سیما علی

لائبریرین
تجھے موقع تو مل جاتا ہے دو آنسو بہانے کا
غبارِ روح دھونے کا ،لگی دل کی بجھانے کا

خبر بھی ہے کہ مجھ سے کیا رویہ ہے زمانے کا
مجھے ہے حکم بہتے آنسوؤں میں مسکرانے کا
 

سیما علی

لائبریرین
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں اُلجھے اُلجھے روپ بہت
پر اصلی کم، بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایہ کم ہو، دھوپ بہت
 

سیما علی

لائبریرین
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا
وہ کل فٹ پاتھ پہ مردہ پڑا تھا

دلوں میں پتھروں سی سختیاں تھیں
لبوں پر پھول سا لہجہ سجا تھا
 

سیما علی

لائبریرین
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب
آپ سے اور کیا کہوں صاحب
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
ذلتِ زیست یا شکستِ ضمیر
یہ سہوں میں یا وہ سہوں صاحب
ہم تمہیں یاد کر کے رو لیتے
دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب

جاوید اختر
 

سیما علی

لائبریرین
یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا
مرے اندر کرن پھوٹے کوئی خود احتسابی کی

مری منصوبہ بندی میں چُھپی ہے قرض کی دیمک
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

(انور مسعود)
 

سیما علی

لائبریرین
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بےبس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو

عندلیب شادانی
 
Top