امریکہ بہادر

باسم

محفلین
وہ امریکی حکومت کے حوالے سے کہہ رہی‌ ہیں اور آپ ان کے حوالے سے
لاہور (رپورٹ:۔ جاوید رشید) جماعت اسلامی پاکستان کے تین روزہ اجتماع میں شرکت کے لئے آئی ہوئی نو مسلم برطانوی صحافی ای ون رڈلے نے ہفتہ کے روز خواتین کے کیمپ سے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کر کے چونکا دیا کہ امریکی حکومت (FBI) نے کہا ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا میں پاکستان میں اب اس قیدی نمبر 650 کی تلاش میں آئی ہوں۔ آپ اجتماع میں شریک پاکستانی افراد میری اس سلسلے میں مدد کریں۔ انہوں نے کہا امریکی کیمپ گوانتا ناموبے کی داستانوں سے مسلمان واقف نہیں ہیں۔ میں نے پانچ سال پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری سے متعلق معلومات فراہم کی تھیں مگر اس وقت کسی نے میری بات اور معلومات پر توجہ نہیں دی۔ طالبان نے قید کے دوران میرے ساتھ ایک مثالی سلوک کیا لیکن بگرام جیل میں امریکی فوجیوں نے عافیہ صدیقی پر جو ظلم و ستم کیا ہے اس نے خواتین کے ساتھ رواداری اور احترام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی خواتین کے کیمپ سے اجتماع کے شرکاء سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی بہن کے ساتھ ہونے والے ظلم کی آواز ہر جگہ بیان کروں گی۔ یہاں میں عالم اسلام سے آئے ہوئے مسلم نمائندوں کی موجودگی میں یہ اپیل کروں گی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور ان کی رہائی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر کے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ نہیں، برطانوی صحافی
اندازہ ہے کہ قیدی نمبر 650 مسلمان تھیں یہ بتائیے ان کا تعلق کس ملک سے تھا؟ اور ان کے بارے میں مزید کچھ معلومات مل سکیں گی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات کے ساتھ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

وہ امریکی حکومت کے حوالے سے کہہ رہی‌ ہیں اور آپ ان کے حوالے سے

امریکی حکومت نے کہا ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ نہیں، برطانوی صحافی
اندازہ ہے کہ قیدی نمبر 650 مسلمان تھیں یہ بتائیے ان کا تعلق کس ملک سے تھا؟ اور ان کے بارے میں مزید کچھ معلومات مل سکیں گی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات کے ساتھ


برطانوی صحافی ايوان ريڈلی نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح طور پر کہا تھا کہ انکے "خيال" کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں اور اس کے بعد انھوں نے ميڈيا کے سامنے اس بات کو اسی طرح بيان کيا جس کو بنياد بنا کر ميڈيا کے کچھ حلقوں نے اس بات کو ايک تصديق شدہ حقيقت بنا کر پيش کيا۔

آپ نے جس اخبار کی خبر کا حوالہ ديا ہے اس کے مطابق برطانوی صحافی نے لوگوں کو يہ بيان دے کر چونکا ديا کہ امريکی حکومت نے يہ تازہ موقف اختيار کيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

يہ بات سراسر حقیقت کے منافی ہے۔

جب يہ خبر پہلی مرتبہ ميڈيا پر رپورٹ کی گئ تھی تو بہت سے امريکی حکومتی عہديداروں نے اس بات کی تحقيق کی تھی اور افغانستان ميں متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کيا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی نصرت جاويد نے بھی اپنے پروگرام "بولتا پاکستان" مين اس بات کی تصديق کی تھی کہ انھيں پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن نے يہی بتايا تھا کہ انھوں نے اپنی تحقيق سے اس بات کی تصديق کی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اس کے علاوہ اين پيٹرسن نے پاکستان ميں ہيومن رائٹس کميشن کے صدر کو تين مرتبہ فون کر کے ان خبروں کی ترديد کی۔ اس بات کی تصديق بھی نصرت جاويد نے اپنے پروگرام ميں کی۔

اس کے بعد اين پيٹرسن نے پاکستان کے تمام اخبارات اور ميڈيا کے اہم اداروں کو ايک خط بھی لکھا جس ميں انھوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی اور قيدی نمبر 650 کے حوالوں سے ميڈيا پر افواہوں کی تردید کی۔

رچرڈ باؤچر کی جانب سے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو بھی ديا گيا جو بعد ميں جيو ٹی وی پر بھی نشر ہوا جس ميں انھوں نے واضح الفاظ ميں يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کبھی بھی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

آپ اسی فورم پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے ميری پوسٹس بھی پڑھ سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے کئ ہفتے پہلے يہی بات کہی تھی کہ ہماری تحقيق کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ جب اس کيس کے بارے ميں مجھ سے مختلف فورمز پر سوالات کيے گئے تھے تو تمام تر تنقید کے باوجود ميں نے شروع ميں اپنی رائے کا اظہار نہيں کيا تھا کيونکہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اس معاملے ميں تحقيق کر رہی تھی اور کوئ بھی رائے دينے سے پہلے ميرے ليے يہ ضروری تھا کہ ميں اصل حقائق کی تصديق کروں۔ ظاہر ہے کہ انٹرنيٹ پر کچھ دوستوں کے ليے رائے قائم کرنے سے پہلے تحقيق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ميں آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی کروانا چاہتا ہوں کہ برطانوی صحافی نے اپنے انٹرويو میں يہ بات بھی کہی کہ برطانوی حکومت نے جو معلومات لارڈ نذير احمد کو دی ہيں ان کے مطابق بھی ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اب تک اس کيس کے حوالے سے امريکی سفارت کاروں، اہم افسران اور حکومتی اداروں نے جو بيان ديے ہیں ان سب ميں تسلسل اور يکسانيت ہے ليکن ميڈيا پر جو کچھ رپورٹ کيا جا رہا ہے اس ميں ہر روز ايک نئ "حقيقت" بيان کی جا رہی ہے۔ برطانوی صحافی کا انٹرويو اس کی تازہ مثال ہے۔ آپ اسی فورم پر ميرے ريمارکس پڑھ سکتے ہيں جن ميں اخباری خبروں کے درميان پائے جانے والے تضادات کا ذکر کيا گيا ہے۔

آپ نے اصل قيدی نمبر 650 کے بارے میں جس دستاویزی ثبوت کے بارے ميں سوال کيا ہے اسے کچھ سيکورٹی پروٹوکول اور قانونی ضابطوں کی وجہ سے اس وقت پبلک فورمز پر پيش نہيں کيا جا سکتا۔

اس بارے ميں يہ بات بھی ياد رہے کہ يہ کيس اس وقت زير سماعت ہے اور اس کيس کے بہت سے پہلو ايسے ہیں جو اس کيس کے فيصلے کے وقت سب کے سامنے آئيں گے۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی بہن نے بھی اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں يہی بات کہی تھی کہ اس کيس کے زير سماعت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ معاملات پر اس وقت بات نہيں کر سکتيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
یہ تو بتایا جاسکتا ہےکہ قیدی نمبر 650 پاکستانی ہیں یا نہیں؟
اور مریم ریڈلے نے یہ بھی کہا ہے کہ میرے پاس اس بات کے تصویری ثبوت موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عافیہ کوعدالت میں حاضری سے قبل تلاشی کے نام پر بے لباس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نےعدالت میں پیش ہونے سے ہی انکار کردیا ہے؟
 

باسم

محفلین
روزنامہ امت میں پچھلے چار دن سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے سابقہ شوہر ڈاکٹر امجد کا تفصیلی انٹرویو شائع ہورہا ہے جس سے سامنے آنےوالی صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے۔
قسط ایک، قسط دو، قسط تین،قسط چار،
وہ مسلمانوں کیلیے امداد جمع کرنے والے ایک گروپ سے وابستہ تھیں
برانڈیز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کی وجہ ایک پروفیسر کا شفیق و مہربان ہونا اور یونیورسٹی میں سہولیات فراہم کرنا تھا
نیو ہمپشائر میں گروپ کے ساتھ کیمپنگ کیا کرتیں جس کا مقصد جہاد کی تیاری تھا جس میں پانچ چھ بار وہ خود لے کر گئے اور یہ کوئی خفیہ مہم نہ تھی اس لیے اس پر پابندی بھی نہیں تھی
ڈاکٹر امجد نے نائٹ ویژن اسکوپ اور دو بلٹ پروف شکاری جیکٹس خریدیں جس کی وجہ فطری دلچسپی بتائی اور ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں تھی ملک سے باہر لے جانا ممنوع تھا
بوسٹن کے ایک قصبے میں رہائش کی وجہ سے جرائم پیشہ سے حفاظت کیلیے ڈاکٹر عافیہ نے سیلف ڈیفنس کی تربیت لی تھی جس کا استعمال کبھی ان پر بھی ہوا
ازدواجی زندگی میں اپنے ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش اور ڈکٹر عافیہ کے جذباتی پن اور عدم اعتماد کا تذکرہ ہے
نائن الیون کے بعد امریکی تفتیشی اداروں نے تفتیش کی اور دوبارہ تفتیش کا کہا مگر اس سے پہلے عافیہ کے مجبور کرنے پر پاکستان واپس آگئے
تشدد زدہ فوٹو کو جعلی قرار دیا ہے اس کا پس منظر ایک جھگڑے میں بوتل سے چہرے پر زخم لگ جانا اور اس کے بعد بہن کی طرف سے اس زخم کی تصویر کو تبدیل کرکے پیش کرنے کی دھمکی دینا
پاکستان میں ڈاکٹر امجد کا خود پاکستانی و امریکی تفتیشی اہلکاروں کے سامنے سامنے پیش ہونا اور ان کا مطمئن ہونا
ڈاکٹر عافیہ کے ماموں کا انگریزی اخبار میں خط کہ وہ جنوری 2008 میں ان کی گھر آئی تھیں
گمشدگی کے زمانے میں ڈاکٹر امجد کے چچا کو پی ای سی ایچ ایس میں نظر آئیں گھر کے باہر سے تالا لگا ہونے کے باوجود بچے اندر کھیل رہے تھے
میڈیا کے دباؤ اور خاندان اور بچوں کی خاطر ڈاکٹر امجد کا ڈاکٹر عافیہ کو گرفتاری اور امریکی اہلکاروں کے حوالہ ہونے سے بچانے کیلیے عدالتی درخواست واپس لینا تاکہ گرفتار کروانے کا الزام ان پر نہ آئے
2003 میں عمار بلوچی سے دوسری شادی جس کی عافیہ کے گھر والے تصدیق نہیں کررہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ڈاکٹر امجد کا یہ مضمون ایک بم سے کم نہیں۔ میں بس کیا کہوں اس رائیٹ ونگ میڈیا کو کہ جس نے قوم کی جذباتیت سے کھیلتے ہوئے اس مکمل طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا۔
بس کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اور اس سچائی کو شائع بھی امت اخبار کر رہا ہے۔
میں سوچ رہی ہوں کہ اس پر ہنسوں یا روؤں کیونکہ اس امت اخبار میں بھی مسلسل مضامین چھپتے تھے جس میں ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی بنایا گیا، اور پھر مسلسل لگاتار نہ ختم ہونے والے الزامات صدر مشرف پر لگائے گئے کہ انہوں نے قوم کی بیٹی، قوم کی عزت کو امریکہ کے ہاتھ بیچ دیا۔

میرے خیال میں وقت آ رہا کہ جب قوم نے نہ صرف طالبان کی اصلیت کو پہنچانا شروع کر دیا ہے، بلکہ وہ اس رائیٹ ونگ میڈیا کے چہرے پر پڑے نقاب سے بھی آہستہ آہستہ واقف ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
باسم، کیا آپ کو پتا ہے کہ یہ امت اخبار کون چلا رہا ہے؟ اس میں ایک ذہن ایسا موجود ہے جو کہ وسیع القلب ہے اور غلطیوں پر اڑے رہنے کی جگہ پروگریسیو انداز میں سوچتے ہوئے فورا غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ذہن سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب متحدہ کے متعلق امت میں مضمون شائع ہوا کہ امریکی ادارے نے انہیں دہشتگرد قرار دے دیا گیا تھا۔ مگر جب اس پر جرح ہوئی تو امت اخبار نے ایک اور خبر چھاپی جس میں اس امریکی ادارے اور اسکی رپورٹ کے متعلق غلطی کی کافی حد تک تلافی کر کے امت اخبار نے خود کو save پوزیشن میں لانا چاہا۔
مزید یہ کہ باسم، کیا آپ امت اخبار کے لیے کام کرتے ہیں اور ان سے رابطے میں ہیں؟
 

ساجد

محفلین
مہوش بات رائٹ یا لیفٹ ونگ کی نہیں ۔ معاملہ ہے آپ ہی کے جیسی ایک بنت حوا پر ظلم کا۔
 

باسم

محفلین
باسم، کیا آپ کو پتا ہے کہ یہ امت اخبار کون چلا رہا ہے؟ اس میں ایک ذہن ایسا موجود ہے جو کہ وسیع القلب ہے اور غلطیوں پر اڑے رہنے کی جگہ پروگریسیو انداز میں سوچتے ہوئے فورا غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ذہن سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب متحدہ کے متعلق امت میں مضمون شائع ہوا کہ امریکی ادارے نے انہیں دہشتگرد قرار دے دیا گیا تھا۔ مگر جب اس پر جرح ہوئی تو امت اخبار نے ایک اور خبر چھاپی جس میں اس امریکی ادارے اور اسکی رپورٹ کے متعلق غلطی کی کافی حد تک تلافی کر کے امت اخبار نے خود کو save پوزیشن میں لانا چاہا۔
مزید یہ کہ باسم، کیا آپ امت اخبار کے لیے کام کرتے ہیں اور ان سے رابطے میں ہیں؟
امت اخبار کے مدیر اعلٰی رفیق افغان ہیں جو صلاح الدین شہید کے داماد ہیں۔
ایک دہائی سے میرا اس اخبار سے ایک قاری کی حیثیت سے تعلق ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں
جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو وہ ایک فریق کا موقف پہلے پیش ہوا یہ اس کا جواب تھا جو آج مکمل ہوا اور پہلے کا آئندہ متوقع ہے جس کی بعد صورتحال مزید واضح ہوسکے گی۔
 

خرم

محفلین
یہ حقیقت تو پچھلے برس ‌ہی سامنے آگئی تھی لیکن بہرحال کوئی بھی الزام ڈاکٹر عافیہ سمیت کسی بھی انسان پر بے رحمانہ تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی کہانی (جو ان کی ہمدردی میں‌پاکستانی میڈیا پر آتی رہی) پوری سچ نہیں ہے اور بہت سی باتوں پر دھڑلے سے جھوٹ بولا گیا تھا جیسا کہ ان کے سابقہ خاوند کے بیانات سے ظاہر ہے۔ میرے علم کے مطابق ان کی علیحدگی کی وجہ بھی یہ بات بنی تھی کہ ان کے خاوند پاکستان میں رہنا چاہتے تھے اور ڈاکٹر عافیہ امریکہ میں رہنے پر بضد تھیں۔
 

باسم

محفلین
ساجد بھائی معاملہ اب ایک نہیں دو بنات حوا کا ہے ایک ڈاکٹر عافیہ اور دوسری قیدی نمبر 650 جن کا تذکرہ فواد صاحب نے کیا ہے اور اگر ڈاکٹر عافیہ کی وجہ سے ان کا معاملہ دب جاتا ہے تو یہ افسوس کی بات ہوگی
خرم بھائی ان کے شوہر کے بقول وہ انہیں مجبور کرکے پاکستان لائی تھیں اور اسی طرح واپس جانے کی بھی ضد کی
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ حقیقت تو پچھلے برس ‌ہی سامنے آگئی تھی لیکن بہرحال کوئی بھی الزام ڈاکٹر عافیہ سمیت کسی بھی انسان پر بے رحمانہ تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی کہانی (جو ان کی ہمدردی میں‌پاکستانی میڈیا پر آتی رہی) پوری سچ نہیں ہے اور بہت سی باتوں پر دھڑلے سے جھوٹ بولا گیا تھا جیسا کہ ان کے سابقہ خاوند کے بیانات سے ظاہر ہے۔ میرے علم کے مطابق ان کی علیحدگی کی وجہ بھی یہ بات بنی تھی کہ ان کے خاوند پاکستان میں رہنا چاہتے تھے اور ڈاکٹر عافیہ امریکہ میں رہنے پر بضد تھیں۔

خرم بھائی،
ڈاکٹر امجد کا یہ مراسلہ طویل تھا اور تیسری قسط کا لنک بھی منقطع تھا، اور اسکی آخری قسط یعنی پانچواں حصہ آج شائع ہوا ہے۔
اس لیے لگتا ہے کہ آپ کچھ چیزیں اس طویل مراسلے میں مس کر گئے ہیں، جس میں سے ایک کی نشاندہی باسم نے کر دی ہے۔
طیل مراسلے کی وجہ سے اور بھی لوگوں نے پورا آرٹیکل نہیں پڑھا ہو گا اس لیے میں کوشش کرتی ہوں کہ ان پانچ قسطیں پڑھنے کے بعد ڈاکٹر امجد نے جو تصویر کھینچی ہے اور جو چیز مجھے واضح ہوئی ہے اس کا خلاصہ بیان کر دوں۔
[نیز، جو تصویر مجھ پر واضح ہوئی ہے، اسکے مطابق عافیہ پر ایجنسیز کی طرف سے اغوا کیا گیا ہے اور نہ کوئی ظلم ہوا ہے، بلکہ وہ 2003-2004 میں خالد شیخ کے گروپ یا کسی اور جہادی گروپ کی مدد سے بذات خود روپوش ہو گئی تھیں اور پھر 2008 تک اپنی روپوشی کو جواز دینے کے لیے ایجنسیز کے اغوا کرنے کا بہانہ بنایا جاتا رہا، حتی کہ 2008 میں عافیہ اسلام آباد میں اپنے سگے ماموں شمس الدین واجد کے گھر خود نمودار نہ ہو گئیں]

**********************

از ساجد:
مہوش بات رائٹ یا لیفٹ ونگ کی نہیں ۔ معاملہ ہے آپ ہی کے جیسی ایک بنت حوا پر ظلم کا۔

ساجد بھائی،
یہ بتلائیے کہ کسی پر تہمت لگانا کتنا بڑا جرم ہے؟
جناب عائشہ کے معاملہ میں شاعرِ رسول حسن بن ثابت نے غلط تہمت لگائی تو انہیں اسکے جرم میں کوڑے لگائے گئے۔

اب یہ بتلائیے کہ اگر کوئی کسی بے گناہ پر تہمت لگائے کہ معاذ اللہ معاذ اللہ اس نے اپنی بیٹی کو غیروں کے ہاتھ بیچ دیا ہے، تو ان تہمت لگانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی ہونی چاہیے کہ نہیں؟

ساجد بھائی،
یہ معاملہ بنت حوا پر ظلم کا نہیں رہا، بلکہ اس سے قبل سچ اور جھوٹ کے فیصلہ کا معاملہ ہے کہ آیا واقعی اس بنت حوا پر ظلم بھی ہوا ہے کہ وہ شروع سے لیکر ابتک پوری قوم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے بے وقوف بنائی جا رہی ہے؟

یہ وہ بات ہے جس کی گواہی ڈاکٹر امجد کی یہ تحریر دے رہی ہے۔

تو اب سچ کو بے نقاب ہو جانا چاہیے۔ اگر مشرف صاحب پر قوم کی بیٹی بیچنے کا الزام ہے تو ان کو سزا ہو جائے، لیکن اگر یہ فقط تہمت ہے تو اس رائیٹ ونگ میڈیا پر ایک آدم کے بیٹے پر یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والی تہمت کے الزام دہرانے پر جتنی بھی لعنت کی جائے وہ کم ہو گی۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی کیسا بھی دشمن ہو اس پر بیٹی کو غیروں کے ہاتھوں بیچنے کا الزام یوں لگایا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر امجد کی تحریر سامنے آ چکی ہے۔ اب فقط عافیہ کی فیملی کے جواب کا انتظار ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ میں سے ہر ایک کو بہرحال ڈاکٹر امجد کی تحریر خود پڑھنی پڑھے گی۔
میں فقط وہ تصویر انتہائی مختصر الفاظ میں اور بہت سے ثبوت جن کا ذکر ڈاکٹر امجد نے کیا ہے، انہیں حذف کرتے ہوئے پیش کر رہی ہوں۔

1۔ عافیہ جنونی کیس ہے۔ خاص طور پر جب جہاد کا مسئلے آئے تو یہ جنون بے قابو ہے۔

2۔ عافیہ کے جہادی تنظیموں سے رابطے تھے، اور خالد شیخ گروپ سے بھی رابطے تھے، امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی۔

3۔ جب پہلی مرتبہ امریکی اداروں نے ان کا انٹرویو لیا تو عافیہ نے جان بوجھ کر ان ادارے والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، حالانکہ تمام چیزں بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے ثابت تھیں اور ناقابل انکار تھیں۔ جب ڈاکٹر امجد نے اس کی وجہ پوچھی تو عافیہ کہنے لگیں کہ کافروں کو انکے سوالات کے صحیح جوابات دینا جرم ہے اور ان سے جھوٹ بولنا جہاد۔ [پتا نہیں پھر وہ کافروں کے ملک امریکہ گئی ہی کیوں تھیں]

4۔عافیہ کے اس جھوٹ کے بعد ڈاکٹر امجد اور عافیہ امریکہ میں مشتبہ ہو گئے اور انہیں امریکا چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔
ڈاکٹر امجد نے عافیہ اور اپنی ذاتی زندگی کے متعلق جو واقعات لکھے ہیں، وہ میں مکمل حذف کر رہی ہوں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بغیر یہ کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ لوگ یہ ڈاکٹر امجد کی تحریر کو ضرور پڑھیں۔

5۔ پاکستان آ کر عافیہ نے ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر جانے کے لیے لڑائی کی اور نہ جانے کی صورت میں طلاق کا مطالبہ کیا [امریکہ میں انہیں پڑھائی ادھوری چھوڑ کر بوسنیا جا کر جہاد کرنے کے لیے لڑائی کی تھی]

6۔ مفتی رفیع عثمانی نے عافیہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔

7۔ بہرحال طلاق ہوئی۔ مگر ڈاکٹر امجد بچوں سے طلاق کے بعد سے لیکر اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ وجہ اسکی عافیہ اور اسکی فیملی کا انکار یا ناقابل قبول شرائط رہی ہیں۔

8۔ 2003 میں عافیہ نے دوسری شادی کر لی تھی، مگر اسکو خفیہ رکھا گیا، ورنہ قانونی طور پر بچے ڈاکٹر امجد کو مل جاتے۔

9۔ 2003 میں ہی خالد شیخ کو پکڑا گیا، اور وہاں سے چھاپے کے دوران ملنے والے کاغذات سے پتا چلا کہ عافیہ کا اس گروپ سے تعلق ہے اور یہ کہ وہ خالد شیخ کے بھانجے سے دوسری شادی کر چکی ہیں اور نکاح نامہ پر انکے دستخط ہیں۔

10۔ پاکستان واپس آ کر جب ان کے تعلقات تلخ ہوئے تھے تو یہ اپنے اپنے والدین کے گھر الگ الگ رہنے لگے تھے۔
مگر ڈاکٹر عافیہ خفیہ طور پر 5 دن کے لیے امریکہ گئیں اور وہاں پر خالد شیخ کے ایجنٹ کے لیے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد کے کاغذات استعمال کرتے ہوئے ایک عدد پوسٹ بکس کو کرائے پر لے لیا۔
ڈاکٹر امجد کی تحریر کے مطابق انہیں اس پوسٹ باکس کا علم تھا نہ عافیہ کے اس 5 دن کے خفیہ دورے کا۔


نوٹ: یہاں سے آگے کی سٹوری میں ڈاکٹر امجد نے باتوں کو 100 فیصد کھل کر نہیں لکھا ہے، مگر جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، اس سے ایک ہی نتیجہ اور ایک ہی تصویر سامنے آتی ہے، وہ میں اپنے الفاظ میں بیان کر رہی ہوں۔

11۔ سن 2003 میں شیخ خالد کے پکڑے جانے کے بعد عافیہ بہت خطرے میں آ گئی اور خالد شیخ کے گروہ اور عافیہ نے بہتر سمجھا کہ وہ روپوش ہو جائیں کیونکہ انکا تعلق خالد شیخ سے ثابت ہو چکا تھا۔

12۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ نے باقاعدہ ڈرامہ کھیلا۔
وہ باقاعدہ ساز و سامان باندھ کر کراچی سے اسلام آباد اپنے ماموں سمش الدین واجد صاحب سے ملنے کا نام لیکر نکلیں، مگر پھر راستے میں روپوش ہو گئیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس روپوشی کا جواز بھی دینا تھا کیونکہ ڈاکٹر امجد بچوں سے ملنے کی خاطر عافیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر رہے تھے۔
اس لیے اس روپوشی کا جواز یہ بنایا گیا کہ عافیہ کو ایجنسی کے لوگ ہی بچوں سمیت اغوا کر کے لے گئے ہیں۔
یوں عافیہ نہ صرف ڈاکٹر امجد سے بچ گئیں، بلکہ ان کے خاندان والے بھی ایجنسیوں کے سوالات سے بچ گئے کیونکہ اس دوران عافیہ کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔

13۔ مگر ڈاکٹر امجد نے عافیہ کے غائب ہو جانے پر یقین نہیں کیا، اور خاندان کی درزن اور دو اور لوگوں نے اسکے بعد کراچی میں دیکھا، اور داکٹر امجد لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بطور گواہ عدالت میں بھی پیش کیا۔

14۔ پھر لیڈی صحافی ریڈلی نے دعوی کیا عافیہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ہے۔
مگر تین مہینے کے بعد اس نے خود اپنے پچھلے دعوے کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ اس پر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ قیدی نمبر 650 عافیہ نہیں ہے۔
مگر پاکستانی میڈیا پر یہ دوسری خبر اخبارات کی زینت نہ بن سکی اور قیدی نمبر 650 کے حوالے سے اخبارات میں کالم لکھے جاتے رہے اور ظلم و ستم کی داستانیں سنائی جاتی رہیں۔


15۔ سب سے بڑا ثبوت: عافیہ کا 2008 میں اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہونا

ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں دو بڑے انگریزی اخبارات میں انہیں ایک دن شمس الدین واجد [عافیہ کے ماموں] کا بیان پڑھنے کو ملا جس سے انہیں شاک لگا۔
شمس الدین واجد کہتے ہیں کہ سن 2008 میں عافیہ ان کے گھر ایک دن اچانک نمودار ہوئی۔ اور تین دن تک رہی۔
ڈاکٹر امجد نے پھر بذات خود شمس الدین واجد صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے تفصیلات طلب کیں۔
شمس الدین واجد صاحب نے جواب میں انہیں باقاعدہ ای میل تحریر کی ہے جو کہ بطور ثبوت ڈاکٹر امجد کے پاس موجود ہے۔
شمس الدین واجد صاحب کے مطابق انہوں نے عافیہ کی ماں کو بھی وہاں پر بلایا اور انکی بھی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
مزید یہ کہ عافیہ نے کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہے، مگر اس دوران میں شمس الدین واجد صاحب کو عافیہ کی ناک پر سرجری محسوس ہوئی جو زخم کی وجہ سے تھی یا پھر شکل تبدیل کرنے کی غرض سے، بہرحال عافیہ پورے عرصے نقاب کا سہارا لیتی رہی اور کھل کر سامنے نہیں آئی۔

ڈاکٹر امجد نے صرف یہ بات ہی شمس الدین واجد کے حوالے سے بیان کی ہے۔

اس کو پڑھ کر حالات کی جو تصویر میرے سامنے قائم ہوئی ہے، اسکے مطابق عافیہ نے یہ گیم کھیلی اور وہ اس پورے عرصے کے دوران خالد شیخ کے گروہ یا کسی اور جہادی گروہ کی مدد سے روپوش رہی، اور اسی گروہ کے لوگ عافیہ کے گھر والوں کو اس عرصے میں فون کر کے عافیہ کی خیریت کی خبر دیتے رہے۔

نیز واجد شمس الدین کی گواہی کے مطابق جس عافیہ سے سن 2008 میں ملے تھے، وہ اپنے پورے ہوش و حواس تھی۔ جبکہ بگرام کی قیدی 650 اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی۔

16 عافیہ کے بچے تمام عرصے عافیہ کے پاس تھے

عافیہ کے ساتھ اسکا بیٹا احمد موجود تھا جس کے متعلق پکڑے جانے پر عافیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ احمد مر چکا ہے۔ مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی کہ وہ احمد ہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بگرام میں جو قیدی 650 تھی، اسکے ساتھ کوئی بچہ نہ تھا۔
بہرحال یہ چیز آج تک ہمارے میڈیا کو نظر نہیں آ سکی اور آج بھی عافیہ عرف قیدی 650 کے نام کے عنوان سے لرزہ خیز داستانیں اخبارات کی زینت ہیں۔ باسم برادر کا بہت شکریہ کہ فواد صاحب کے کہنے پر انہوں نے کم از کم عافیہ کے قیدی نمبر 650 ہونے کا تو انکار کیا۔
اخبارات میں لکھنے والے ہمارے رائیٹ ونگ میڈیا کو بھی شاید کبھی یہ عقل آ جائے۔

نیز احمد اپنی ماں کو عافیہ کے نام سے نہیں جانتا تھا، بلکہ صالحہ کے نام سے جانتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عافیہ اس پورے عرصے کے دوران اپنی آئڈنٹیٹی تبدیل کر کے صالحہ کے نام سے روپوشی کی زندگی گذارتی رہی۔

بقیہ بچوں کے متعلق صحیح طور پر امریکی حکومت کو علم نہیں۔ مگر عافیہ کی وکیل نے یہ کہا تھا کہ وہ بقیہ دو بچوں کی تفصیل نہیں بتانا چاہتی کیونکہ اس سے ان بچوں کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ عافیہ کو اپنے ان بقیہ دو بچوں کا اتا پتا معلوم ہے اور وہ عافیہ کے بھروسے کے بندوں کے پاس ہیں۔

********************

ڈاکٹر امجد کا اپنا تعلق دیوبند کے انتہائی دینی گھرانے سے ہے اور انکے فیملی تعلقات مفتی رفیع عثمانی اور تقی عثمانی صاحبان سے ہیں۔

ڈاکٹر امجد اپنی تحریر سے مجھے انتہائی جینئس انسان دکھائی دیے ہیں اور سوچنے والا دماغ رکھتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح چیزیں بیان کی ہیں وہ پڑھ کر مجھے یہ پروفیشنل سٹوری رائیٹر دکھائی دیے۔ اگر مجھے انکے پیشہ ور اور انتہائی قابل ڈاکٹر ہونے کا علم نہ ہوتا تو میں انہیں بہت پروفیشنل سٹوری رائیٹر مانتی۔

بہرحال انکا سٹوری رائیٹر ہونا اور دیگر چیزیں برطرف، ہم فقط ان ثبوتوں اور دلائل اور شہادتوں پر غور کرتے ہیں جو کہ انہوں نے پیش کی ہیں تو ہم صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بہت جاندار ہیں۔

انکی تحریر کا سب سے زیادہ جاندار ثبوت عافیہ کے ماموں شمس الدین واجد صاحب کی انگریزی کے دو اخبارات میں دی گئی گواہی ہے کہ سن 2008 میں عافیہ ان سے ملنے اکیلی ان کے گھر آئی تھی اور تین دن انکے گھر قیام کیا۔ اور یہ کہ عافیہ کی والدہ کی بھی ملاقات یہاں پر عافیہ سے ہوئی ہے۔

پھر ریڈلی کا اپنا اس بات کو قبول کرنا کہ قیدی نمبر 650 عافیہ نہیں تھیں۔ [ریڈلی کا یہ اقبال ہمارے رائیٹ ونگ میڈیا کو پسند نہیں آیا اس لیے انہوں نے اسکو اخبارات اور کالموں میں بالکل جگہ نہیں دی اور عافیہ عرف قیدی 650 کے نام پر لرزہ خیز داستانیں جاری رہیں]

نیز رائیلی کے اس بیان کی طرح رائیٹ ونگ میڈیا کی طرف سے ڈاکٹر امجد کے اس بیان اور انکی گواہی اور ثبوتوں پر بھی رائیٹ ونگ میڈیا ابھی تک بالکل خاموش ہے اور کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔

اب تصویر کی دونوں رخ تقریبا ہمارے سامنے ہیں۔ مزید تھوڑا سا انتظار ہمیں اور کرنا ہو گا کہ شاید عافیہ کی فیملی میں سے کوئی ڈاکٹر امجد کی تحریر کا جواب دینے، خاص طور پر شمس الدین واجد صاحب کی گواہی کا انکار کرنے کے لیے کوئی جواب دے۔

چنانچہ تھوڑا سا انتظار مزید کہ بس سحر طلوع ہونے کو ہے۔ انشائ اللہ۔
 

عسکری

معطل
story4.gif
 

مہوش علی

لائبریرین
مزید یہ پتا چلا ہے کہ امت اخبار کو یہ مکمل سوانح حیات بھجوانے سے پہلے ڈاکٹر امجد ان باتوں کا انکشاف "دی نیوز" اور "بی بی سی اردو" کو دیے گئے انٹرویوز میں کر چکے تھے۔

دی نیوز کے لیے یہاں کلک کریں

اور بی بی سی کی نیوز کا لنک یہ ہے۔

’عافیہ نے جہاد کرنے پر زور ڈالا‘

احمد رضا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

ڈاکٹر عافیہ نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کے خلاف جہاد لڑنے افغانستان جائیں: امجد خان
امریکہ میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ کے سابق شوہر امجد خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے شدت پسندوں سے تعلقات تھے اور وہ انہیں بھی مجاہد کی روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں لیکن ان کے انکار کرنے پر طلاق لے لی۔
بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے تین بچوں کی صحت اور زندگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنے بچے واپس لینے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
امجد خان نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جہاد کا شوق تھا اور ان کے بعض پاکستانی شدت پسندوں سے رابطے بھی تھے۔
ان کے دعوے کے مطابق ان کی سابقہ اہلیہ کا دہشتگردی کے شبے میں امریکی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پاکستانی شہریوں عزیر پراچہ، عمار بلوچی اور ماجد خان کے ساتھ رابطہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عزیر پراچہ کو امریکی عدالت القاعدہ کو مالی اور مادی امداد فراہم کرنے کے الزام میں تیس سال قید کی سزا بھی دے چکی ہے جبکہ عمار بلوچی اور ماجد خان قید میں ہیں۔
انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیل بتانے اور اپنی تصویر کھنچوانے سے معذرت کرلی۔
ان کے بقول وہ طلاق سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کو مسلسل یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ شدت پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ ان کی بات نہیں مانتی تھیں۔
امجد خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو امریکہ پر ہوئے حملوں کے بعد ڈاکٹر عافیہ نے ان پر یہ دباؤ بھی ڈالا کہ وہ امریکہ کے خلاف جہاد لڑنے افغانستان جائیں لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جون دو ہزار دو میں ڈاکٹر عافیہ کی رہنمائی کے لئے کراچی کے ایک بڑے دینی مدرسے کے مفتی رفیع عثمانی کو لائے اور مفتی رفیع عثمانی کا کہنا تھا کہ ان دونوں پر جہاد فرض نہیں ہے لیکن عافیہ نے ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی اور کچھ ہفتے بعد طلاق لے لی۔
امجد خان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ڈاکٹر عافیہ اور ان کے تینوں بچے احمد، مریم اور سلیمان سال دو ہزار تین میں کراچی سے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے حراست میں لیے تھے۔ ان کے مطابق معاملہ اسکے برعکس ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے خود کو بچانے کے لئے افغانستان جانے سے پہلے اپنی پلاسٹک سرجری کرا کے چہرہ بدل لیا تھا اور وہ وہاں صالحہ کے نام سے مقیم تھیں۔ عافیہ کے اہل خانہ مجھے میرے بیٹے احمد سے ملنے نہیں دے رہے ہیں جبکہ دوسرے دو بچوں کی زندگیوں کے بارے میں بھی میں فکرمند ہوں اور نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔

امجد خان

پچھلے سال افغانستان کے حکام کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے حوالے کیے گئے اپنے بڑے بیٹے احمد کا تذکرہ کرتے انہوں نے کہا افغانستان کی انٹیلیجنس ایجنسی کے چیف جنرل فراحی کا بیان نیویارک ٹائمز نے شائع کیا تھا کہ احمد نے انہیں بتایا ہے کہ وہ اور ڈاکٹر عافیہ سترہ جولائی دو ہزار آٹھ کو گرفتاری سے کچھ دن پہلے ہی افغانستان پہنچے تھے۔

’ڈاکٹر عافیہ کے ماموں فاروقی صاحب جو اسلام آباد میں رہتے ہیں انہوں نے بھی ایک اخبار میں اپنے ایک مضمون میں یہ بات بتائی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ ان سے جنوری دو ہزار آٹھ میں اسلام آباد میں ملیں اور تین دن ان کے گھر رہیں۔ اس دوران انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ افغانستان جانا چاہتی ہیں۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں تھیں اور آزاد تھیں۔‘
امجد خان کا کہنا ہے کہ عافیہ نے طلاق کے بعد ان کے ساتھ ہوئے اس تحریری معاہدے کی پاسداری نہیں کی جس میں طے پایا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کی کفالت اور وقتاً فوقتاً ملنے کی اجازت ہوگی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عافیہ 2003ء میں بچوں سمیت جان بوجھ کرغائب ہوگئی تھیں تاکہ خود کو امریکی حکام کے ہاتھوں گرفتاری سے بچا سکیں۔
’مارچ 2003ء میں جب ایف بی آئی نے ہم دونوں کے مطلوب ہونے کا الرٹ بھیجا تو پاکستانی ایجنسیوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ اور ڈاکٹر عافیہ جو بھی بات ہے صاف صاف بتادیں اور اپنے آپ کو کلیئر کروالیں۔‘
عافیہ کے اہل خانہ مجھے میرے بیٹے احمد سے ملنے نہیں دے رہے ہیں

انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے بعض افسران کے سامنے پیش ہوئے اور ان کے پاس جو بھی معلومات تھیں وہ انہیں دیں جس کے بعد انہیں جانے دیا گیا۔ لیکن عافیہ پیش ہونے کے بجائے بچوں سمیت غائب ہوگئیں۔
’ڈاکٹر عافیہ نے خود کو بچانے کے لئے افغانستان جانے سے پہلے اپنی پلاسٹک سرجری کرا کے چہرہ بدل لیا تھا اور وہ وہاں صالحہ کے نام سے مقیم تھیں۔ عافیہ کے اہل خانہ مجھے میرے بیٹے احمد سے ملنے نہیں دے رہے ہیں جبکہ دوسرے دو بچوں کی زندگیوں کے بارے میں بھی میں فکرمند ہوں اور نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اپنے بچوں کو واپس تحویل میں لینے کے لئے انہوں نے عافیہ کے منظر عام سے غائب ہونے کے بعد 2003ء میں کراچی کی عدالت میں مقدمہ داخل کیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ کی والدہ نے یہ حلفیہ بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بچے ایف بی آئی کی تحویل میں ہیں اور خیریت سے ہیں۔
ان کے بقول اسکے بعد عدالت نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔ امجد خان نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے احمد اور دیگر دو لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لئے جلد ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ساجد بھائی معاملہ اب ایک نہیں دو بنات حوا کا ہے ایک ڈاکٹر عافیہ اور دوسری قیدی نمبر 650 جن کا تذکرہ فواد صاحب نے کیا ہے اور اگر ڈاکٹر عافیہ کی وجہ سے ان کا معاملہ دب جاتا ہے تو یہ افسوس کی بات ہوگی


سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں

ميں نے اسی فورم پر مندرجہ ذيل تھريڈ ميں ڈاکٹر عافيہ صدیقی کے بيٹے کے حوالے سے ان کی فيملی کو بھيجے جانے والے ايک خط کو پوسٹ کيا تھا اور اس کے کچھ حصوں کو پوشيدہ رکھنے کی يہ وجہ بيان کی تھی

"اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے"۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=329029#post329029

يہی اصول اور قانون مجھے اس بات کی اجازت نہيں ديتا کہ ميں اصل قيدی نمبر 650 کی شناخت يا محل وقوع يہاں پر پوسٹ کروں۔ يہ ان کی اپنی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top