سیما علی

لائبریرین
اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں پر بدبوئے بارود هو ماحول کا عنصر
جہاں کا روز مره خون کے جز نا مکمل هو

گماں کیسی حکومت کا کروں میں اس ریاست پر
جہاں مسجد بھی مقتل هو، جہاں مکتب بھی مقتل هو-
 

سیما علی

لائبریرین
ہے امن شعریعت تو محبت میرا جہاد.
باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجئیے.
بارود کا نہیں میرا مسلک درود ہے.
میں خیر مانگتا ہوں مجھے مار دیجئیے.
 

سیما علی

لائبریرین
ہتھیلیوں پہ رکھے چراغوں کو خود بجھایا ہوا سے پہلے
اُداس موسم میں بے بسی کا یہ سال کتنا عجیب سا تھا
 

سیما علی

لائبریرین
اس نے ہی پہلی ہوا میں میرا دامن تھاما
جس دِیے کو کسی نیکی کا بدل جانا تھا
وقت کی کتنی کمیں گاہوں سے گزر آئی ہے
زندگی ! اب تو کسی طور سنبھل جانا تھا
 

سیما علی

لائبریرین
عمر بھر چنتے رہے خونِ تمنا کے حروف
عمر بھر ہم داستانِ خونچکاں لکھتے رہے
غم کا طوفاں چشمِ تر میں موجزن ہوتا رہا
ایک ایک آنسو کو بحرِ بیکراں لکھتے رہے
 

سیما علی

لائبریرین
ہر بام و در پہ یوں تو مچلتی ہے روشنی
کترا کے میرے گھر سے نکلتی ہے روشنی
ساحل سے دیکھ شوخیء عکسِ مہِ تمام
موجوں کے ساتھ ساتھ اچھلتی ہے روشنی
 

سیما علی

لائبریرین
"ردائے خواب"
نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں ؟
یہ دستِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر
لَبوں کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے
یہ دِل تو کب کا سو چُکا " ردائے خواب" اوڑھ کر
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
تیرے خیال نے تسخیر کر لیا ہے مجھے
یہ قید بھی ہے،بشارت بھی ہے رہائی کی

متاعِ درد ہے دل میں تو آنکھ میں آنسو
نہ روشنی کی کمی ہے نہ روشنائی کی

اب اپنے آپ کو قطرہ بھی نہیں کہہ سکتا
بُرا کیا جو سمندر سے آشنائی کی

(اقبال اشعر)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم کو خواب اور حقیقت نے ڈسا ہے مل کر
زہر ، اب کون سا باقی ہے؟ جو راس آئے گا
ایک عالم سے کب آسودہ ہوا ہے انساں
وہ تو جنت میں بھی دوزخ کی کمی پائے گا
 

سیما علی

لائبریرین
عجب دل کا حال ہے ہے تنہائی
پیار میں کُچھہ نہیں ہے رسوائی
اے دوست سنبھل کر بھٹکنا کبھی ناں
کسی کے سہارے سنبھلنا کبھی ناں
 

سیما علی

لائبریرین
وقتی می آید صدائے تو،لحظہء دیدن می رسے
ہر چی جادہ ،رو ، زمین،بہ سینہء من می رسے

اے کہ توئی ہمیں کسم،بی تو می گیرے نفسم
اگے تو رو داشتہ باشم،ہر چی می خواہم می رسم

ترجمہ: جب تیری آواز آتی ہے ،تومیں سمجھ جاتا ہوں کہ دیدار کا وقت آن پہنچا ہے
روئے زمین کے تمام راستے میرے سینے کی جانب رواں ہو جاتے ہیں

اے! میرے سب کچھ، تیرے بغیر میری سانس رک جاتی ہے
اگر تو مجھے مل جائے تو دنیا کی ہر چیز میری دسترس میں آ جائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اب محبت کہاں ہے سینوں میں
جل رہا ہے چراغِ حرص و ہوس

آدمیت تو مر چُکی ہے کب کی
آدمی دہر میں ہے زندہ بس
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم سے پہلے کبھی یہ مرتبہء دار نہ تھا
عشق رُسوا تھا مگر یوں‌ سرِ بازار نہ تھا
آج تو خیر ستارے بھی ہیں ویرانے بھی
ہم پہ وہ رات بھی گزری ہے کہ غمخوار نہ تھا
 
Top