امریکہ بہادر

پروپیگنڈا لگتا ہے۔ یہ تو حاضر سروس جنرل کا کام ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا ان کے شکار کامعاوضہ نہیں‌لے سکتا
 

کاشف رفیق

محفلین
عافیہ سے پاکستانی حکام کی ملاقات

امریکی حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں پر افغانستان میں مبینہ قاتلانہ حملے کے الزام میں نیویارک کی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل میں پاکستانی سفارتکاروں نے ملاقات کی ہے۔

یہ بات نیویارک میں عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے مقامی میڈیا کو بتائی ہے۔ الزبتھ فنک نے بتایا ہے کہ سنیچر کی صبح وہ نیویارک کے بروکلین ڈیٹنشن سنٹر میں قید ڈاکٹر عافیہ سے نیویارک میں پاکستانی نائب قونصل جنرل ثاقب رؤف اور واشنگٹن سے آنے والے ایک پاکستانی سفارتکار کی ملاقات کے دوران موجود تھیں۔

مکمل رپورٹ
 

ساجداقبال

محفلین
ہمارے امریکہ دوست وہاں انسانی حقوق کی کافی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں کیوں خاموش ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ کو مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غضب خدا کا ایک گولی لگی خاتون کو ابھی تک فزیشن کو نہیں دکھایا۔۔۔۔بہانہ یہ کہ وہ مرد طبیب کو دکھانا نہیں چاہتیں(گو پاکستانی قونصلر نے ملاقات کے بعد اس بات سے انکار کیا ہے)۔ اور کیا پورے نیویارک میں کوئی خاتون فزیشن دستیاب نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی یہ کہہ دیں گے کہ خاتون فزیشن تو ہے لیکن مسلمان نہیں اور وہ مسلمان فزیشن کو ہی دکھانا چاہتی ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
اس سانحہ کے حوالے سے مختلف اخبارات میں بہت سے کالم لکھے گئے اور میری خواہش تھی کہ ان سب کو مرتب کرتا لیکن افسوس صد افسوس میری بدبختی کہ میں اپنی مصروفیات کے باعث یہ نہیں کر پا رہا۔ اگر کسی اور دوست کو توفیق ہو تو ضرور انہیں جمع کر دے۔
 

کاشف رفیق

محفلین
اسی تھریڈ ‌میں کئی کالم جمع کئے گئے ہیں۔ میرے خیال میں بی بی سی کے تو تمام ہی شامل ہیں اور روزنامہ جنگ کے بھی کئی شیئر کئے گئے ہیں۔ باقی اخباروں میں سے بھی چند موجود ہیں۔ اس سانحہ کے حوالے سے تمام اخبارات کے کالم تو شاید وہی مرتب کرسکتے ہیں جن کے پاس روزانہ تمام اخبار آتے ہیں یعنی پبلک ریلیشن آفسیر ٹائپ بندے۔
 

کاشف رفیق

محفلین
عافیہ کی عدالت میں دوسری پیشی

پیر کو امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی دوسری پیشی اور دوسرا دن تھا۔ انہیں علی الصبح عدالت میں ویل چیئر پر بٹھا کر لایا گیا جہاں ڈاکٹر عافیہ سے ان کے وکیلوں اور امریکہ میں رہنے والے ان کے ایک بھائی نے ملاقات کی۔

ڈاکٹر عافیہ کریم کلر کے سکارف اور گہرے نیلے رنگ کی قمیض میں ملبوس تھیں۔

اس موقع پر عدالت کی عمارت کی اندر اور باہر فٹ پاتھ پر پاکستانی اور مقامی امریکی مرد و عورتوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کے خلاف امریکی حکومت کی طرف سے مبینہ دہشتگردی سے تعلق کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر موجود ان لوگوں میں پاکستان میں وکلاء کی تحریک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ایک اور وکیل اطہر من اللہ اور پاکستان کےقائم مقام قونصل جنرل ثاقب رؤف کے علاوہ شہری اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور پاکستانی نژاد امریکی شہری بھی شامل تھے۔

مزید پڑھئے۔

ڈاکٹر عافیہ کیلیے لاہور میں مظاہرہ

امریکہ میں زیر حراست ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان واپسی کے لیے لاہور کے گورنر ہاؤس کے سامنے طلبہ و طالبات سمیت مختلف سول سوسائٹی کے اراکین نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

مظاہرین نے پاکستانی پرچم اور رنگ برنگے احتجاجی پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک پر درج تھا کہ ’امریکی مافیا ریلیز عافیہ‘۔

ایک طالبہ نے ڈاکٹر عافیہ کی تصویر اٹھا رکھی تھی جس پر لکھا کہ ’قوم کی بیٹی کتنے میں بیچی‘ اور ایک بچے نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر سوال درج تھا کہ کیا ان کا بے بی بھی دہشت گرد تھا؟۔

زیادہ تر نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل مظاہرین تقریباً ایک گھنٹے تک نعرے لگاتے رہے۔ ایک سو سے زائد ان مظاہرین میں سٹوڈننٹس ایکشن کمیٹی کے اراکین آگے آگے رہے۔

مزید پڑھئے۔
 
اس معاملے کی خبر پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ تو ائس برگ کا ایک ابھرا ٹکڑا ہے۔
ہائے ہائے۔خدا غارت کرے ان فوجی ایجنسیوں و حکومتی کارندوں‌کو جنھوں‌نے مسلمانوں‌کو پکڑ پکڑ کر دشمنوں کے حوالے کیا ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ صديقی کے حوالے سے جس غم وغصے کا اظہار کيا جا رہا ہے اس کی بنياد يہ يقين ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی ہی قيدی نمبر 650 تھيں اور انھيں افغانستان کے بگرام ائربيس پر پانچ سال تک تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔

ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ميڈیا پر مختلف رپورٹوں کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں۔

اس کے علاوہ ميڈیا رپورٹس کے برعکس ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ گرفتار ہونے والا کم سن لڑکا اس وقت امريکی تحويل ميں نہيں ہے۔

يہ کيس اس وقت عدالت ميں ہے اور بہت جلد تمام حقائق سب کے سامنے آ جائيں گے۔ محض قياس آرائيوں کی بنياد پر غم وغصے کا اظہار دانشمندی نہيں ہے۔

ميں آخر میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی قانون کے تحت جب تک ڈاکٹر عافيہ پر کوئ جرم ثابت نہيں ہو جاتا انھيں بے گناہ تصور کيا جائے گا۔ انھيں ايک آزاد ،منصفانہ اور عوامی عدالتی کارواي کے ذريعے اپنی اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دينے کا پورا موقع فراہم کيا جائے گا ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

کاشف رفیق

محفلین
ڈاکٹر عافیہ کا جیل میں طبی معائنہ

منگل کی شام بوسٹن سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایلین وٹفیلڈ شارپ نے بتایا کہ دو گھنٹہ قبل انہیں ڈاکٹر عافیہ کے طبی معائنے کی رپورٹ موصول ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نیویارک کے جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا طبی معائنہ، عدالت کے حکم کے مطابق، ڈاکٹروں نے کیا اور مزید معائنے کے لیے ڈاکٹروں نے انکا سی ٹی سکین کروانے کا کہا ہے۔ سی ٹی اسکین میں ، وکیل ایلین شارپ کے مطابق‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے زخموں کی گہرائي کا جائزہ لیں گے۔

مزید پڑھئے۔
 

خاور بلال

محفلین
ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کئ برس پرانا واقعہ ہے۔ اور کسی کو یقین ہو نا ہو مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ پاکستانی ایجنسیوں کی مدد سے ہی ہوا ہے۔ امریکہ اور پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور اسی تعلق کی بنا پر پاکستان ابھی تک امریکہ کو بے شمار افراد حوالے کر چکا ہے جن کا کوئ حساب کتاب نہیں۔ ان کے لواحقین جو ابھی تک ان کی واپسی کی آس لگائے ہوئے ہیں کبھی کبھی گمشدہ افراد کی تصاریر اٹھائے مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔ ان مظاہرین کو کئ دفعہ شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ ڈھیٹ ہڈی ہیں پھر سڑکوں پر نظر آتے ہیں آخر ان کے لخت جگر کھوئے ہیں۔ کوئ ماں اپنے بیٹے کا تصور کرے کہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک اس کا بیٹا اس سے چھن جائے تو اس پر کیا گذرے گی۔ وہ اس امید پر تڑپتی رہے گی کہ شاید اس کا بیٹا زندہ ہے اور کبھی واپس آئیگا۔ اگر موت کی تصدیق ہوجائے تو بھی سکون آجاتا ہے لیکن زندگی کی امید بہت بھیانک ہوتی ہے۔ اصل میں امریکہ نے کسی کو حساب کتاب تو دینا نہیں اس لیے اس کے لیے بہت آسان ہے کہ پہلے کسی کو پکڑ کر اسے زندہ درگور کردے اور پھر عدالت میں اسی کو پیش کردے۔ کوئ اعتراض کرے تو اسی کو کہا جائے کہ تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں، تم صرف مفروضے بیان کررہے ہو اور قیاس آرائیاں کررہے ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں امریکہ نے کسی کو حساب کتاب تو دینا نہیں۔۔۔۔۔۔

دینا ہے خاور بھائی امریکہ کے صاحبان اقتدار بھی حساب دیں اور ان کے تمام حواری بھی حساب دیں گے۔ یہ دنیا ان کے لیے زیادہ سے زیادہ سو سال کی ہو سکتی ہے جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کی عدالتوں کے بعد ایک اور عدالت بھی ہے جہاں نہ کسی کی سفارش چلے گی اور نہ ہی وہاں پر ڈالر کام آئیں گے۔
 

محسن حجازی

محفلین
ڈاکٹر عافيہ صديقی کے حوالے سے جس غم وغصے کا اظہار کيا جا رہا ہے اس کی بنياد يہ يقين ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی ہی قيدی نمبر 650 تھيں اور انھيں افغانستان کے بگرام ائربيس پر پانچ سال تک تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔

ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ميڈیا پر مختلف رپورٹوں کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں۔

اس کے علاوہ ميڈیا رپورٹس کے برعکس ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ گرفتار ہونے والا کم سن لڑکا اس وقت امريکی تحويل ميں نہيں ہے۔

يہ کيس اس وقت عدالت ميں ہے اور بہت جلد تمام حقائق سب کے سامنے آ جائيں گے۔ محض قياس آرائيوں کی بنياد پر غم وغصے کا اظہار دانشمندی نہيں ہے۔

ميں آخر میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی قانون کے تحت جب تک ڈاکٹر عافيہ پر کوئ جرم ثابت نہيں ہو جاتا انھيں بے گناہ تصور کيا جائے گا۔ انھيں ايک آزاد ،منصفانہ اور عوامی عدالتی کارواي کے ذريعے اپنی اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دينے کا پورا موقع فراہم کيا جائے گا ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

ہم خداوند بش کو حاضر ناظر جان کر قلب کی صمیم گہرائیوں سے بارگاہ عالیہ میں اقرار و اعتراف کرتے ہیں کہ کاں چٹا ہے۔
اور ہم عہد کرتے ہیں کہ عمر بھر ہمارے واسطے تمام کاں چٹے ہیں۔
گر ہم کو کوئی کالا کاں بھی دکھائی دیا تو ہم خداوند بش کے فرمانبرداری میں اسے چٹا ہی کہیں گے۔

نوٹ: پنجابی زبان و ثقافت سے لاعلم حضرات وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔
 

کاشف رفیق

محفلین
اس سانحہ کے حوالے سے مختلف اخبارات میں بہت سے کالم لکھے گئے اور میری خواہش تھی کہ ان سب کو مرتب کرتا لیکن افسوس صد افسوس میری بدبختی کہ میں اپنی مصروفیات کے باعث یہ نہیں کر پا رہا۔ اگر کسی اور دوست کو توفیق ہو تو ضرور انہیں جمع کر دے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر لکھے گئے آرٹیکلز کے لنکس یہاں موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
http://www.jamatuddawa.org/data1/report/afia/index.htm
 

کاشف رفیق

محفلین
پارلیمانی وفد امریکہ بھیجنے کا فیصلہ

پاکستانی سینٹ کی امور خارجہ سے متعلق قائمہ کمیٹی نے امریکہ میں مقید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ اور گوانتاموبے میں قید سات پاکستانی شہریوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سینٹ کمیٹی مسلم لیگ قاف کے سینٹر مشاہد حسین اور پاکستان مسلم لیگ نون کی سینٹر سعدیہ عباسی، محمد علی درانی، طلحہ محمود اور عباس کمیلی پر مشتمل ہو گی۔

سینٹ کی کمیٹی تین ستمبر سے پہلے امریکہ پہنچے گی جہاں وہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کی سماعت بھی دیکھے گی اور اس کے بعد گوانتاموبے جیل میں قید سات پاکستانیوں کی حالت زار معلوم کرنے کی کوشش کرے گی۔

مزید پڑھئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چلیں اسی بہانے حکومت کے خرچے پر امریکہ یاترا ہو جائے گی۔ حالانکہ کرنا کرانا انہوں نے کچھ بھی نہیں۔
 

کاشف رفیق

محفلین
آج کے سنڈے میگزین میں ڈاکٹر عافیہ کے واقعے کے تناظر میں‌ شائع ہونے والی ایک کہانی:

mag15.gif
 

کاشف رفیق

محفلین
عافیہ کے حق میں ڈاکٹروں کا مظاہرہ


امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں سنیچر کو کراچی پریس کلب کے سامنے ڈاکٹروں نے مظاہرہ کیا۔

مظاہرین سے دیگر مقررین کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی خطاب کیا اور امریکہ میں اپنی بہن کے میڈیکل ٹیسٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کا سی ٹی اسکین کرایا گیا ہے جبکہ ان کا ایم آر آئی ٹیسٹ ہونا چاہیے تاکہ ان پر لگائے گئے زخموں کا صحیح طور سے معلوم ہوسکے۔

امریکی قید میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے کا انعقاد پیما یعنی پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے کیا تھا جس سے مختلف مقررین نے امریکی اقدام کی مذمت کی اور ڈاکٹر عافیہ سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا۔

مظاہرین اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جس میں ڈاکٹر عافیہ کی تصاویر اور نعرے درج تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے دعویٰ کیا کہ ’امریکی حکومت نے میرے بھائی سے خود وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کے بچے سے ملوائیں گے اور آج امریکی سفارت خانے کا بیان آیا ہے کہ بچہ ان کے پاس نہیں ہے، انہوں نے دو دن میں اپنا بیان ہی تبدیل کردیا‘

انہوں نے امریکی انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بچے کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنی ماں کے خلاف بیان دے کیونکہ وہ ہی ایک ہے جو گیارہ سال کا ہے اور اس قابل ہے کہ بول سکے باقی دو تو چھوٹے ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پانچ سال قبل اپنے تین بچوں سمیت کراچی سے لاپتہ ہوگئیں تھیں تاہم ایک ماہ پہلے امریکہ نے انہیں افغانستان سے زخمی حالت میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکی فوجی سے رائفل چھین کر فوجی پر حملہ آور ہوئیں جس کے بعد امریکہ میں ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔

امریکی عدالت کے حکم پر ان کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے لیکن ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اس طبی معائنے سے مطمئن نظر نہیں آتیں۔

ڈاکٹر فوزیہ نے مظاہرین کو اپنی بہن کی تصویر جس میں ڈاکٹر عافیہ انتہائی لاغر نظر آرہی ہیں دکھاتے ہوئے کہا کہ اس کی یہ حالت بنادی ہے، اس کا یہ حشر کردیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کا سی ٹی اسکین کرایا گیا ہے حالانکہ ان کا ایم آر آئی ٹیسٹ ہونا چاہیے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کو اندرونی طور پر بھی کتنے زخم آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے ڈاکٹر عافیہ کو دیکھا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کا بظاہر زخم ان کے سینے سے لے کر ناف تک ہے جس میں سوجن بھی ہے اور یہ زخم محض ایک گولی لگنے کا نہیں ہوسکتا بلکہ اور بھی بہت سے زخم ہیں۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ امریکی قید میں ان کی بہن پر جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں اور ان کا بس چلے تو وہ قدرتی آفات یعنی سونامی اور پاکستان میں آنے والے اندوہناک زلزلے کے الزامات بھی ان ہی پر لگادیں کہ یہ بھی ڈاکٹر عافیہ کی دہشت گردی کی کارروائی ہے۔

مظاہرین سے پیما کے عہدیداروں نے بھی خطاب کیا اور اس واقعہ کی شدید مذمت کی۔ بعد میں مظاہرین نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہائی دلوانے اور انہیں واپس اپنے ملک لانے کے فوری اقدامات کرے۔

سورس
 
Top