوں نے نیورولوجی میں پی ایچ ڈی کی ۔ 9/11کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں اپنی والدہ اور تین بچوں کے ساتھ جن میں سب سے بڑے کی عمر 4سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ تھی رہائش پذیر ہوئیں ۔30مارچ 2003ء کو انہوں نے کراچی ایئر پورٹ جانے کے لئے ایک میٹرو کیب ٹیکسی منگوائی تاکہ اپنے بچوں کے ساتھ اسلام آباد کی فلائٹ میں سوار ہوسکیں مگر وہ ایئر پورٹ نہ پہنچ سکیں اور اس کے بعد نہ ان کا اور ان کے ہمراہ ان کے معصوم بچوں کا کوئی پتہ چل سکا عافیہ کی گمشدگی کے چند دنوں بعد امریکی نیوز چینل این بی سی نے ایک چھوٹی سی خبر نشر کی کہ عافیہ کاالقاعدہ سے تعلق کے الزام میں پاکستانی ایجنسیوں نے گرفتار کرکے امریکی ایف بی آئی کے حوالے کیا ہے ۔بعد کی رپورٹوں کے مطابق امریکی ایف بی آئی نے انہیں افغانستان میں بگرام ایئربیس جیل میں منتقل کردیا جہاں اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے جس سے وہ اپناذہنی توازن کھو بیٹھی۔ امریکیوں کو یہ شک تھا کہ عافیہ کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی بیٹی کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی انتہائی شائستہ ،سلجھی ہوئی، تعلیم یافتہ،سر کو اسکارف سے ڈھانپنے والی صوم و صلوٰة کی پابند تھی جس کا القاعدہ کی سرگرمیوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ عافیہ کی ضعیف ماں اپنی بیٹی کی بازیابی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی مگر کہیں بھی اس بوڑھی ماں کی شنوائی نہ ہوئی اور آخر کار بیٹی کے صدمے نے اس کی جان لے لی۔

عافیہ کی اس دردناک کہانی سے متاثر ہوکر میں نے یہ تہیہ کیا کہ میں اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاؤں گا میں نے امریکی صدر بش ، صدر کرزئی اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی ،آصف زرداری اور رحمن ملک کو خطوط تحریر کئے جس میں ان سے عافیہ کی بازیابی کا مطالبہ کیا میں نے اس سلسلے میں امریکہ اور افغانستان کے سفارت کاروں سے بھی ملاقات کا وقت مانگا ہے تاکہ عافیہ کی بازیابی کے لئے ان کا تعاون حاصل کیا جائے ۔عافیہ کی بازیابی کا جو بیڑا میں نے اُٹھایا ہے اس میں مجھے ایک بار پھر اپنے قارئین کے تعاون کی ضرورت ہے ایسا تعاون جیسا آپ نے مجھ سے جنرل جے ہڈ کی پاکستان میں تعیناتی کے خلاف کیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی حکومت کو ان کی تعیناتی کے احکامات واپس لیناپڑے۔ قارئین اگر آپ بھی عافیہ کی بازیابی اور اس پر ہونے والے ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اُٹھانا چاہتے ہیں تو میں نے اس سلسلے میں اپنی ویب سائٹ میں ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے جس پر جاکر قارئین اپنا نام انٹر کرنے پر پروگرام میں موجود اپیل آپ کے نام سے مذکورہ سربراہان کو موصول ہوگی ۔

میری ویبEmail: ishtiaq.baig@yahoo.comاور ویب سائٹwww.ishtiaqbaig.com
لوگ اب تک صرف یہی سمجھتے رہے کہ مشرف حکومت نے سیکڑوں مردوں کو القاعدہ سے تعلق کے الزام میں امریکہ کے حوالے کیا جہاں یہ لوگ گوانتا ناموبے جیل میں موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں اور لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ ہمارے حکمران کس مٹی سے بنے ہیں جنہوں نے قوم کی بیٹی کو امریکی درندوں کے حوالے کردیا ہے جو اسے جسمانی تشدد کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور کسی میں یہ جرأت نہیں کہ وہ قوم کی بیٹی پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرسکے۔قیدی نمبر 650کی کہانی اس آئس برگ کی نظر آنے والی چوٹی کی مانند ہے جس سے آئس برگ کی جسامت کا اندازہ نہیں ہوتا نہ جانے کتنی اور عافیہ امریکی جیلوں میں زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔صدر لغاری کے دورِ حکومت میں ان کے آبائی علاقے سے یوسف رمزی کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا جسے امریکہ لے جاکر امریکیوں نے رمضان المبارک میں جمعة الوداع کے دن زہر کا انجکشن دے کر ہلاک کردیا ۔ ایک امریکی صحافی نے اپنے ایک سینیٹر سے یہ سوال کیا کہ یہ سب کس طرح ممکن ہوا سینیٹر نے مسکرا کر جواب دیا پاکستانی قوم 20ہزار ڈالر کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ سکتی ہے۔ہمارے حکمرانوں نے قوم کی بیٹی کو بیچ کر امریکی سینیٹر کے قول کو سچ ثابت کردکھایا۔

روزنامہ جنگ مورخہ 31 جولائی 2008
 

کاشف رفیق

محفلین
16_05.gif
 

خاور بلال

محفلین
اب اگر عافیہ صدیقی کو عدالت میں پیش کردیں‌گے تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوجائیں گے؟ کیا اس کی عصمت واپس آجائیگی اور ذہنی توازن درست ہوجائے گا؟ انصاف تو اب یہ ہے کہ ان درندوں کو لٹکایا جائے جنہوں نے یہ کام کیا ہے یعنی وہ تمام امریکی اور پاکستانی حکام اور اہلکار جو اس کام میں‌ملوث ہیں سمیت فیصل صالح‌حیات کے۔
 

کاشف رفیق

محفلین
اسی بارے میں کچھ پرانی خبریں:
Surprisingly there has been no official report registered with the police about Afia’s disappearance which explains why Afia’s mother wanted to avoid going public. The police, meanwhile, is doing nothing to trace Afia. “We have no knowledge about this case nor has anyone contacted me,” said Sindh police chief, Syed Kamal Shah. Ismat Siddiqui, however, claims that she has spoken to high police officials, including Shah, about her daughter’s disappearance. A week after the incident, Mrs. Siddiqui alleges that an intelligence agency official came to her house and warned her not to make an issue out of her daughter’s disappearance and threatened her with dire consequences.​
سورس

Months later, the FBI would make its most devastating claim against Siddiqui. It was still dark on the morning of March 1, 2003, when Pakistani authorities arrested Khalid Sheikh Mohammed, a known September 11 mastermind, at a Karachi safe house. The arrest made news around the world. It also presaged the extraordinary vanishing act of AafiaSiddiqui and her three small children.” It seems Khalid Sheikh Mohammed gave up Aafia’s name as being a major Al Qaeda operative.” However, one of her defenders saysSiddiqui ’s identity was likely stolen. “Aafia was, I think, probably a pretty naive and trusting person and my guess is it would be pretty easy for somebody who wanted to steal an identity to just steal it.” About a month after his capture in the spring of 2003, she disappeared.

The question is where is Afia and why are police and intelligence agencies silent? Is she in the custody of the FBI or the ISI? Another possibility is that Afia might have been kidnapped by her ex-husband, who may have links with Al-Qaeda. Whatever the case, there seems to be a deliberate attempt to hush up the mysterious circumstances behind Afia Siddiqui’s disappearance​
سورس

ACTION ALERT


1. Sign Asian Human Rights Commission’s Urgent letter of Appeal which will send an email to Bush, Karzai, Gilani, Farooq Naek & Rehman Malik
2. Sign the online petition for her release
3. Join Facebook groups to participate in digital activism to raise awareness here and here
4. Spread the word by email & SMS to all your contacts so as to create more pressure
سورس
 

باسم

محفلین
’ڈاکٹر عافیہ امریکہ کی تحویل میں


بالآخر اعتراف کرتے ہی بنی کہ ہم نے قید کررکھا ہے اور ڈھٹائی دیکھیے اعلان پھر بھی لگا رکھا ہے:
’ڈاکٹر عافیہ امریکہ کی تحویل میں‘
امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی نے تصدیق کی ہے کہ پانچ برس قبل کراچی سے لاپتہ ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ ہیں اور افغانستان میں ایک امریکی قید خانے میں موجود ہیں۔
یہ بات صدیقی خاندان کی امریکی وکیل نے پاکستانی صحافیوں کو بھیجی گئی ایک ای میل میں بتائی ہے۔
ایلنے وہائٹ فیلڈ نے اپنی ای میل میں انکشاف کیا ہے کہ جمعرات کے روز ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ ہیوسٹن میں مقیم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بھائی کے گھر گیا اور انہیں بتایا کہ انکی بہن افغانستان میں قائم ایک امریکی قید خانے میں زخمی حالت میں موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے جب ایک وکیل نے ڈاکٹر عافیہ کی بازیابی کے لئے اپنے طور پر اسلام آْباد کی ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو اسکے بعد بھی بعص نامعلوم افراد کی جانب سے صدیقی خاندان کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں جس میں انہیں مقدمہ واپس لینے کا کہا گیا تھا۔
 

محسن حجازی

محفلین
ترجمان صاحب یہاں پر کئی بار تشریف لا چکے ہیں لیکن شاید ان کے پاس بھی کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اب ہم تو بقول جون ایلیا چیخ چیخ کر گلا چھیل چکے۔۔۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
حضور حل یہی ہے کہ اپنی استطاعت میں کام ٹھیک کیا جائے وہ کیا ہے کہ انہیں سٹھیائے ہوئے امریکیوں میں ایک عظیم انسان بھی ہوا تھا اسی کا قول ہے کہ:
Whatever you are, be a good one

تو بس ہم جو ہیں اسی میں بہتری کی کوشش بھی جہاد میں داخل ہے۔

مزید پیش رفت یہ رہی:
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080805_aafiya_arrest_fz.shtml
 

ملائکہ

محفلین
میں نے آج جیو نیوز پر یہ خبر دیکھی کہ ڈاکڑ عافیہ کو امریکہ میں بھیج دیا گیا ہے اور وہاں انکا کیس چلے گا
 

خاور بلال

محفلین
پہلے اس کو زندہ درگور کردیا اب کیس چلاکر آفیشل طور پر مجرم ثابت کریں گے، اس سے عافیہ کو کیا فرق پڑے گا؟ وہ بہت پہلے ہی ختم ہوچکی تھی جب اس کی عزت تار تار ہوئ، جب اسے غیر انسانی ہتھکنڈوں سے ٹارچر کیا گیا اسی وقت۔
 

اظہرالحق

محفلین
امرتا پریتم کا ایک شعر یاد آتا ہے ۔ ۔ ۔

اک دھی روئی سی پنجاب دی ، تو لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں (لاکھوں) دھیاں روندیاں نے ، کنہوں وارث شاہ کہن

اور ویسے تو ہر روز ہمارے دیس میں غیرت کے نام پر قتل کئے جاتے ہیں ، اب اگر اس قوم میں کوئی نہ اٹھا تو پھر ہم سب ۔ ۔ ۔ بے غیرت ہونگے ۔ ۔ ۔ سچ مچ کے بے غیرت ۔ ۔ ۔
 

کاشف رفیق

محفلین
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں
کراچی ... امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں امریکا کے حوالے کی جانے والی پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کو کراچی میں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔کراچی میں مقیم عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے زبان بند نہ کی یا عافیہ کے مقدمے کی پیروی کی تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہاکہ عافیہ صدیقی کی زندگی کو شدید خطرہ ہے،ان پرلگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں ،5 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک امریکاان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ میری بہن کو پانچ برس سے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عافیہ کی امریکا منتقلی کی خبر سے ہمیں دھچکا لگا ہے ،ہم پچھلے پانچ برسوں سے عافیہ اور اس کے بچے کو تلاش کر رہے ہیں۔فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے بہت جلد نیوز کانفرنس میں تفصیلات بتائیں گی۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے 18 جولائی کو امریکی فوج کے دو افسروں اور ایک ترجمان پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں عافیہ صدیقی کو بند کیا گیا تھا۔امریکی حکام کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ایک امریکی فوجی کی رائفل سے دوفا ئر کئے لیکن امریکی فوج ان کی فائرنگ سے محفوظ رہے ،تاہم امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی زخمی ہو گئیں۔امریکی حکام کے مطابق انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو غزنی میں گورنر کمپاؤنڈ کے سامنے گرفتار کیا گیا تھااور ان کے قبضے سے بم بنانے کی ہدایات اور دھماکا خیزمواد سے بھری بوتلیں برآمد کی تھیں۔۔

سورس

ظلم در ظلم! :eek::confused:
 

غازی عثمان

محفلین
کیا محفل کے وہ واحد رکن جن کوتنخواہ اس بات کی ملتی ہے کہ وہ فورم پر رکن بنیں ۔ اس بات کا جواب دینگے کہ جس کمرہ میں محترمہ عافیہ احمد قید تھیں اس میں انہیں رائفل کس نے پہچائی۔ کیا امریکی خفیہ جیلوں میں موجود قیدیوں کو امریکی سرکار رائفلیں بھی فراہم کرتی ہے کہ جب کوئی انٹیروگیشن کے لئے آئے تو اس پر دو گولیاں ایسے چلاؤ کہ انہیں لگے بھی لیکن ان کی جوابی فائرنگ سے قیدی ضرور زخمی ہو جائے ۔

امید ہے آپ جواب نہیں دیں گے ایسے جواب دینے سے ہوسکتا ہے آپ کی تنخواہ کاٹ لی جائے۔
 
Top